Tafseer e Namoona

Topic

											

									  4- مہمان کی ذمہ داری 

										
																									
								

Ayat No : 53-54

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴

Translation

اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.

Tafseer

									 4- مہمان کی ذمہ داری 
 ہمیشہ حقوق اورفرائض برابرکی حیثیت رکھتے ہیں ، یعنی جس طرح مہمان کے لیے میزبان کی کچھ اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، اسی طرح میزبان کی طرف سے مہمان پربھی کچھ اہم ذمداریاں عاید ہیں ، چنانچہ جو کچھ مذکورہ بالا احادیث میں بیان ہوچکا ہے ، اس کے علاوہ بھی مہمان کا فریضہ ہے ۔ جو کچھ اسے صاحب خانہ اپنے گھرمیں پیش کرے ، اسے قبول کرے ، مثلًا جو کچھ بیٹھنے کے لیے حاضر کرے اسے قبول کرے، امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: 
  " اذا دخل احدكم على اخيه في رحله فليقعد حیث یا مرصاحب الرحل فان 
  "صاحب الرجل اعرف بعورة بيته من الداخل عليه"۔ 
  جس وقت تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے گھرمیں داخل ہو تو جہاں وہ بیٹھنے کے لیے کہے وہیں 
  بیٹھ جائے، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی کیفیت اور ان حصوں سے جنہیں آشکار نہیں ہونا چاہیے زیادہ واقف 
  ہوتاہے. ؎3 
 خلاصہ یہ کہ مہمان نوازی اور میزبانی کے آداب و فرائض اور اسلامی معاشرے میں اس کی خصوصیات بہت بحث طلب ہیں۔ جو لوگ اس سلسلے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں ، انہیں بحارالانوار کی جلد 17 کتاب العشرة کے باب 88 سے لے کر93 تک 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     محجۃ البیضاء جلد 3 ص 30  ۔
  ؎2     بحارالانوار جلد 75 ص 455  (حدیث 27)۔
  ؎3     بحارالانوار جلد 75 ص 451 ۔
  ؎4     
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 اور کتاب "محجۃ البيضاء جلد 3 باب 4 فضيلۃ الضیافۃ" کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ 
 افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مادیت پرستی کے اس دور میں یہ قدیم انسانی اور اخلاقی رسم محدود ہوکر رہ گئی ہے بلکہ بعض معاشروں میں توقریبًا ختم ہوچکی ہے ، اورشنید میں آیا ہے کہ جب وہاں کے لوگ اسلامی ممالک میں آتے ہیں اور ان علاقوں میں کھلے دل سے مہمان نوازی کے روح پرور مناظر دیکھتے ہیں اور مہمانوں کے ساتھ گرمجوشی اور مہرومحبت کے سلوک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں کہ کس طرح یہ لوگ اپنے گھر میں موجود زندگی کے بہترین وسائل او قمیتی غذائیں ایسے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے وقف کر دیتے ہیں جن سے تھوڑا بہت رابط ہے یا جن سے سفر کے دوران مختضر سی آشنائی ہوئی ہے ۔ لیکن اگر اسلامی روایات کو مد نظر رکھا جائے کہ جن کا ٹھوڑا سا حصہ سے بیان ہوا ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس قدرایثار و فداکاری کی کیا وجوہات ہیں اور پتہ چل جاتا ہے کہ اس بارے میں معنوی اور روحانی پہلو کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، جو مادیت کے پرستاروں سوچ اورحساب سے بالاتر ہے۔