آپ کے لیے کن عورتوں سے نکاح جائز ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵۰
اے پیغمبر ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دے دیا ہے اور کنیزوں کو جنہیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کی پھوپھی کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے. ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقّت نہ ہو اوراللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے.
تفسیر
آپ کے لیے کن عورتوں سے نکاح جائز ہے؟
ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سورہ کی آیات کا ایک حصہ پیغمبراسلام اور ان کی زمہ داریوں کو "لف ونشرمرتب" کی صورت میں بیان کرتا ہے ، لہذا گذشتہ آیت میں
عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں کچھ احکام ذکر کرنے کے بعد یہاں روئے سخن نبی پاکؐ کی طرف کرتے ہوئے سات ایسے مواقع کو بیان کیا گیا ہے ، جہاں آنحضرت صلی الله
علیہ والہٖ وسلم کے لیے نکاح جائز ہے۔
1 - پہلے فرمایا گیا ہے. "اے پیغمبر! ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویوں کو حلال کیا ہے جن کا حق مہر آپ اداکرچکے ہیں": (یاایها النبي انا احللنا لك ازواجک
السلاتي اتيت ا جورهن)۔
ان بیویوں سے مراد بعد والے جملوں کے قرینے کے مطابق وہ عورتیں ہیں جن کی پیغمبراکرم کے ساتھ کسی قسم کی رشتہ داری نہیں تھی ، لیکن انھوں نے آپ سے
نکاح کیا اور شاید حق مہر ادا کرنے کا مسئلہ بھی اسی بناء پرتھا ، کیونکہ رسم تھی کہ غیررشتہ داروں میں شادی کے موقع پر حق مہر نقد اداکرتے تھے۔ علاوہ ازیں حق مہر ادا کرنے
میں جلدی کرنا خصوصًا اس صورت میں جب بیوی کو اس کی ضرورت ہو ، بہتر ہے لیکن واجب نہیں ہے اور طرفین کی باہمی رضامندی کی صورت میں شوہر کے ذمہ سارے کا سارا یا
پھر حصے کی ادائیگی ملتوی بھی کی جاسکتی ہے ۔
2 - "وہ کنیزیں جو غنائم اور انفال کے ذریعے خدا نے آپ کو بخشی ہیں"۔ ( وما ملكب يميئک مماافاء الله علیک)۔
"افاءالله" "فيء" (بروزن شیء) کے مادہ سے ہے اور ایسے مال کو کہا جاتا ہے جو بغیر مشقت کے ہاتھ آئے۔ اسی لیے جنگی غنیمتوں اور اسی طرح انفال (قدرتی
وسائل دولت ، جو اسلامی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان کا کوئی فرد واحد مالک نہیں ہوتا، پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
راغب مفردات میں کہتے ہیں "فيء" بازگشت اور اچھی حالت کی طرف لوٹنے کے معنی میں ہے اور اگر "سایہ" کو "فيء" کہا جاتا ہے تو اس لیے کہ وہ برگشت اور
لوٹنے کی حالت رکھتا ہے، آگے چل کرکہتے ہیں ، بغیر کسی تکلیف اورمحنت و مشقت کے حاصل شدہ مال کو بھی "فیء" کہتے ہیں ، کیونکہ وہ اپنی تمام خیرو خوبی کے باوجود بھی
سائے کی مانند عارضی اور ختم ہونے والا ہوتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ جنگی غنائم میں کبھی کبھی زحمت اورمشقت زیادہ اٹھانا پڑتی ہے ۔ لیکن چونکہ پھر بھی دوسرے اموال کی نسبت سر دردی اور مشقت تھوڑی ہوتی ہے
اور بعض اوقات بہت سے اموال ایک حملے میں ہاتھ آجاتے ہیں ،لہذا انہیں "فیء" کہتے ہیں ۔ کیا یہ حکم آنحضرتؐ کی ازواج میں سے کسی کے بارے میں صادق آتاہے؟ اس ضمن میں
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آپ کی بیویوں میں سے ایک ماریہ قبطیہ غنائم میں سے اور دوسری ازواج "صفیہ" اور "جویریہ" انفال میں سے ہیں جنہوں پیغمبراکرم غلامی کی قید
