4- مہمان کی ذمہ داری
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴
اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.
4- مہمان کی ذمہ داری
ہمیشہ حقوق اورفرائض برابرکی حیثیت رکھتے ہیں ، یعنی جس طرح مہمان کے لیے میزبان کی کچھ اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، اسی طرح میزبان کی طرف سے مہمان پربھی کچھ اہم ذمداریاں عاید ہیں ، چنانچہ جو کچھ مذکورہ بالا احادیث میں بیان ہوچکا ہے ، اس کے علاوہ بھی مہمان کا فریضہ ہے ۔ جو کچھ اسے صاحب خانہ اپنے گھرمیں پیش کرے ، اسے قبول کرے ، مثلًا جو کچھ بیٹھنے کے لیے حاضر کرے اسے قبول کرے، امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
" اذا دخل احدكم على اخيه في رحله فليقعد حیث یا مرصاحب الرحل فان
"صاحب الرجل اعرف بعورة بيته من الداخل عليه"۔
جس وقت تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے گھرمیں داخل ہو تو جہاں وہ بیٹھنے کے لیے کہے وہیں
بیٹھ جائے، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی کیفیت اور ان حصوں سے جنہیں آشکار نہیں ہونا چاہیے زیادہ واقف
ہوتاہے. ؎3
خلاصہ یہ کہ مہمان نوازی اور میزبانی کے آداب و فرائض اور اسلامی معاشرے میں اس کی خصوصیات بہت بحث طلب ہیں۔ جو لوگ اس سلسلے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں ، انہیں بحارالانوار کی جلد 17 کتاب العشرة کے باب 88 سے لے کر93 تک
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 محجۃ البیضاء جلد 3 ص 30 ۔
؎2 بحارالانوار جلد 75 ص 455 (حدیث 27)۔
؎3 بحارالانوار جلد 75 ص 451 ۔
؎4
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اور کتاب "محجۃ البيضاء جلد 3 باب 4 فضيلۃ الضیافۃ" کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مادیت پرستی کے اس دور میں یہ قدیم انسانی اور اخلاقی رسم محدود ہوکر رہ گئی ہے بلکہ بعض معاشروں میں توقریبًا ختم ہوچکی ہے ، اورشنید میں آیا ہے کہ جب وہاں کے لوگ اسلامی ممالک میں آتے ہیں اور ان علاقوں میں کھلے دل سے مہمان نوازی کے روح پرور مناظر دیکھتے ہیں اور مہمانوں کے ساتھ گرمجوشی اور مہرومحبت کے سلوک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں کہ کس طرح یہ لوگ اپنے گھر میں موجود زندگی کے بہترین وسائل او قمیتی غذائیں ایسے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے وقف کر دیتے ہیں جن سے تھوڑا بہت رابط ہے یا جن سے سفر کے دوران مختضر سی آشنائی ہوئی ہے ۔ لیکن اگر اسلامی روایات کو مد نظر رکھا جائے کہ جن کا ٹھوڑا سا حصہ سے بیان ہوا ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس قدرایثار و فداکاری کی کیا وجوہات ہیں اور پتہ چل جاتا ہے کہ اس بارے میں معنوی اور روحانی پہلو کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، جو مادیت کے پرستاروں سوچ اورحساب سے بالاتر ہے۔