1- اس حکم کا فلسفہ
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا ۵۲
اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں چاہے دوسری عورتوں کا حسن کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے علاوہ ان عورتوں کے جو آپ کے ہاتھوں کی ملکیت ہیں اور خدا ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے.
چندایک نکات
1- اس حکم کا فلسفہ:
یہ حد بندی آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے لیے کوئی نقص شمار نہیں ہوتی ، بلکہ یہ ایک ایساحکم ہے ، جس کا فلسفہ بہت ہی گہرا ہے، کیونکہ تاریخی شواہد
کی بناء پر نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر مختلف افراد اور قبائل کی جانب سے مسلسل زور دیا جارہا تھا کہ آپ اپنی زوجیت کے لیے ان کا رشتہ قبول فرمائیں اور مسلمان قبائل کا ہر
شخص اس بات پر فخر محسوس کرتا تھا کہ ان کے خاندان کی کوئی عورت پیغمبر اسلام سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ، یہاں تک کہ جیسا ابھی بیان ہوچکا ہے کہ بعض عورتیں حق مہر
کے بغیر تیارتھیں کہ اپنے آپ کو "هبہ" کے عنوان سے آنحضرتؐ کے علقہ ازدواج میں دے دیں اور غیر مشروط طور پرآپؐ سے شادی کرلیں۔
البتہ ان قبائل سے رشتہ ازدواج ایک حد تک آنحضرتؐ کی ذات اور ان کے سیاسی ، سماجی اور اجتماعی مقاصد کے لیےگرہ کشا تھا ، لیکن فطری بات ہے کہ کوئی چیز
اگر حد سے گزر جائے تو خود ایک مشکل بن جاتی ہے چونکہ ہر قبیلے کی یہی خواہش تھی کہ آپؐ کو رشتہ دیں اور اگر نبی اکرمؐ بھی ان سب کی خواہشات کو پورا کرنے لگ جاتے اور
کچھ عورتوں کو عقد کی صورت میں ان کی شادی اور بیاہ کی شکل میں اپنے دائرہ اختیار میں لے آتے تو اس سے بہت سی مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ اسی لیے تو خدائے حکیم ایک محکم قانون
کے ذریعے آپ کو اس اقدام سے روک رہا ہے اور ہر قسم کے نئے ازدواج یا موجودہ عورتوں کی تبدیلی سے منع کررہاہے۔
اس دوران میں شاید کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے یہ بہانہ بناتے تھے کہ آپ کی بیویاں عام طورپر بیواہ ہیں اور ان میں سن رسیدہ
خواتین بھی پائی جاتی ہیں ۔ جو حس و جمال سے محروم ہیں ، لہذا مناسب ہے کہ آپؐ کسی حسین وجمیل عورت سے شادی کرلیں ۔ قران خاص کر اس مسئلے کو مد نظر رکھ کر یہ بات زور
دے کر کہتا ہے کہ اگر صاحب جمال عورتیں بھی ہوں تب بھی آپؐ ان سے حق ازدواج نہیں رکھتے۔
علاوہ ازیں حق شناسی کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ آپ کی بیویوں نے آپ کے ساتھ جس وفا کا ثبوت دیا اور دنیا کی ہر چیز پرسادہ اور روحانی زندگی کو ترجیح دی ، خدا
ان کے مقام کی حفاظت کے لیے پیغمبراکرم کو اس قسم کا حکم دے رہا ہے۔
باقی رہاکنیزوں کے بارے میں آنجناب کا مجاز و مختار ہونا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور پاک درحقیقت آزاد عورتوں کی وجہ و مشکلات میں مبتلا تھے ۔ لہذا اس
امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اس حکم کو کنیزوں کے بارے میں بھی محدود کردیاجائے۔ اگرچہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس استثناء سے بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔
یہ تھا وہ مفہوم جوآیت کے ظاہر سے واضح ہوتاہے۔