سے آزاد کر کے اپنی زوجیت کے لیے قبول فرمایا اور غلاموں کو تدریجًا آزاد کرنے اور ان کا انسانی مقام ان کی طرف لوٹانے کے لیے یہ امر بذات خود اسلام کے عمومی پروگراموں کا
ایک حصہ تھا۔
3 - "آپ کے چچا کی بیٹیاں ،پھوپھیوں کی بیٹیاں ، ماموں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے ، یہ بھی آپ پر حلال ہیں"۔ (وبنات عمك وبنات
عماتك وبنات خالك وبنات خالاتک اللاتي هاجرن معک)۔
تو اس طرح سے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چچازاد ، پھوپھی زاد ، ماموں زاد اور اور خالہ زاد عورتوں سے اس شرط کے ساتھ اثر ازدواج جائز ہے کہ انھوں
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہے۔
ان چار گروہوں میں محدودیت واضح ہے، لیکن "مہاجرت" کی شرط اس لیے ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت ایمان کی دلیل تھی اور ہجرت نہ کرنا کفر کی۔ یا اس بنا
پر ہے کہ ہجرت انھیں زیادہ اعزاز دیتی تھی اورآیت میں بھی ان عالی مقام اور صاحب فضیلت عورتوں کو بیان کرنا مقصود ہے ، جو آپ کی زوجیت کے لیے مناسب اور موزوں ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاروں مواقع جو یک کلی حکم کے طور پر آیت میں ذکر ہوئے ہیں ، آیا پیغمبر کی بیویوں میں مصداق خارجی بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ صرف
ایک مقام جسے ذکر کیاجاسکتا ہے، وہ ہے آپ کا اپنی پھوپھی زاد زینب بنت حجش کے ساتھ نکاح ، جس کی داستان اسی سورہ میں گزرچکی ہے ، کیونکہ جناب زینب ، حجش کی بیٹی تھیں
اور حجش آنخضرتؐ کی پھوپھی کا شوہر تھا۔ ؎1
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 یہاں پر "عم" مفردا اور "عمات" جمع کی صورت میں آیا ہے اسی طرح "خال" مفرد اور "خالات" جمع آیا ہے ۔ مفسرین نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں ، جن کو فاضل مقدار
نے کنزالعرفان میں بھی نقل کیا ہے ، لیکن سب سے بہتر وجہ یہ ہے کہ "عم" اور "خال" عام طور پرلغت عرب میں اسم جنس کی صورت میں استمال ہوئے ہیں ۔ جبکہ "عمه" اور "خالہ"
اس طرح نہیں ہیں اور یہ اہل لغت کا عام طریقہ ہے. جسے ابن العربی نے بھی نقل کیا ہے (دیکھو کنزالعرفان جلد 2 ص 241)اور آلوسی نے روح المعانی میں بھی اس وجہ کو باقی تمام
وجوہات پر ترجیح دی ہے۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4 - "جس وقت کوئی ایمان دار عورت اپنے آپ کو پیغمبر کے لیے ہبہ کر دے (اور اپنے لیے کسی قسم کے قح مہر کا مطالبہ نہ کرے) اگر پیغمبر چاہیں تو اس سے
عقد کرسکتے ہیں"۔ (وامرأة مؤمنة ان وهبت نفسهاللنبی ان اراد النبي ان يستنكحها)۔
"لیکن اے پیغمبر! اس قوم کا نکاح صرف آپ کے لیے جائز ہے نہ کہ باقی مومنین کے لیے": (خالصة لك من دون المؤمنين)۔
"ہم جانتے ہیں کہ ہم نے ان کے لیے ان کی بیویوں اورکنیزوں کے بارے میں کون ساحکم مقرر کیا ہے" اوران کی مصلحتوں کا کیا تقاضاہے": (قد علمنامافرضنا عليهم في
ازواجهم وما ملكت ايمانهم)۔
اسی بناء پر اگر ہم نکاح سے متعلق کچھ مسائل میں ان کے لئے بعض مواقع پر پابندی لگا دیتے ہیں تو اس کی بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اور ان میں سے ہر ایک
حکم اور قانون باقاعد حساب و کتاب کے تحت ہے۔
پھرفرمایا گیا ہے۔ یہ اس بناء پر ہے کہ (فریضۂ رسالت کی ادائیگی کے سلسلے میں) آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو (اور آپ اس فریضہ کی بجا آوری میں اپنی ذمہ داریوں
کو ادا کرسکیں) : ( لكيلا يكون عليك حرج)۔
"اورخدا بخشنے والا رحیم ہے": (وكان اللہ غفورًا رحیمًا)۔