Tafseer e Namoona

Topic

											

									  3- مہمان کا حق

										
																									
								

Ayat No : 53-54

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴

Translation

اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.

Tafseer

									 3- مہمان کا حق:
 ہم بتا چکے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں مہمان کی آسمانی تحفہ اور خدائی عنایت ہے۔ اس کی عزت بھی اسی طرح کرنا چاہیئے ، جس طرح اپنی عزت کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں انتہائی احترام ملحوظ خاطر رکھنا چایئے حتی کہ امیرالمومنین علیہ اسلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ: 
  من حق الضيف ان تمشی معه فتخرجه من حريمک الى 
  البز"۔
  "مہمان کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اسے خدا حافظ کہنے کے لیے گھر کے دروانے تک جائیں ۔ ؎2
 اور تکلف میں پڑے بغیر اس کے آرام وآسائش کے وسائل فراہم کیے جائیں ۔ حتی کہ ایک حدیث میں ہے کہ: 
  "قال رسول الله ان من حق الضيف ان یعد له الخلال - ؎3 
  "مہمان کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے خلا ل تک مہیا کریں"۔ 
 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہان کم گو اور شرمیلے ہوتے ہیں اسی بنا پر حکم دیا گیا ہے کہ ان سے کھانا کھانے کے بارے میں نہ پوچھا جاۓ بلکہ دسترخوان بچھا دیا جائے ، اگر ضرورت ہو تو کھا لیں گے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے فرماتے ہیں: 
  لاتقل لاخيک اذا دخل عليك اكلت الیو مرشيئًا؟ ولكن قرب الیه ما 
  عندک فأن الجواد كل الجواد من بذل ماعنده"۔ 
  "جب تمھارا بھائی تمھارے پاس آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ آج تم نے کھانا کھایا ہے یا نہیں ، بلکہ جو کچھ 
  تمھارے پاس ہو ،اس کے لیے حاضرکر دو۔ کیونکہ صحیح معنوں میں سخی وہی ہوتا ہے جو اس چیز کے خروج کرنے 
  گریزنہ کرےجو اس کے پاس ہے ۔ ؎4
  خدا کی بارگاہ میں میزبان کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ جو کھانا اس نے تیار کیا ہے اسے حقیر نہ سمجھے  ، کیونکہ نعمت خداجو 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     بحارالانوار جلد 75 ص 451۔
  ؎2     محجۃ البیضاء جلد 3 ص 29 (باب ثالث) ۔
  ؎3     بحارالانوار جلد 75 ص 455 ۔
  ؎4     بحارالانوار جلد 75 ص 455 ۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
بھی ہو معزز اور محترم ہوتی ہے ۔ لیکن ضرورت مند اور تکلف کے دلدادہ لوگوں کے ہاں معمول ہے کہ دستر خوان کو جتنا بھی کھانوں سے. بھردیں ، پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں. یا کہتے ہیں کہ آپ کے شایان شان کھانا تیار نہیں ہوا وغیرہ۔ اسی طرح مہمان کا بھی فرض بنتاہے کہ وہ اسے حقیر اور معمولی نہ سمجھے۔ 
 ایک حدیث حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام اس فرماتے ہیں: 
  "هلک امرؤحتقر لأخيه ما یحضره وهلك امرو احتقر من 
  اخيه ماقدم الیہ"َ۔ 
  "میزبان نے اپنے بھائی کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے ، اگر وہ اسے حقیر سمجھے وہ ہلاک و (گمراہ) ہوگا ۔ اسی 
  طرح جومہمان تیار شدہ چیز کو حقیر سمجھے وہ بھی ہلاک ہوگا"۔ ؎1 
 اسلام نے مہمان کی قدردانی اور احترام کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا گیا ہے کہ "جب مہمان تمھارے پاس آجائے تو آنے پر اس کی مدد کرو ، لیکن گھر سے جاتے وقت اس کی مدد نہ کرو ، مبادا اس کے دل میں خیال آجائے کہ آپ اس کے جانے کی ترکیبیں کر رہتے ہیں ۔ ؎2