Tafseer e Namoona

Topic

											

									  طلاق کے کچھ احکام

										
																									
								

Ayat No : 49

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ۴۹

Translation

ایمان والو جب مومنات سے نکاح کرنا اور ان کو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دینا تو تمہارے لئے کوئی حق نہیں ہے کہ ان سے و عدہ کا مطالبہ کرو لہٰذا کچھ عطیہ دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا.

Tafseer

									  تفسیر
            طلاق کے کچھ احکام : 
 اس سورہ (احزاب) کی آیات کو صاف طور مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے بعض میں تو پیغمبرؐ کو خطاب کیا گیا ہے اور بعض میں تمام مومنین کو ۔ 

اسی لیے کبھی "یا ایها النبى" آیا ہے تو کبھی "یا ایها الذین آمنوا"۔ ان آیات میں لازمی احکام ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی ذات بھی ان 

احکام میں مورد نظر تھی اور تمام مومنین بھی۔ : 
 زیر نظر آیت ان میں سے ہے ، جن میں روئے سخن سب اہل ایمان کی طرف ہے ، جبکہ گذشتہ آیات میں ظاہرًا روئے سخن صرف رسول کریمؐ کی طرف تھا اور پھر 

آیندہ آیات میں دوبارہ پیغمبراکرم کو خطاب کی نوبت آئے گی اور اس سے "لف وانشرمرتب" کی اصطلاح کے مطابق اس سورہ کا ایک حصہ تشکیل پاتا ہے۔ 
 خدا فرماتا ہے:"اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو ، جس وقت ایمان دار عورتوں سے نکاح کرو اور ہم بستری سے پہلے ہی انہیں طلاق دے دو تو تمھاری وجہ سے ان پر 

کوئی عدت نہیں ہے کہ جس کا حساب تم مد نظر رکھو": (یا ایها الذین امنوا اذا نكحتهم المومنات ثم طلقتموهن من قبل ان تمسوهن فمالكم عليھن من عدة نعتدونها)۔ 
 یہاں پر خدا مطلقہ عورتوں کی عدت کے حکم میں ایک استثناء بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر و خول سے پہلے طلاق واقع ہوجائے تو پھر عدت رکھنا ضروری 

نہیں ہے۔ اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے پہلے عدت کا حکم بیان ہو چکا ہے۔ 
 "مؤمنات" کی تعبیر اس بات کی دلیل نہیں کہ غیرمومن یا غیر مسلم عورتوں سے نکاح کلی طور پرممنوع ہے ، ہوسکتاہے کہ ان کی اولیت کی طرف اشارہ ہو ، اسی بناء 

پر یہ آیت کتابیہ عورتوں سے نکاح موقف (متعہ) کی روایات اور مشہور فقہار کے فتاوٰی سے متصادم نہیں ہے۔
 یاد رہے کہ "لكم" (تمھارےلیے) اور اسی طرح "تعتدونها" (عدت کا حساب کرتے ہو) کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے ، عورت کی عدت رکھنا دراصل مرد کا ایک قسم کا 

شمار ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ عورت واقع میں حاملہ ہو، اور علاوہ کو ترک کرکے دوسرے مرد سے ازدواج سبب بن جائے کہ بچے کی کیفیت غیر واضح 

ہو، لہذا مرد کا حق پامال ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ عدت کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے مرد اور عورت دونوں کو اس بات کی فرصت مل جائے گی کہ اگر طیش اور غصے کی 

وجہ سے نوبت اطلاق تک جا پہنچی ہو تو وہ اس مدت میں اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی بھی کرسکیں ، میں عورت اور مرد دونوں کا حق ہے۔ 
 رہا یہ اعتراض جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ اگر عدت مرد کا حق ہے تواس کوساقط بھی کیا جاسکتا ہے. ان کا یہ اعتراض ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ فقہ میں بہت سے 

ایسے حقوق ہیں ، جن کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔ مثل اس حق کے جو میت کے پسماندگان کو اس کے مال حاصل ہوتا ہے  یا وہ حق فقراء کو زکوۃ  میں حاصل ہوتا ہے یا ان میں سے کسی ایک 

کوبھی ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
 اس کے بعد ان عورتیں کے احکام میں سے ایک اور حکم کو بیان کرتا ہے ، جن کو ہم بستری سے پہلے طلاق ہو جائے ۔ اس کی طرف سورہ بقره میں بھی اشارہ ہوچکا 

ہے، فرمایا گیا ہے : انہیں، مناسب ہدیہ کے ساتھ) بہرہ مندکرو (افمثعو ھن) - 
 اس میں شک نہیں کہ عورت کو مناسب ہدیہ دینا اس مقام پر واجب ہوتا ہے ، جہاں اس کے لیے مہر معین نہ ہوا ہو جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت 232 میں آیا ہے:
  "لأجناح عليكم ان طلقتم النساء مالم تمسوهن وتفرضوالھن قرايضة ومتعوهن" 
  تم پر گناہ نہیں ہے کہ اگرتم عورتوں سے اختلاط سے قبل یا تعیین مہر سے پہلے (کسی وجہ سے) طلاق دے دو ،
  لیکن اس موقع پرانہیں (مناسب ہدیہ کے ساتھ )بہرہ مند کرو۔ 
 اسی بناء پر زیر بحث آیت اگرچہ مطلق ہے اور ایسے مواقع بھی اس میں شامل ہیں جن میں مہر کا تعین ہوتا ہے یانہیں ہوتا۔ لیکن سورہ بقرہ کی آیت کے قرینے سے 

