2- مخالف روایات
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا ۵۲
اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں چاہے دوسری عورتوں کا حسن کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے علاوہ ان عورتوں کے جو آپ کے ہاتھوں کی ملکیت ہیں اور خدا ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے.
2- مخالف روایات:
متعدد روایات میں سے بعض توسند کے لحاظ سے ضعیف اور بعض قابل غور ہیں ان کے مطابق "الایحل لک النساء من بعد" کا جملہ ان عورتوں کی طرف اشارہ ہے ، جن
کی تحریم سورہ نساء کی آیه 23 اور 24 میں بیان ہو چکی ہے (یعنی ماں ، بیٹی ، بہن ، پھوپھی اور خالہ وغیرہ ) ان روایات کے بعض کے ذیل میں یہ صراحت ہوئی ہے کہ یہ کیونکر
ممکن ہے کہ کچھ عورتیں تو دوسرے لوگوں پرحلال ہوں ، لیکن وہی رسالت مآب پر حرام ہوں ؟ کوئی عورت آپ پر حرام نہیں ۔ سوائے ان کے جوسب پر حرام ہیں۔ ؎1
البتہ بعید نظر آتاہے کہ یہ آیت ان آیات کی طرف اشارہ ہوجو سورہ نساء میں گزر چکی ہیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان روایات میں سے
بعض میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ "من بعد" سے مراد سورہ نساء میں حرام شدہ عورتوں کے علاوہ ہے۔
اس بناء پر بہتر ہے کہ ان روایات کی تفسیر سے چشم پوشی اختیار کی جائے جو اخباراحاد میں سے ہیں اور اصطلاحی الفاظ میں "اس کا علم اس کے اہل یعنی
معصومین پر چھوڑدیں"۔ کیونکہ وہ روایات ظاہر آیات کے ساتھ میل نہیں کھاتیں اور ہمیں آیت کے ظاہر پر عمل کرنے کا حکم اور مذکوره اخبار و روایات ظنی ہیں۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ بہت سے علاقوں کا نظریہ ہے کہ زیر بحث آیت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ہر قسم کی نئی شادی کرنے کو حرام قرار
دیا لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور آپ کو ازدواج کی اجازت مل گئی ۔ لیکن آپ نے اس سے ادستفادہ نہیں کیا۔ حتٰی کہ وہ اس آیت "انا احللنالك ازواجك اللاتي أتيت اجورهن ..."
کومذکورہ حکم کا ناسخ مانتے ہیں جو زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ لیکن ان کا نظریہ ہے کہ اگرچہ وہ آیات قرآن میں اس سے پہلے لکھی ہوئی ہے لیکن نازل اس کے بعد ہوئی
ہے ، یہاں تک کہ فاضل مقداد "کنزالعرفان" میں نقل کرتے ہیں کہ علماء کے درمیان مشہورفتوٰی اور نظریہ یہی ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر نورالثقلین جلد 4 294 ، 295
؎2 کنزالعرفان جلد ص 244۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ نظریہ ایک تو مذکورہ بالا روایات کے ساتھ واضح تضاد رکھتا ہے۔ دوسرے کا ظاہر آیات کے ساتھ بھی ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ آیات کا ظاہر بتاتا ہے کہ " انا
احللئالك ازوجک" والی آیت زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہے اورنسخ کا مسئلہ قطعی ویقینی دلیل کا محتاج ہے ۔
بہرحال آیت کے ظاہر سے زیادہ قابل اطمینان اور واضح ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے اورآیت کے مطابق ہرقسم کی نئی شادی یا بیویوں کی تبدیلی ، اس اوپر والی
آیت کے نزول کے بعد پیغمبراکرمؐ کے لیے حرام ہوگئی تھی اور اس حکم میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