3- دعوت اذن الٰہی سے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۴۵وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ۴۶وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا ۴۷وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ۴۸
اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا. اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے. اور مومنین کو بشارت دے دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل و کرم ہے. اور خبردار کفّار اور منافقین کی اطاعت نہ کیجئے گا اور ان کی اذیت کا خیال ہی چھوڑ دیجئے اوراللہ پر اعتماد کیجئے کہ وہ نگرانی کرنے کے لئے بہت کافی ہے.
3- دعوت اذن الٰہی سے:
باوجودیکہ آنحضرتؐ کے تمام کام خدا کے اذن و فرمان سے انجام پاتے ہیں لیکن یہاں پرصرف دعوت کو اذن پروردگار سے مقید کیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
انبیا کا مشکل ترین اور اہم ترین کام کی طرف دعوت دینا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو ان کی خواہشات نفسانی کے برخلاف صحیح راستے پر چلانا ہوتا ہے ۔لہذا اس مرحلے پر خدا کے
اذن و فرمان اور یاوری و مدد کو شامل حال ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے صحیح انجام کو پہنچے۔ ضمنًا یہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ پیغمبراپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ کہتےہیں، اذن
خداسے کہتے ہیں ۔ ؎2
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت 119 کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث "دواہم تربیتی اصول" کے عنوان سے کر چکے ہیں . ( جلد اول دیکھیے)
؎2 یہ احتمال بھی ہے کہ "باذنہٖ" کی قید گزشتہ تمام اوصاف کی طرت لوٹتی ہو۔ لیکن آیت کا ظاہر یہ بتایا ہے کہ صرف "داعیاالى الله" کی طرف لوٹ رہی ہے