4- آپؐ کا سراج منیرہونا
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۴۵وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ۴۶وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا ۴۷وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ۴۸
اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا. اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے. اور مومنین کو بشارت دے دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل و کرم ہے. اور خبردار کفّار اور منافقین کی اطاعت نہ کیجئے گا اور ان کی اذیت کا خیال ہی چھوڑ دیجئے اوراللہ پر اعتماد کیجئے کہ وہ نگرانی کرنے کے لئے بہت کافی ہے.
4- آپؐ کا سراج منیرہونا:
"سراج" کامعنی " چراغ " اور "منیر کا معنی "نورافشاں" ہے اور یہ پیغمبر گرمیؐ کے معجزات ، حقانیت کے دلائل اور دعوت کی صداقت کی نشانیوں کی طرف اشارہ
ہے، وہ ایسا روشن چراغ ہے جواپنا گواہ خود آپ ہے تاریکیوں کو دور کرتا ہے اور آنکھوں اور دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ جس طرح "آفتاب آمد دلیل آفتاب" ہوتا ہے ، ان کا وجود
بھی ان کی حقانیت کی دلیل ہے۔
یہ بات میں قابل توجہ ہے کہ قران مجید میں چارمرتبہ لفظ سراج آیا ہے جن میں سے تین مقامات پر سورج کے معنی میں آیا ہے جن میں
سے سورہ نوح کی آیت 16 میں فرمایا گیا ہے:
"وجعل القمرفيهن نورًا وجعل الشمس سراجًا"
خدا نے چاند کو آسمان کا نور اور سورج کو چراغ فروزاں قرار دیا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کا "سراج" اصل میں چراغ کے معنی میں ہے جوگزشتہ زمانے میں فتیلے اور سرسوں کے تیل سے جلتا تھا اور وجود دور میں بجلی
وغیرہ کی قوت سے نور اور روشنی کا سر چشمہ ہے ، لیکن مفردات میں راغب کے بقول یہ لفظ تدریجًا نور اور روشنی کے ہر منبع پر بولا جائے گا اور سورج اس کا اطلاق اس بناء ہے
کہ اس کا نور خود اسی کے اندر سے پھوٹتا ہے اور چاند کی طرح کسی اور منبع سے نور نہیں حاصل کرتا۔
نبی کریم صلی الله علیه والہٖ وسلم کا وجود گرامی آفتاب تاباں کی طرح ہے جوجہالت، شرک اور کفر کی ظلمتوں کو انسان کی روح کے افق سے دور کرتا ہے ، لیکن جس
طرح نابینا افرادسورج کی روشنی سے استفادہ نہیں کرسکتے اور جس طرح چمگادڑ کی آنکھیں اس روشنی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور وہ اس سے اپنے آپ کو چھپائے رکھتی
ہے ، اسی طرح دل کے اندھے اور ہٹ دھرم افراد بھی اس نور سے کبھی استفاده نہیں کرسکتے .نہ پہلے اور نہ اب اور اابوجہل جیسے لوگ اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں تاکہ
رسول پاکؐ کے قرآن پڑھنے کی آواز نہ سن سکیں۔ ہمیشہ ظلمت اور تاریکی اضطراب اور وحشت کا سبب ہوتی ہے ، جبکہ نور اور روشنی سکون اور اطمینان کا باعث جو رات کی تاریکی
سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بیابان کے درندے بھی عام طور پررات ہی کی تاریکی میں اپنے ٹھکانوں سے باہر آتے ہیں۔
تاریکی انتشار کا سبب ہے اور نوراجتماع کا باعث ہے۔ اسی بناء پر اگرکسی تاریک رات میں بیابان کے اندر ایک چراغ روشن و کر دیا جائے تو تھوڑی دیر میں انواع و
اقسام کے حشرات اس کے کر جمع ہوجائیں گے۔
روشنی اور نور درختوں کی نشو ونما، پھولوں کی پرورش ، پھلوں کے پکنے غرضیکہ تمام حیاتی فعالیتوں کا سرمایہ ہے۔
ذات پیغمبر کو ایک منبع نور کے ساتھ تشبیہ دنیا ان تمام مفاہیم کو ذہن میں منقش کر دیتا ہے۔
آپؐ کا وجود گرامی باعث سکون ہے ، دین و ایمان کے چوروں اور معاشرے کے بے رحم ستم گر بھیڑیوں کے بھاگ جانے کا سبب نے ، دل کی تسلی کا سرمایا اور
ایمان و اخلاق کی روحانی پرورش اور نشوونما کا ذریعہ ہے۔ غرضیکہ آپ ہی کے دم قدم سے زندگی اور اس کی چہل پہل کا مزہ ہے اور آپ کی تاریخ زندگی اس امر کا زندہ شاہد ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم کہہ چکے ہیں کہ زیر بحث آیات میں سے دو آخری آیتوں میں آنحضرت کی پانچ اہم ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ آپؐ کی پانچ صفات بیان کرنے کے بعد
پہلے مرحلے پر فرمایاگیا ہے ۔" مومنین کو بشارت دیجیئے کہ ان کے لیے خداکی طرف سے فضل اور عظیم اجرہے"۔ ( وبشرالمؤمنين بان لهم من الله فضلًا كبيرًا )۔
