2- میزبانی میں سادگی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴
اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.
2- میزبانی میں سادگی :
اس ساری اہمیت کے باوجود جو مہمان کو حاصل ہے ، پرتکلف اور انواع و اقسام کے کھانے کھلانا اسلام کی نظر میں نہ صرف یہ کہ اچھا کام نہیں ، بلکہ باقاعدہ طور پر اس سے منع بھی کیا گیا ہے۔ اسلام کا یہ حکم ہے کہ میزبانی اور خاطر تواضع سادہ قسم کی ہو اور اس نے مہمانی اور میزبانی کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کے طور پر ایک نہایت ہی منصفانہ حد بندی کر دی ہے اور وہ یہ میزبان کے پاس ہو کچھ موجود ہے اس سے پہلو تہی نہ کرے اور مہمان بھی اس سے زیادہ کی تو قع نہ رکھے۔ اسی سلسلے میں امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"المؤمن لايحتشم من اخيه، وما ادري ايهما اعجب ؟ الذي
يكلف اخاه اذا دخل عليه ان يتكلف له ، اوالمتكلف لاخيه ؟
"مومن اپنے مومن بھائی کے ساتھ بے تکلف ہوتے ہیں ، میں نہیں جانتا کہ ان دو میں سے کون سا شخص
زیادہ عجیب ہے، آیا وہ جو اپنے بھائی کے پاس جاکر اسے نہیں ڈال دیتا ہے با وہ جو خود سے مہمان کے
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار جلد 75 ص 460 (حدیث 14) باب 93۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
لیے تکلف میں پڑجاتا ہے؟ ؎1
سلمان فارسی راضی اللہ عنہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
"ان لا نتكلف للضيف ما ليس عندنا وان نقدم اليه ما احضرنا۔
"جو چیز ہمارے پاس نہیں ہے اس کے لیے مہمان کے واسطے تکلف نہ کریں اور جو موجود ہے اس سے
پہلو تہی نہ کریں"۔