4- تعداد ازواج کا فلسفہ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵۰
اے پیغمبر ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دے دیا ہے اور کنیزوں کو جنہیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کی پھوپھی کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے. ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقّت نہ ہو اوراللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے.
4- تعداد ازواج کا فلسفہ:
مذکورہ بالا آیت کا آخری جملہ واقع میں پیغمبراسلام صلی الله علیہ و آلہٰ وسلم کے ان مخصوص احکام کے فلسفے کی طرف اشارہ ہے۔ وہ یہ کہ پیغمبر کے کچھ ایسے
مخصوص حالات ہوتے ہیں جو دوسروں کے نہیں ہوئے اوریہی فرق بعض دوسرے احکام میں بھی فرق کا سبب بن جاتا ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسير مجمع البیان اسی آیت کے ذیل میں تفسیر قرطبی میں بھی یہ جملہ آیا ہے:
"والله مااری ربک الايسارع في هواك"
خدا کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ خدا نے آپ کسی خواہش جلد پورانہ کیا ہو۔
اور آلوسی نے بھی "روح المعانی" میں مذکورہ آیت کے ذیل میں ذکر کیا ہے ، چنانچہ اسی اس قسم کی نامناسب اورچبھتی ہوئی گفتگو کا مفہوم کسی پرپوشیدہ نہیں ۔ لیکن
آنحضرت اپنی عظمت اور جلالت قدر کی وجہ سےاس موقع پر بھی بڑی خوش اسلوبی اور متانت سے گزرجاتے ہیں۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
زیادہ واضح تعبیر میں قرآن کہتا ہے : مقصد یہ تھا کہ کچھ ان احکام کے ذریعے پیغمبر کے کاندھوں سے پابندیاں اور مشکلات ہٹا دی جائیں ۔ یہ ایک ایسی لطیف تعبیر
ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرمؐ کا متعدد اور مختلف قسم کی عورتوں سے شادی کرنا درحقیقت آپ کی زندگی کی اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے ایک سلسلے کو حل کرنے کے
لیے تھا۔
کیونکہ ہرایک کو معلوم ہے کہ جس وقت آنحضرتؐ نے ندائے اسلام بلند کی تو اس وقت آپؐ یکہ و تنہا تھے اور بہت مدت تک سوائے معدودے چند افراد کے آپ پر کوئی
بھی ایمان نہیں لیا تھا۔ آپ اپنے زمانے اور ماحول کے تمام بیہودہ اور فضول نظریات اور عقاید کے خلاف ڈٹ گئے ، سب نے جہاد کرنے کا اعلان کردیا ۔ لہذا فطری طور پر اس معاشرے
کے تمام قبیلے اور قوم آپ کے خلاف متحد اور متفق ہوگئے۔
اب ضروری تھا کہ دشمنوں کے اس ناپاک اتحاد کو توڑنے کے لیے آپ اپنے وسائل بروئے کار لاتے ۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختلف قبائل کے ساتھ رشتہ
ازدواج قائم کرتے ، کیونکہ زمانہ جاہلیت کے عربوں کے درمیان محکم ترین رابطہ رشتہ داری کا رابطہ شمار ہوتا تھا اور کسی قبیلے کے داماد کو اس قبیلے والے ہمیشہ اپنے میں سے
سمجھتے تھے اور اس کی حمایت کرنااپنا فریضہ جانتے تھے اوراسے چھوڑ دینا گناہ تصور کرتے تھے۔
ہمارے پاس بہت سے قرائن موجود ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ آنحضرت کی یہ شادیاں بہت سے موارد میں سیاسی اہمیت کی حامل تھیں اور بعض شادیاں مثلًا زینب
کے ساتھ ازدواج زمانہ جاہلیت کی غلط رسوم کو توڑنے کے لیے تھی جس کی تفصیل اسی سوره کی آیت 28 کے ذیل میں بیان کی جاچکی ہے۔
اور کچھ دوسری شادیاں متعصب لوگوں اور ہٹ دھرم قوموں کی دشمنی میں کمی کرنے یا ان سے دوستی پیدا کرنے کے لیے تھیں،واضح ہے کہ جو شخص 25 سال کی
