3- مہمان کا حق
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴
اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.
3- مہمان کا حق:
ہم بتا چکے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں مہمان کی آسمانی تحفہ اور خدائی عنایت ہے۔ اس کی عزت بھی اسی طرح کرنا چاہیئے ، جس طرح اپنی عزت کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں انتہائی احترام ملحوظ خاطر رکھنا چایئے حتی کہ امیرالمومنین علیہ اسلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ:
من حق الضيف ان تمشی معه فتخرجه من حريمک الى
البز"۔
"مہمان کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اسے خدا حافظ کہنے کے لیے گھر کے دروانے تک جائیں ۔ ؎2
اور تکلف میں پڑے بغیر اس کے آرام وآسائش کے وسائل فراہم کیے جائیں ۔ حتی کہ ایک حدیث میں ہے کہ:
"قال رسول الله ان من حق الضيف ان یعد له الخلال - ؎3
"مہمان کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے خلا ل تک مہیا کریں"۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہان کم گو اور شرمیلے ہوتے ہیں اسی بنا پر حکم دیا گیا ہے کہ ان سے کھانا کھانے کے بارے میں نہ پوچھا جاۓ بلکہ دسترخوان بچھا دیا جائے ، اگر ضرورت ہو تو کھا لیں گے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے فرماتے ہیں:
لاتقل لاخيک اذا دخل عليك اكلت الیو مرشيئًا؟ ولكن قرب الیه ما
عندک فأن الجواد كل الجواد من بذل ماعنده"۔
"جب تمھارا بھائی تمھارے پاس آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ آج تم نے کھانا کھایا ہے یا نہیں ، بلکہ جو کچھ
تمھارے پاس ہو ،اس کے لیے حاضرکر دو۔ کیونکہ صحیح معنوں میں سخی وہی ہوتا ہے جو اس چیز کے خروج کرنے
گریزنہ کرےجو اس کے پاس ہے ۔ ؎4
خدا کی بارگاہ میں میزبان کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ جو کھانا اس نے تیار کیا ہے اسے حقیر نہ سمجھے ، کیونکہ نعمت خداجو
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار جلد 75 ص 451۔
؎2 محجۃ البیضاء جلد 3 ص 29 (باب ثالث) ۔
؎3 بحارالانوار جلد 75 ص 455 ۔
؎4 بحارالانوار جلد 75 ص 455 ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بھی ہو معزز اور محترم ہوتی ہے ۔ لیکن ضرورت مند اور تکلف کے دلدادہ لوگوں کے ہاں معمول ہے کہ دستر خوان کو جتنا بھی کھانوں سے. بھردیں ، پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں. یا کہتے ہیں کہ آپ کے شایان شان کھانا تیار نہیں ہوا وغیرہ۔ اسی طرح مہمان کا بھی فرض بنتاہے کہ وہ اسے حقیر اور معمولی نہ سمجھے۔
ایک حدیث حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام اس فرماتے ہیں:
"هلک امرؤحتقر لأخيه ما یحضره وهلك امرو احتقر من
اخيه ماقدم الیہ"َ۔
"میزبان نے اپنے بھائی کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے ، اگر وہ اسے حقیر سمجھے وہ ہلاک و (گمراہ) ہوگا ۔ اسی
طرح جومہمان تیار شدہ چیز کو حقیر سمجھے وہ بھی ہلاک ہوگا"۔ ؎1
اسلام نے مہمان کی قدردانی اور احترام کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا گیا ہے کہ "جب مہمان تمھارے پاس آجائے تو آنے پر اس کی مدد کرو ، لیکن گھر سے جاتے وقت اس کی مدد نہ کرو ، مبادا اس کے دل میں خیال آجائے کہ آپ اس کے جانے کی ترکیبیں کر رہتے ہیں ۔ ؎2