Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک اورمشکل آسان ہوتی ہے

										
																									
								

Ayat No : 51

: الاحزاب

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ۵۱

Translation

ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں اور جن کو الگ کردیا ہے ان میں سے بھی کسی کو چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے - یہ سب اس لئے ہے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور یہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ آپ نے دیدیا ہے اس سے خوش رہیں اوراللہ تمہارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے اور وہ ہر شے کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے.

Tafseer

									  تفسیر 
                 ایک اورمشکل آسان ہوتی ہے: 
 پیغمبراسلامؐ  جیسا عظیم خدائی رہبر جو سخت حوادث اور وسائل میں گھرا ہوا ہو اور اس کے دشمن اس کے خلاف خطرناک داخلی اور خارجی سازشوں میں مصروف ہوں 

تو وہ اپنی شخصی اور خصوصی زندگی کی طرف اپنی فکر کو زیادہ مشغول نہیں رکھ سکتا، اسے اپنی گھریلو زندگی نہیں نسبتًا سکون اور آرام کا حامل ہونا چاہیئے تاکہ وہ جن مشکلات 

کے انبوہ میں گھرا ہوا ہے ان کا حل سکون و اطمیان سے تلاش کر سکے۔ 
 اگرکسی انسان کی خارجی زندگی آشفتگی کا شکارہو اور گھریلو حالات بھی توجہ اپنی طرف مبذول کیے ہوئے ہوں تو ایسے طوفانی لمحات انتہائی خطرناک ثابت ہوتے 

ہیں۔ 
 جیسا کہ گزشتہ آیات کی تشریح  میں ہم ثبوت پیش کرچکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد شادیاں زیادہ ترسیاسی اجتماعی اور انسانی ہمدردی کی 

بناء پرتھیں اور درحقیقت کار رسالت کا ایک حصہ تھیں ، لیکن اس کے باوجود بعض اوقات عورتوں کے درمیان اختلاف اور ان کی معمول کی زنانہ رقابتیں رسول اللہؐ کے گھرمیں ایک طوفان 

کھڑا کر دیتیں اور آپ کی فکر اور دہن کو اپنی طرف مبذول کر لیتیں۔  
 یہی وہ منزل ہے ، جہاں خدا اپنے پیغمبرؐ کو ایک اورخصوصیت عطا فرماتا ہے جہاں سے روز روز کے جھگڑوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے آپ کو آسوده خاطر 

اور فارغ البال کردیا گیا۔ چنانچہ اس آیت میں ہم پڑھتے ہیں : "اگر آپ چاہیں تو ان عورتوں میں سے 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
   ؎1   مجمع البیان اور دوسری تفاسیر سے اقتباس۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہرایک (کے وقت) کو موخر کرکے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھیں تو ایسا کرسکتے ہیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دے سکتے ہیں": (ترجی من تشاء منهن وتؤوي اليک من تشاء) 

- 
 "ترجي" "ارجاء" کے مادہ سے تاخیر کے معنی میں ہے اور "تووی"  "ایواء" کے مادہ سے کسی شخص کو اپنے پاس جگہ دینے کے معنی میں ہے۔ 
 ہم جانتے ہیں کہ تعدد ازواج کے سلسلے میں احکام اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ شوہرا پنے اوقات کو ان کے درمیان منصفانہ طورتقسیم کرے اور اگر ایک رات ان میں 

سے ایک کے ہاں ہے تو دوسری رات دوسری کے پاس رہے۔اس سلسلے میں عورتوں و میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس موضوع کو اسلامی  فقہ میں  "حق قسم" کے عنوان سے تعبیر کیا 

جاتاہے۔ 
 رسول اسلامؐ کے خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ طوفانوں اور بحرانوں سے بھرپور زندگی کے مخصوص حالات کی بناء پر مذکوره بالا میت کی رو سے "حق 

قسم" کی رعایت ، آیت کے ذریعے آپ سے ساقط ہوگئی تھی ۔ خصوصًا جب آپ مدینہ میں موجود تھے۔ بیویاں  متعدد تھیں اور تقریبًا ہرماہ آپ کو کسی نہ کسی مسلط کردہ جنگ کا سامنا بھی 

کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ مذکورہ آیت نے آپ کو مکمل اختیار دے دیا کہ آپ جس طرح چاہیں اپنے اوقات کو تقسیم کر دیں۔ لیکن اس اختیار کے باوجود آپؐ کوشش کرکے عدل و مساوات فرماتے ، 

تاریخ اسلام  میں اس کی مکمل تصریح موجود ہے۔ 
 اس خدائی حکم سے پیغمبراکرم کی بیویوں اور آپؐ کی داخلی زندگی کے ماحول کو سکون اور آرام ملا۔ 
 اس کے بعد قرآن کہتا۔"جس وقت ان میں سے بعض کو ایک طرف کردیں اور پھرچاہیں کہ انھیں اپنے پاس جگہ دیں تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں": (ومن بتغيت ممن عزلت 