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر کی بشارت کامسئلہ صرف نیک مومنین کے اعمال کے اجرو جزا تک ہی محدود نہیں بلکہ خداوند عالم اس پر اپنے فضل وکرم کی
اس قدر بخشش کرے گا کہ عمل اور اجر کے درمیان توازن کا معیار بالکل بدل جائے گا، جیسا کہ قرآن کی کی دوسری آیات اس پرشاہد ناطق ہیں۔ قرآن ایک جگہ فرماتا ہے: من جاء بالحسنة
فله عشر امثالها "۔ (انعام / 120)۔
قرآن دوسری جگہ فرماتا ہے :
"مثل الذین ینفقون أموالهم فی سبل الله كمثل حبة انبتت
سبع سنابل فی كل سنبلة سائة حبة والله يضاعف لمن یشاء۔" (بقرۃ / 261)۔
جس کے مطابق کبھی راہ خدا میں خرچ کرنے کا اجر سات سو گنا اور بھی ہزار گناہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
بعض اوقات ثواب اس سے بھی اوپر چلا جاتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے:
"فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة عين"
"کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس قدر ثواب اس کے لیے چھپا کر رکھا گیاہے جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگا" (الم سجدہ / 17)۔
اس طرح سے خدا کے ایک فضل وکرم کی طرف نشاندہی کی گئی ہے جوکسی کے وہم وگمان میں نہیں آسکتا بلکہ اس سے بھی بلند تراور بالاتر ثواب کی نشان دہی کی
گئی ہے۔
قرآن اس کے بعد دوسرے اور تیسرے حکم پیش کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو": (ولاتطع الكافرين والمنافقين) -
اس میں شک نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہرگز کفار اور منافقین کی اطاعت نہیں کرتے تھے ، لیکن معاملہ اس قدر اہم ہے کہ تاکید تو پیغمبر کو کی
جارہی ہے لیکن تنبیہ دوسروں کو ، کیونکہ سچے رہبروں کو رستے میں جواہم خطرات درپیش ہوتے ہیں وہ یاتو سود ے بازی ہوتی ہے اور یا پھر ہتھیار ڈال دینا ہوتے ہیں اور ان خطرات
کا سرچشمہ یا تو دھمکیاں ہوتی ہیں یا پھر مختلف طریقوں سے لالچ ہوتا ہے حتٰی کہ کبھی کھبار تو انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ان دو
راستوں میں سے کسی ایک کو اپنا ہی لینا چاہیئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے رہبر کی تمام محنت ضائع ہوجاتی ہے اور تمام کوششوں پر پانی پھر جاتا ہے۔
تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ کفار اور منافقوں کے مختلف گروہوں نے بارہا کوشش کی کہ پیغمبراسلام کو بھی مذکورہ صورت و حال سے دو چار کردیں ۔ چنانچہ
کبھی تو انھوں نے کہا کہ بتوں کو برا بھلا نہ کہیں اور کبھی یہ پیش کش کی کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی ۔ کبھی کہتے کہ ہمیں مزید
ایک سال کی مہلت دیں کہ اسی طرح عمل جاری رکھیں، پھر آپ پرایمان لے آئیں گے ۔ کبھی پیش کش کرتے کہ آپ ان غریبوں فقیروں کو اپنے اطراف سے ہٹادیں تاکہ مالدار اور بااثر لوگ
آپ کے ہم نوا بن سکیں۔ اور کبھی مالی امداد کی پیشکش کرتے کبھی عہدہ اور منصب ومقام اور خوبصورت عورتوں کی لالچ دیتے۔
ظاہر ہے کہ یہ سب چیزیں اسلام کی سریع اور تیز پیش رفت اور کفر ونفاق کی بیخ کنی کی راہ میں خطرناک جال تھی ، اگر آپ ان میں سے کسی مطالبے کو مان لیتے یا
اپنی طرف سے ذرہ بھرنرمی اور جھکاؤ کا اظہار کرتے تو اسلامی انقلاب کی بنیادی متزلزل ہوجاتیں ، اس کی عمارت دھڑام سے گرجاتی اور آپ کی کوئی کوشش کسی بھی نتیجہ کو نہ
پہنچ پاتی۔
پھر چوتھے اور پانچویں حکم میں فرمایا گیا ہے۔ "ان کے آزار اور تکلیف پہنچانے کی پرواہ نہ کریں ، خدا پرتوکل کریں ۔ اور یہی کافی ہے
کہ خدا آپ کا حامی اور دفاع کرنے والا ہے": ( ودع اذاهم وتوكل على الله وكفى بالله وکيلًا)۔
آیت کا یہ واضح کرتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر اسلام پر جھکنے اور سر تسلیم خم کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالا اور انواع و اقسام کے آزار و تکالیف سے دوچار کر
دیا اور وه آزار کبھی کوزبان کے ذریعہ زخم لگا کر اور بد زبانی کرکے اور کبھی جسمانی طور پر دکھ پہنچا کر ، کبھی آپؐ کا اور آپ کے اعوان و انصار کا اقتصادی محاصرہ کرکے ،
غرضیکہ انھوں نے اذیتیں پہچانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ البتہ مکہ میں قیام کے دوران اذیتوں کا طریقہ اور تھا اور مدینہ میں اور تھا۔ کیونکہ "اذی" ایک لفظ ہے جو آزار
اور تکلیف کی تمام قسموں کی نشاندہی کرتا ہے.
راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ "اذی" ہر قسم کے ضرر کے معنی میں ہے جو کسی زندہ چیز یا اس سے وابستہ افراد کو پنچے۔ وہ ضرر چاہے، جسمانی ہو یا جانی
دنیوی ہو آخروی۔
البتہ یہ لفظ قرآنی آیات میں خصوصیت کے ساتھ زبانی ایذاء اورتکلیف پہنچانے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلا سورہ توبہ کی آیت 61 میں ہے:
" ومنهم الذين يؤذون النبی ویقولون هو اذن"۔
"ان میں بعض لوگ پیغمبر کواذیت پہنچاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ خوش یقین انسان ہیں اور ہر شخص کی بات پر کان دھرتے ہیں"۔
لیکن دوسری آیات میں یہ لفظ جسمانی تکلیف کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلا سورة نساء کی آیہ نمبر 16 میں بے:
" والذان يأتیانھا منكم فاذ وهما"۔
" وہ مرد اور عورتیں جو اس برے عمل (زنا) کا ارتکاب کرتے ہیں، انھیں آزار دو (ان پرشرعی حد جاری کرو )"۔
تاریخ کہتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں نے طرح طرح کی تکالیف کا پہاڑ کی طرح ڈٹ کرمقابلہ کیا اور کبھی کسی کے
آگے نہیں جھکے۔ ننگ و عار کوتسلیم نہیں کیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے مقاصد جلیلہ میں کامیاب و کامران ہوگئے۔
استقامت اور کامیابی کی وجہ صرف خدا پر توکل اور اس کی پاک ذات پراعتماد تھا۔ وہ خدا جس کے ارادے کے آگے تمام مشکلات کافور ہوجاتی ہیں اور بقول شاعر:
اگر تیغ عالم بجنئد زجای نبردرگی تانخواہد خدای
"اگر ساری دنیا کی تلواریں حرکت میں آ جائیں ، جب تک خدا نہ چاہے ، کسی کی ایک رگ بھی نہیں کاٹ سکتیں"َ
جی ہاں! انسان کا سہارا اور جائے پناہ اس قسم کا خدا ہونا چاہیئے اور بس! جو کچھ تم کہہ چکے ہیں ۔ اس سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ زیربحث آیت کا
مضمون حکم جہاد سے منسوخ نہیں ہوا۔ (جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے) بلکہ ظاہریہ ہے کہ آیات حکم جہاد کے کافی عرصہ بعد اور سورہ احزاب سے متعلق واقعات کے ضمن میں
نازل ہوئي ہیں اور ہر دور میں واجب العمل اور لازم الاجراء ہیں تاکہ خدائی پیشوا اپنی تمام تر قوتیں مخالفین کےاذیت ناک کاموں کو اہمیت دینے میں صرف نہ کردیں ۔ کیونکہ اگر وہ ان کی
پروا کریں گے اوراپنی فعال صلاحیتیں ان کے مقابلے میں صرف کر دیں گے تودشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ کیونکہ دشمن تو چاہتاہی یہ ہے کہ مخالف کے اذہان وافکار کو
الجھادے تاکہ اس طرح سے اس کی طاقت ضائع کردے یہی وہ منزل ہے جس کا واحد حل بے اعتنائی اور "دع اذاهم" والے فرمان پر عمل در آمد ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں احکام جو آخری دوآیات میں ذکر ہوئے ہیں ، ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ مومنین
کو باایمان قوتوں کے جذب کرنے کے لیے بشارت دینا ، کفار اور منافقین سے کسی قسم کی سودے بازی نہ کرنا اور نہ ہی ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ، ان کے آزار و تکلیف کی پرواہ
نہ کرنا اور خدا کی ذات پرتوکل کرنا ، مجموعی طور پر ان میں مقصد تک پہنچنے کا راز پوشیدہ ہے اور یہ راہ حق کے راہیوں کے لیے ایک مکمل اور جامع دستورالعمل ہے۔