کیایہ حکم آپؐ کی سب بیویوں کے بارے میں تھا؟
تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ۵۱
ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں اور جن کو الگ کردیا ہے ان میں سے بھی کسی کو چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے - یہ سب اس لئے ہے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور یہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ آپ نے دیدیا ہے اس سے خوش رہیں اوراللہ تمہارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے اور وہ ہر شے کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے.
کیایہ حکم آپؐ کی سب بیویوں کے بارے میں تھا؟
اسلامی فقہ خصائص پیغمبر کے باب میں یہ مسئلہ زیر بحث چلا آرہا ہے کہ آیا بیویوں کے درمیان اوقات کی مساوی تقسیم پیغمبراسلام پربھی اسی طرح واحب ہے جس
طرح دوسرے مومنین پر یا نہیں اور یا آپؐ استثنائی اور اختیاری حکم کے حامل ہیں؟
ہمارے تمام فقہاء اور اہل سنت کے کچھ فقہا کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ اس حکم سے مستثنٰی اوراس کی دلیل میں وہ زیر بحث آیت کو پیش کرتے ہیں ، جس میں
خداکہتاہے :
"ترجی من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء۔"
"جسے آپ چاہیں تاخیر میں ڈال دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھ لیں" ۔
کیونکہ یہ جملہ پیغمبراکرم کی تمام ازواج کے بارے میں گفتگو کرنے کے بعد آیا ہے ، لہذاس بات کا متقاضی ہے کہ مجمع مونث کی ضمیر "هن " ان سب کی طرف
لوٹے اور اسی مطلب کوفقہا اور بہت سے مفسرین نے قبول کیا ہے.
لیکن بعض حضرات اس ضمیر کو ان بیویوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں ، جنہوں نے حق مہر کے بغیر اپنے آپ کو رسول اللہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حالانکہ اولاً
تو تاریخی اعتبار سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے کوئی خارجی موضوع پیدا بھی کیا یانہیں ؟ اور بعض کا نظریہ ہے کہ صرف ایک ہی مو رد تھا ۔ جس میں صرف ایک خاتون اس صورت
سے رسالت مآب کی زوجیت میں داخل ہوئیں، بہرحال اصل مسئلہ تاریخی لحاظ سے ثابت اور مسلم نہیں۔
ثانیًا یہ تفسیر ظاہرآیت کے خلاف ہے اور علماء نے اس آیت کی شان نزول کا جو ذکر کیا ہے، اس سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی بناء پر قبول کرلینا چاہیئے کہ
مذکورہ بالا حکم عام ہے اور سب ازواج کے بارے میں ہے۔