2- اس حکم کا خارجی مصداق
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵۰
اے پیغمبر ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دے دیا ہے اور کنیزوں کو جنہیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کی پھوپھی کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے. ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقّت نہ ہو اوراللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے.
2- اس حکم کا خارجی مصداق :
اس کلی حکم نے پیغمبراسلام کے بارے کوئی خارجی مصداق بھی پیدا کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض مفسرین مثلًا ابن عباس اور
کچھ دوسرے حضرات کا نظریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کیفیت کے ساتھ کسی عورت سے نکاح نہیں کیا اور مذکورہ بالا حکم آپ کے لیے ایک ایسا کلی حکم تھا،
جس سے کبھی بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ بعض دوسرے مفسرین نے آپ کی ان تین چار ازواج کا نام لیا ہے ، جو بغیر حق مہر کے آپ کی زوجیت آئیں۔ وہ "میمونہ بنت حارث" اور "
زینب بنت خزیمہ، جن کاتعلق انصارسے تھا ، بنی اسد کی ایک خاتون "ام شرک بنت جابر" اور "خولہ بنت حکیم" تھیں۔
بعض روایات میں آیا ہے جب خولہ اپنے آپ کو پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بخش دیا تو جناب عائشہ کی صداۓ احتجاج بلند ہوئی اور انھوں نے کہا:
" مابال النساء یبذلن انفسهن بلامهر"
ان عورتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ حق مہر کے بغیر اپنے آپ کو رشتہ ازدواج میں منسلک کردیتی ہیں؟
تواس وقت یہ آیت نازل ہوئی لیکن جناب عائشہ نے حضرت رسالت مآب سے کہا :
"معلوم ہوتاہے کہ اللہ آپ کے مقصد کو بہت جلد پورا کردیتاہے۔ (یہ آپ پر ایک قسم کی طنزتھی)۔
تو آنحضرت نے فرمایا:
"و انک ان اطعت اللہ سارع فی هواك"
" اگر تم بھی خدا کی اطاعت کرلگ جاؤ تو وہ تمھارے مقصد کو بھی جلد پورا کردے"۔ ؎1
اس میں شک نہیں کہ اس قسم کی خواتین تو صرف روحانی اعزاز حاصل کرنے کی خواہاں تھیں ، جو صرف رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہی انھیں
حاصل ہوسکتا تھا۔ اس لیے وہ بغیر کسی حق مہر کے آپ کی زوجیت کے لیے آمادہ ہوگئیں ، لیکن جیسا کہ ہم نے ابھی کہا ہے کہ تاریخی طور پر اس قسم کا خارجی مصداق مسلم نہیں ہے ۔
جو چیز مسلم ہے وہ صرف یہ کہ خدا نے پیغمبر اکرم کو اس قسم کی اجازت دے رکھی تھی رہا یہ سوال کہ اس کا فلسفہ کیا تھا ؟ تو اس کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا ۔