قلاجناح عليک)۔ 
 اس طرح سے نہ صرف یہ کہ ابتداء میں آپ کو اختیار ہے ، بلکہ اسے جاری اور برقرار رکھنے میں بھی آپؐ کا یہ اختیار برقرار ہے اور اصطلاح کے مطابق اختیار 

کو "تخيیر استمراری" کہتے ہیں نہ کہ "تخییر ابتدائی" اور اس وسیع اور کھلے اختیارات کے حامل حکم کے بعد آپ کا اپنی بیویوں کے سلسلہ میں ہر کا عذر ختم ہوجاتا ہے اور آپ اپنی 

فکر کو مکمل طور پر رسالت کی عظیم ذمہ داریاں  سنبھالنے کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ 
 ازواج پیغمبر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ انھیں رسول کی زوجہ ہونے کے اعزاز کے علاوہ ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے اوروہ یہ کہ اوقات کی تقسیم کے 

سلسلے میں آنخضرت کو جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں ، وہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں ، جو ایک قسم کے ایثاراور فدا کاری کا کھلاثبوت ہے اور اس طرح ان پر کوئی اعتراض 

وارد ہوسکتا ہے اور نہ بی یہ کوئی معیوب بات ہے ۔ کیونکہ انہوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا ہے، خدا فرماتا ہے۔  "یہ خدائی حکم ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کےلیے ہے ، اور یہ کہ کبھی 

غمگین نہ ہوں ، بلکہ آپ جو کچھ انہیں دیں وہ سب اسی پرراضی ہوں":  (ذالك ادني ان تقرا عينهن ولایحزن ویرضین بما تيتهن كلهن)۔ 


  کیونکہ:
 اولًا:      یہ ان سب کے لیے ایک عمومی حکم ہے اور اس میں کسی قسم کافرق روا نہیں رکھا گیا۔ 
 ثانيا :     یہ حکم خدا کی طرف سے ہے جو نہایت اہم مصلحتوں کی بناء پر جاری کیا گیا ہے ۔ اسی بناء پر انہیں یہ حکم خوشی خوشی قبول کرلینا چاہیئے اور پریشانی 

کے بجاۓ اظہار مسرت کرنا چاہیئے۔ 
 لیکن اس کے باوجود جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو کوشش کرتے کہ تقسیم اوقات کے سلسلے میں عدل  و مساوات کو مد نظر 

رکھا جائے۔ البتہ چند ایک موارد ایسے ہی ملتے ہیں کہ جہاں پر مساوات کو نظرانداز کر دیا گیا ، لیکن اس کا سبب کچھ خاص اور ہنگامی حالات تھے اور یہ ازواج رسولؐ کی خوشنودی کا 

ایک اور سبب تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتی تھیں کہ باوجود یکہ حضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو مکمل اختیارات حاصل ہیں ، لیکن پھربھی حتی الامکان مساوات کو برقرار رکھنے کی کوشش 

کرتے ہیں۔ 
 آیت کے آخر میں اس سلسلے کلام کو اس جملے پر ختم کیا گیا ہے : جو کچھ تمھارے دلوں کے اندر ہے اسے خدا جانتا ہے اور وہ بندوں کے تمام اعمال اور مصلحتوں 

سے باخبر ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حلیم بھی ہے اور بندوں کو عذاب و سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ 
  (واللہ  یعلم مافی  قلوبكم وكان الله عليمًا حليمًا)۔ 
 جی ہاں خدا جانتاہے کہ تم خدا کے کسی حکم پر دلی طور پرراضی ہو اور اسے تسلیم کرتے ہو اور کسی کو ناپسند کرتے ہو؟ 
 وہ جاتاہے کہ تم کن بیویوں کی طرف زیادہ  میلان رکھتے ہو اور کن کی طرف تھوڑے مائل بو؟ اورایسے میلانات کے موقع پر کسی اورطرح حکم خدا کا لحاظ کرتے 

ہو؟ 
 اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون لوگ پوشیدہ جگہوں میں بیٹھ کرپیغمبر کے بارے میں اس قسم کے خدائی احکام پر اعتراض  کرتے رہتے ہیں اور دل میں بھی آپ 

پر معترض ہیں اور کون خندہ پیشانی کے ساتھ ان سب کو قبول کرتے ہیں۔ 
 اس بناء پر "قلوبكم" کی تعبیر بہت وسیع ہے۔ اس میں پیغمبراسلام اور ان کی بیویاں بھی شامل ہیں اور وه تمام مومنین بھی جو ان احکام کے ناتے تسلیم و رضا کا راستہ 

اختیار کرتے ہیں ۔ یا اعتراض اور انکار تو کرتے ہیں ، لیکن اسے ظاہر نہیں کرتے۔