موجودہ آیت کوایسے موقع کے لیے مخصوص کیا جائے گا ، جہاں مہر مقرر نہ ہوا ہو ،کیونکہ اگر مہر معین ہوچکا ہو۔ لیکن دخول نہ ہوا ہو تو آدھا مہر ادا کرنا واجب ہے(جیسا کہ سوره 

بقرہ کی آیت 237 میں آیا ہے) ۔  لیکن بعض مفسرین اور فقہاء نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ "مناسب ہدیہ دینے" کا حکم موجودہ آیت میں ایک عمومی حکم ہے ۔
 یہان تک کہ وہ مواقع بھی شامل ہیں ، جن میں مہر مقرر کیا گیا ہے ، البتہ ایسے مواقع پر مستحب ہوتا ہے اور جن مقامات پرمقرر نہیں کیا گیا ، وہان پر واجب ہوتاہے ۔ 

چناچہ بعض آیات اور روایات میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ملتا ہے. ؎1 
 اور اس ہدیے کی مقدار کیا ہونی چاہیے ؟ قرآن مجید اسے اجمالًا بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: 
  "متاعًا بالمعروف "۔ 
  "مناسب ہدیہ"۔      (بقره / 232)
 اسی آیت میں من مزید فرمایا گیا ہے: 
  (على الموسع قدره و على المقترفدره"۔ 
  جو شخص استطاعت رکھتا ہے اس کی استطاعت کے مطابق جوتنگ دست ہے اس کی اپنی استطاعت مطابق۔
 اسی بناء پر اگر اسلامی روایات میں گھر ، ملازم اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کا ذکر آیا ہے ، یہ اس کلیے کے مصداق ہیں جو شوہر کی استطاعت اور بیوی کے 

حالات کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔ 
 اسی آیت کا آخری حکم یہ ہے کہ "مطلقہ عورتوں کو مناسب طریقے پر رخصت کردو اور ان سے اچھے انداز میں جدائی اختیار کرو: " (وسرحوهن سراحًاجميلًا) - 
 "سراح جميل“ کا معنی ہے محبت و احترام کے ساتھ علیحدہ کردینا اور ہر قسم کی سختی ، ظلم اور بے احترامی سے اجتناب کرنا ۔ خلاصہ یہ کہ جیسا کہ سورہ بقرہ 

کی آیت 229 میں آیا ہے کہ "بیوی کو یا تومناسب طور پر اپنے پاس رکھنا چاہیئے یا پھرخیر و خوبی کے ساتھ اسے رخصت کرنا چاہیئے": 
  "فامساك بمعروف او تسریح باحسان"۔ 
  "زوجیت کو برقرار رکھنا بھی انسانی معیار کے مطابق ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے سے علیحدگی اور جدائی بھی۔ نہ یہ کہ جب 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   مثلًا سورہ بقرہ کی آیت 241 اور اس سلسلے کی متعدد روایات ومسائل الشیعہ کی کتاب نکا ح کے"ابواب مہور" میں سے باب 50  (جلد نمبر 15 ص 59) میں بھی موجود 

ہیں ، مجملہ ان کے ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 
  "لكل مطلقہ متعة الا المختلعة". 
  ہر مطلقہ کے لیے مناسب ہدیہ ہونا چاہیئے ، سوائے اس عورت کے جواپنا مہر یا کوئی اور چیز دے کر طلاق لینے میں اپنے شوہر کی رضامندی 

حاصل کرتی ہے۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

----
شوہرعلٰیحدگی کا ارادہ کرے تو اپنی بیوی کے بارے میں ہرقسم کی بے مہری ، ظلم و زیادتی ، بدزبانی ، سختی و درشتی کا مظاہرہ کرے ، کیونکہ یہ یقینًا غیر اسلامی طریقہ کار ہے۔ 
 بعض مفسرین نے"سراح جمیل" کو اسلامی تقاضوں کے مطابق طلاق انجام پانے کے معنی میں لیا ہے اور جو روایت علی بن ابراہیم کی تفسیر اور "عیون الاثبار" میں آئی 

ہے ؛ اس میں بھی یہی معنی بیان ہوا ہے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ "سراح جمیل" اس معنی  محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کا ایک واضح مصداق ہے۔ 
 بعض دوسرے مفسرین نے "سرح جمیل" کو گھر سے باہر جانے کی اجازت اور نقل مکانی کے معنی میں سمجھا ہے ۔ کیونکہ یہاں عورت عدت اور رکھنے کی پابند نہیں 

ہے۔ اسی بناء پر اس کو آزاد چھوڑ دینا چاہیئے تاکہ وہ جہاں جانا چاہے جاسکے۔ 
 لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ "سراح جمیل" اور اس قسم کی دوسری تعبیرات قران کی دوسری آیات میں حتی کہ ان عورتوں کے بارے میں بھی جنہیں عدت 

گزارنی چاہیئے وارد ہوئی ہیں ۔ لہذا یہ معنی بعید نظر آتا ہے۔ 
 " سراح" کے اصل اورلغوی معنی کے سلسلہ میں اور یہ کہ وہ کیوں متعارف اطلاقات میں چھوڑ دینے اور طلاق دینے کے معنی میں 
استعمال ہوا ہے، اسی سورہ احزاب کی آیہ 28 کے ذیل میں ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