Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- ہر حال میں خدا کی یاد

										
																									
								

Ayat No : 41-44

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۴۱وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۴۲هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۴۳تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ۴۴

Translation

ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو. اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو. وہی وہ ہے جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی منزل تک لے آئے اور وہ صاحبان هایمان پر بہت زیادہ مہربان ہے. ان کی مدارات جس دن پروردگار سے ملاقات کریں گے سلامتی سے ہوگی اور ان کے لئے اس نے بہترین اجر مہّیا کر رکھا ہے.

Tafseer

									  چند ایک نکات 
 1- ہر حال میں خدا کی یاد:  
  جس وقت خدا کا نام لیا جاتا ہے، عظمت، قدرت، علم اور حکمت کی ایک دنیا کے دل میں روشن ہوتی ہے کیونکہ وہ اسماءحسنٰی اور اعلٰی صفات کے حامل ، تمام کمالات کا 

مالک اور ہر قسم کے نقص و عیب سے منزه و مبرہ ہے۔ 
 اس حقیقت کی حرف دائمی توجه انسانی روح کو نیکیوں اورپاکیزگیوں کی طرف راہنمانی کرتی ہے اور برائیوں اور قباحتوں حسے سے روکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں 

اس کی صفات کا عکس انسانی روح میں تجلی کرتا تو ہے ، ایسےعظیم معبود کی طرف توجہ اس کی بارگاہ میں دائمی حضور کے احساس کا موجب بنتی ہے اور اس احساس کے ذریعے ہی 

گناہوں سے انسان کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ روز بروز ان سے دور ہوتا جاتاہے۔ 
 اس کی یاد ہمیشہ اس کی نگرانی کی یاد آوری ، اس کے حساب و کتاب اور جزا کی یاد ، اس کے عدل و انصاف اور جنت و دوزخ کی یاد هے ایسی یاد جو روح کوصفا 

اور دل کو نور و حیات عطا کرتی ہے۔ 
 اسی بناء پراسلامی روایت میں آیاہے کہ ہرچیز کی ایک مقدار معین ہے ، سوا ئے یاد خدا کے کہ جس کا کوئی حد و حساب نہیں ۔اصول کافی کی روایت کے مطابق امام 

جعفر صادقؑ  فرماتے ہیں : "ما من ی اولیه شیء الالہ حدیتھی الیہ الا الذكر، فليس له حدی تھی ليہ" 
 ہرایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے کہ جب وہ اس تک پہنچ جائے تو ختم ہوجاتی ہے ، سواۓ یاد خدا کے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔
 پھرمزید فرماتے ہیں :
  "فرض الله عزوجل الفرالض فمن اداھن فهوحدمن ، وشهررمضان 
  فمن صامد فهم مده والحج فمن حج حده، الاالذکر ، فان الله 
  عزرجل لم یرض منه، بالقليل ولم يجعل له حذا ينتهي اليه، ثم 
  تلا : یاایها الذین امنوا اذكرًاكثیرًا وسبحوبكورة واصیلًا"۔ 
  "خدا نے واحب نمازوں کو فرض کیا ہے جو ان کو ادا کر د ے اس نے ان کی حد کو پورا کر دیا ، ماہ رمضان کے 
  جو روزے رکھ لے اس کی حد انجام پاگئی ،جو شخص (ایک مرتبہ) حج بجا لائے تو وہی اس کی حدہے سوائے"ذکرخدائے" کے کہ 
  خدا اس کی قلیل مقدارسے راضی نہیں ہوتا اور اس کے کثیر کے لیے بھی کسی حد کا قائل نہیں۔ پھر آپ نے اپنی گفتگو کے 
  شاہد کے طور پر آیہ" یاایهالذین امنوااذكر و الله ذكرًا كثيرًا ..... تلاوت فرمائی ۔؎1 
 حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام اسی روایت کے ذیل میں اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیه السلام کے بارے میں نقل کرتے ہیں ۔ 
 آنجناب "کثیرالذکر" تھے۔ جس وقت ہم ان کے ساتھ چل رہے ہوتے تو وہ ذکر خدا کر رہے ہوتے اور کھانا کھاتے وقت ذکر خدا میں مشغول رہتے ، یہاں تک کہ جب 

لوگوں سے باتیں کہہ رہے ہوتے تو بھی ذکر خداسے غافل نہ ہوتے .... 
 آخر میں یہ پرمغز حدیث اس جملہ کے ساتھ ختم ہوتی ہے :
  " والبيت الذي يقرء فیہ القران ، ویذكر الله عزوجل فيه تكثر 
  بركته، وتخضرہ الملائكة، وتهجرمنه الشياطين، و یضیء لاهل السماء 
  كما يضيء الكوكب الدری لاهل الارض"۔ 
  "جس گھر میں قرآن کی تلاوت اور خدا کی یاد ہو ، اس میں برکت زیادہ ہوتی ھے فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اورشیاطین 
  اس سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، اور وہ گھراہل آسمان کو یوں چمکتا دکھائی دیتا ہے، جیسے اہل زمین کو چمکتا ستارنظرآتا ہے"۔ 
 اس کے برعکس جس گھرمیں تلاوت قرآن اور ذکر خدانہیں ہوتا اس کی برکتیں اٹھ جاتی ہیں اور فرشتہ ہجرت کر جاتے ہیں اور شیاطین آپڑاؤ ڈالتےہیں ۔ ؎2
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     کافی جلد 2 کتاب الدعاء (باب ذکرالله عزوجل) - 
  ؎2     کافی جلد 2 کتاب الدعاء (باب ذکرالله عزوجل) -
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ ایک حدیث میں یاد خدا کو دنیا وآخرت کی تمام خیر کے ہم پلہ قراردیاگیا ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآہلہٖ وسلم فرماتے ہیں:  
  " من اعطی لسانا ذاكرًا فقد اعطى خيرالدنيا والآخرة"۔ 
  "جس شخص کو خدا نے ذکر کرنے والی زبان عطا کی ہے گویا اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی دے دی گئی هے"۔ ؎1 
 یاد خدا کی اہمیت کے سلسلے میں روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ہم چاہیں کہ ان سب کو یہاں جمع کردیں تو ہم اپنے موضوع سے خارج ہوجائیں گے ۔ اس گفتگو کو ہم 

حضرت صادق آل محمد کی ایک مختصر مگر جامع حدیث ختم کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : 
  "ومن اكثر ذكر الله عزوجل اظله الله في جنته"۔ 
  "جوشخص زیادہ یاد خدا کرے تو خدا اسے اپنے لطف و کرم کے سائے میں بہشت بریں میں جگہ عطا فرمائے گا"۔ ؎2
  (جولوگ اس سلسلے میں آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اصول کافی جلد دوم کے ان ابواب کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جو ذکراللہ کے بارے میں ہیں ، خصوصًا 

جس باب میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص کو کبھی آفات و بلیات اپنا شانہ نہیں بتاتے جو ذکر خدا کرتے ہیں)۔ 
 اس بات کو ایک بارپھر دہرانا ضروری ہے کہ ان سب خیرات و برکات کا تعلق یقینًا ایسے لفظی ذکر اور حرکت زبان سے نہیں ہے جو غور وفکر اور عمل سے خالی ہو 

بلکہ مقصود وہ ذکر ہے جس سے فکر کے سوتے پھوٹتے ہوں اوں جس کا ردعمل انسانی اعمال سے واضح ہو جیساکہ روایات میں اس معنی کی تصریح ہوئی ہے۔ ؎3