شان نزول
تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ۵۱
ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں اور جن کو الگ کردیا ہے ان میں سے بھی کسی کو چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے - یہ سب اس لئے ہے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور یہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ آپ نے دیدیا ہے اس سے خوش رہیں اوراللہ تمہارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے اور وہ ہر شے کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے.
شان نزول
اسی سورہ کی آیت 28 اور 29 کی تفسیر اور ان کی شان نزول کے بیان میں مفسرین کے بقول پیغمبراکرم کی بعض بیویوں نے آپ سے عرض کیا کہ ہمارے نان و
نفقہ اور اخراجات میں اضافہ کیجیئے۔ (چونکہ ان کی نگاہ مال غنیمت پر لگی ہوئی تھی اور وہ یہ چاہتی تھیں کہ انہیں اس سے زیادہ ملناچاہیئے) اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور
صراحت کے ساتھ ان کے گوش گزار کردیا کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہیں تو ہمیشہ کے لیے پیغمبر سے الگ ہوجائیں اور اگر خدا ، رسول دردز جزا کو چاہتی ہیں تو پھراسی
سادہ زندگی کہ ساتھ نبا کریں ۔
اس کے علاوہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی زندگی کے اوقات کی تقسیم کے بارے میں بھی ان کے درمیان رقابت موجود تھی جو پیغمبراکرمؐ کو تمام
پریشانیوں اور اہم مصروفیات کے ساتھ ساتھ زبردست مشکلات سے دو چار کیے ہوئے تھی ۔ اگرچہ آپ ان کے درمیان ضروری عدالت قائم رکھتے ۔ لیکن پھر بھی وہ باتوں سے باز نہ آتی
تھیں، لہذا زیرنظر آیت نازل ہوئی اورآنحضرتؐ کو ان کے درمیان اپنے اوقات کی تفسیم میں پوری پوری آزادی دی گئی اور ساتھ ہی انھیں بھی خبردار کیا گیا کہ خدائی حکم بے ، لہذااس
سے نہ تو کسی کو پریشانی ہو اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا غلط نتیجہ اخذ کرسکیں. ؎1