عمر میں جوکہ عنفوان شباب کا دور ہوتا ہے، ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سے شادی کرتا ہے اور 53 سال کی عمر تک اسی بیوہ خاتون کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرتا ہے اوراسی
طرح وہ اپنی جوانی کی بہاریں گزارنے کے بعد جب بڑھاپے کی خزاں میں قدم رکھتا ہے تو متعدد شادیاں کرتا ہے ۔ تو اس کا یہ عمل یقینًا کسی فلسفے سے خالی نہیں ہے اور کسی بھی
حساب سے اسے جنسی لگاؤ سے متہم نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے باوجود کہ متعدد شادیاں اس زمانے کے عربوں میں ایک عام اور معمول کی طریقہ تھا ۔ کہ بعض اوقات پہلی بیوی دوسری بیوی کی خواستگاری کےلیے جایا
کرتی تھی اور ازواج کی تعداد پرکسی قسم کی پابندی نہیں تھی اور پھرآنحضرت کے لیے عالم جوانی میں متعدد شادیاں کرنے سے نہ کوئی اجتماعی اور معاشرتی مسئل حائل تھانہ مالی حالت
اور نہ ہی یہ کام کسی قسم کا کوئی عیب اور نقص شمار ہوتا تھا۔
پھر لطف کی بات یہ ہے کہ تاریخ میں ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف ایک ہی "باکره" عورت سے شادی کی تھی جن کا نام عائشہ ہے ، باقی
سب بیویاں تھیں ، جو فطری طور پر جذبات کو ابھارنے کا باعث ہرگز نہیں بن سکتی تھیں ۔ ؎1
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار جلد 22 ص 191
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بلکہ میں تاریخوں میں یہاں تک بھی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے عقد تو بہت سی خواتین سے ہوا ۔ لیکن بات عقد کی حد تک محدود رہی اور بس! حتٰی
کہ کئی صورتوں میں تو صرف بعض قبائل کی عورتوں کی خواستگاری کو کافی سمجھا گیا ہے. ؎1
وہ لوگ صرف اسی حد تک خوش تھے اور فخرو مباہات کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ کی کسی عورت کو پیغمبر کی زوجہ ہونے کا شرف اور اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس
طرح سے ان کا معاشرتی تعلق پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ مزید مستحکم ہوجاتا اور وہ آنحضرت کی حامیت اذران کا دفاع کرنے میں زیادہ مصمم ہوجاتے۔
پھر یہ کہ انحضرتؐ یقینًا عقیم نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپؐ نے جو اولاد چھوڑی ہے وہ نہایت ہی کم ہے۔ حالانکہ اگر ان عورتوں سے یہ شادیاں جنسی جذبے کی
تسکین کے لیے ہوتیں تو چاہیئے تھاکہ آپ کے ہاں کثیر تعداد میں اولاد ہوتی۔
نیز یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ان بیویوں میں سے بعض مثلًا حضرت عائشہ جس وقت آنحضرتؐ کی زوجیت میں آئیں تواس وقت بہت ہی کم سن تھیں اور کئی ساں
گزارنے کے بعدرایک بیوی ہونے کے قابل ہوئیں ، تو یہ امرواضح کرتا ہے کہ اس قسم کی "بیوی" سے شادی کرنے کا کچھ اور ہی مقصد تھا اور وہ وہی تھا ، جس کی طرف ہم اشارہ کر
چکے ہیں۔
اگرچه دشمنان اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہڑٖ وسلم کی متعدد ازواج کو اپنے مطلب کا ثبوت قرار دے کر اپنے شدید ترین معاندانہ حملوں کا نشانہ بنانے کی
کوشش کی ہے اور کئی جھوٹے افسانے تراشے ہیں ، لیکن ایک تو متعدد ازواج کے زمانے میں رسول اکرمؐ کی پیرانہ سالی ، دوسرے ان خواتین کے سن اور قبائلی کیفیت اور تیسرے وہ
قرائن پر ابھی بیان ہوچکے ہیں، اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں اور معاندین کی سازشوں کو طشت ازبام کردیتے ہیں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار جلد 22 ص 192