Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- لقاء اللہ کیا ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 41-44

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۴۱وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۴۲هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۴۳تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ۴۴

Translation

ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو. اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو. وہی وہ ہے جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی منزل تک لے آئے اور وہ صاحبان هایمان پر بہت زیادہ مہربان ہے. ان کی مدارات جس دن پروردگار سے ملاقات کریں گے سلامتی سے ہوگی اور ان کے لئے اس نے بہترین اجر مہّیا کر رکھا ہے.

Tafseer

									 2- لقاء اللہ کیا ہے؟
 ہم نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں عام طور پر یہ تعبیر قیامت کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ پروردگار کے بارے میں حسی ملاقات کوئی مفہوم نہیں رکھتی کیونکہ وہ 

جسم ہے، نہ ہی عوارض جسم کا حامل ، لہذا بعض مفسرين مجبورًا اصطلاح کے مطابق یہاں مضاف کو مقدر مان کر کہتے ہیں کہ"لقاء ثواب اللہ" یا "خدا کے فرشتوں کی ملاقات" ہے ،لیکن 
یہاں پر "لقاء" کو "لقاء اللہ" کے حقیقی اور دل کی آنکھ کے ساتھ دیکھنے کے معنی میں بھی لیاجاسکتا ہے۔ 
 کیونکہ قیامت کے دن تمام پردے ہٹ جائیں گے اور خدا کی عظمت اور اس کی نشانیاں ہرزمانے سے زیادہ روشن اور واضح طور پر جلوہ گرہونگی۔ انسان باطنی شہود 

اور دل کی آنکھوں کے اندر دیکھنے کے مقام پر پہنچ جائے گا اور ہرشخص اپنی معرفت اور عمل صالح کی مقدار کے مطابق اس شہود کے عالی مرحلے پر فائز ہوگا۔ 
 اسی مناسبت سے جناب فخررازی نے اپنی تفسیر میں نہایت ہی قابل توجہ بات بیان کی ہے جسے ہماری مذکورہ گفتگو کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: 
 اس دنیا میں انسان مادی امور اور تلاش معاش میں مستغرق ہونے کی وجہ سے عام طور پر خدا سے غافل ہوجاتا ہے لیکن 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1      کافی جلد 2 کتاب الدعاء (باب ذکرالله عزوجل) -
؎2      کافی جلد 2 کتاب الدعاء (باب ذکرالله عزوجل) -
؎3    خصائل صدوق مطابق نقل تفسیر المیزان جلد 7/6 ص 353۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 قیامت میں جب یہ تمام امور برطرف ہوجائیں اور انسان فکرمعاش سے بے نیاز ہوجائے گا تو اپنے پورے وجود کے ساتھ پروردگارعالم کی طرف متوجہ ہوجائے گا اور 

یہی "القاءالله" کا معنی ہے ۔ ؎1
  یاد رہے جو کچھ  ہم عرض کرچکے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بعض مفسرین نے یہاں پر جو موت اور فرشتہ موت سے ملاقات کے لمحے کی طرف اشارہ  

سمھجاہے، نہ تو مذکوره آیات سے مناسبت رکھتا اور ہی ان جیسی دوسری قرانی آیات کی تعبیرات سے۔ خصوصًا "يلقونہ" میں مفعول کی ضمیر مفرد کی صورت میں آئی ہے  جواس ذات 

پاک خدا وند متعال کی طرف اشارہ ہے ، جبکہ روح کو قبض کرنے والے فرشتوں کے لیے جمع کا صیغہ ہوتاہے اوراس سے قبل کی آیت میں لفظ "ملائکہ" جمع کی صورت میں آیا ہے (مگر 

یہ کہ کوئی کلمہ مقدر مانا جائے) ۔