Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خدا اور فرشتوں کا درود

										
																									
								

Ayat No : 41-44

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۴۱وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۴۲هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۴۳تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ۴۴

Translation

ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو. اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو. وہی وہ ہے جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی منزل تک لے آئے اور وہ صاحبان هایمان پر بہت زیادہ مہربان ہے. ان کی مدارات جس دن پروردگار سے ملاقات کریں گے سلامتی سے ہوگی اور ان کے لئے اس نے بہترین اجر مہّیا کر رکھا ہے.

Tafseer

									  تفسیر
              خدا اور فرشتوں کا درود : 
 گذشتہ آیات میں تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں پیغمبراسلام کی سخت ذمہ داریوں کے بارے میں گفتگوتھی. اب مندرجہ بالاآیات میں اس تبلیغ کے دامن کو سارے معاشرے 

میں وسعت دینے کے لئے مومنین کی کچھ زمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے اور ان سب کی طرف روئے سخن کرتے تو فرمایا گیا ہے۔ "اسے وہ لوگو! جو ایمان لانے ہوخدا کو زیادہ سے 

زیادو یاد کیا کرو"۔ (یاایها الذین امنوا ذكروا الله ذكرًاكثيرًا)۔
 اور صبح وشام اس کی تسبیح کرو: (وسبحوہ اوربكرة واصيلًا) - 
 چونکہ مادی زندگی میں ان کے لیے غفلت کے عوامل بہت زیادہ ہیں اور شیاطین کے وسوسوں کے تیرے ہرطرف سے چل رہے ہیں . ان سے نبردآزما ہونے کے لیے 

"ذکرکثیر" کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے"ذکر کثیر" اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے یہ ہے کہ پورے وجود کے ساتھ خدا کی طرف توجہ ہو، نہ کہ صرف زباني ۔
 ایسا ذکر کثیر ہے جو انسان کے تمام اعمال پرسایہ فگن ہو اور اس پر نور اور روشنی ڈال رہا ہو ، اس طرح سے قرآن پاک تمام مومنین کو اس بات کا ذمہ دار ٹھراتاہے 

کہ وہ ہر حالت میں یاد خدا میں مصروف رہیں۔ عبادت کے وقت اس حضور قلب او خلوص دل سے یاد کریں، اگر گناہ کے مقامات پر پہنچیں تو اسے یاد کرکے گناہوں سے اپنی آنکھیں بند 

کرلیں ، اگرلغزش ہوجائے تو توبہ کریں اور راہ حق کی طرف پلٹ آئیں ، نعمت کے وقت اسے یاد کریں ، اس کے شکر گزار ہوں ، بلا و مصیبت کے وقت اسے یادکریں. صابروشاکررہیں۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ اس کی یاد کو کبھی دل سے نہ بھلائیں جو زندگی کے ہر شعبہ میں صحیح اور الٰہی طرز عمل کا سبب ہے۔ 
 ایک حدیث جسے صحیح ترمذی اورمنداحمد بن حنبل میں ابو سعید خدری کی وساطت سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاگیاہے ، میں ہے کہ لوگوں 

نے آنحضرت سے سوال کیا:
  " ان العباد افضل درجة عندالله يوم القيامة"۔؟ 
  "قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کس بندے کا درجہ سب سے افضل اور سب سے بہتر ہوگا"؟ 
 تو آپ نے ارشاد فرمایا: 
  "الذاكرون الله كثيرًا" 
  "جو لوگ خدا کو زیادہ یاد کرتے ہیں" ۔ 
 ابوسعید کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: 
  "یارسول الله! ومن الغازی ف سبيل الله 
  "یارسول اللہ! کیا اس قسم کے لوگ راہ خدامیں جہاد کرنے والوں سے بھی بلند مقام کے مالک ہیں ؟" 
  آپ نے فرمای: 
  "لوضرب بسينة فی الكفار والمشركين حتی ینكسر ویختضب
  دمالكان الذاكرون اللہ افضل درجة، منه"۔ 
  "اکر اپنی تلوار سے کفار و مشرکین کے پیکر پر اس قدر ضربیں لگائیں کہ تلوار ٹوٹ جائے اور خون سے رنگین 
  ہوجائے تب بھی وہ لوگ جو خدا کو زیاده یاد کرتے ہیں ، ان سے افضل ہیں"۔ ؎1 
 کیونکہ خالص جہاد بھی خدا کے ذکر کثیر کے بغیر ناممکن ہے۔ 
 یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کثیرایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اگر بعض روایات میں تسبیح حضرت فاطمه الزهرا سلام الله علیہا (34مرتبہ اللہ اکبر،  33 مرتبہ 

الحمدللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ) اور مفسرین کے بعض اقوال میں نہ ذکر کثیر سے مراد صفات علیا، اور "اسماۓحسنٰی اور پروردگار کو ان چیزوں سے پاک بیان کرنا جو اس کے لائق 

نہیں یا اس قسم کے دوسرے امور ہیں تویہ سب ذکر کےواضح مصداق کا بیان ہیں کے مفہوم کو خصوصیت سے ان مصادیق میں سے کسی کے سا تھ محدود کردیا جاۓ۔ 
 جیسا کہ آیات کےسیاق سے معلوم ہوتاہے "ہرصبح و شام  تم خدا کی تسبیح" سے مراد یہ ہے کہ تسبیح کو دن رات جاری رکھا جاۓ اوران دو اوقات کا خصوصیت کے 

ساتھ ذکر کرنا دراصل دن کے آغاز اور اختتام کے طور پر ہے۔ ان لوگوں نے اس کی تفسیر نماز صبح و عصر وغیرہ سے کی ہے تو وہ بھی اس کا ایک مصداق ہے ۔
 اس طرح سے" خدا کا ذکر کثیراور ہرصبح وشام اس کی تسبیح، اپنے پروردگار کی طرف دائمی توجہ اور اسے ہر عیب و نقص سے مبرا جانے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ نیز 

سب جانتے ہیں کہ خداکی یاد انسان کی روح کے لیے اسی قدر اہم ہے جس قدر جسم کے لئے پانی اور غذا - چناچہ سورہ رعد کی آیت 28 میں آیا ہے: 
  " الابذكر الله تطمئن القلوب"۔ 
  "آگاہ رہو کہ صرف خدا کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے"۔ 
 دلوں کے سکون و اطمینان کا نتیجہ بھی وہی ہے جو سورۂ فجر کی آیت نمبر 27 تا 30 میں آیا ہے: 
  یاایها النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضية ، فادخلي في عبادی 
  وادخلي جنتی"۔ 
  "اے نفس مطمئنہ ! اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جا ، جب کہ تو رب سے راضی ہے ، پھر میرے بندوں کے 
  زمرے میں شامل ہو کر میری بہشت میں داخل ہوجا۔ 
 بعد والی آیت درحقیقت ذکر اور دائمی تسبیح کانتیجہ اور علت غائی ہے ، خدا فرماتا ہے۔ وہ وہی تو ہے جوتم پر درود درحمت 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

---
  ؎1   تفسیر المیزان جلد 16 ص 353 بحوالہ درمنشور۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

--- 
بھیجتاہے اور اس کے فرشتے بھی تمھارے لئے رحمت کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ تمھیں وه جہالت ، کفر اور شرک کی تاریکیوں سے ایمان ، علم اور تقویٰ کے نور کی طرف رہنمائی کرے۔ 

(ھوالذي یصلى عليكم وملائكته ليخرجكم من الظلمات الى النور). 
 "کیونکہ وہ مومنین کی بابت رحیم و مہربان ہے "اور اسی بناء پر ان کی ہدایت اور رہبری اس نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اپنے فرشتوں کو بھی ان کی امداد پر مامور 

کیا ہے" :( وكان بالمؤمنين رحیمًا)۔ 
 "يصلي" "صلاۃ" کے مادہ سے ہے ، یہاں توجہ اور مخصوص عنایت کے معنی میں ہے ، یہ عنایت خدا کے بارے میں تونزول رحمت ہے اور فرشتوں کے بارے میں 

استغفاراورتقاضاۓ رحمت ہے۔ جیسا کہ سورۂ مومن کی آیت 7 میں ہے: ويستغفرون اللذين امنوا" یعنی حاملین عرش مومنین کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
 بہرحال یہ آیت ان مومنین کے لیے بشارت عظیم اور بڑی نوید ہے جو ہمیشہ خدا کی یاد میں رہتے ہیں ، کیونکہ آیت صراحت کے ساتھ کہتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف 

سیروسلوک میں تنہا نہیں ہیں بلکہ لفظ "يصلی" فعل مضارع ہے جو استمہراء پر دلالت کرتا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ مومنین ہمیشہ خدا اور اس کے فرشتوں کی رحمت کے زیر 

سایہ رہتے ہیں اور رحمت کے اس سائے میں ظلمت کے پردے شق ہوتے ہیں اور علم و حکمت ، ایمان اور تقوے کانور ان کے قلب و روح پرضو فشانی کرتا ہے۔ 
 جی ہاں! سالکین راہ حق کے لیے یہ آیت بہت بری بشارت ہے اور انھیں نوید دیتی ہے کہ محبوب کی طرف سے زبردست کشش موجود ہے تاکہ بےچارے عاشق کی 

کوششیں کسی نہ کسی نتیجہ تک پہنچ جائے۔ وہ راہ خدا میں مقدم اٹھانے والے مجاہدین کے لیے ضمانت ہے کیونکہ ایسے لوگوں کاشمارخالص افراد کے زمرے میں ہوتاہے جنہیں گمراہ 

کرنے سے شیطان نے پہلے دن ہی اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: 
  "فبعزتك لأغوينهم اجمعين الا عبادك منهم المخلصين" 
  "خداوندا! تیری عزت کی قسم ، سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ (ص / 82-83) 
  "وكان بالمؤمنين رحیما" کے جملے میں "كان" فعل ماضی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی طرف سے ہمیشہ مؤمنین پر ایک خاص رحمت رہتی 

ہے اور یہ اس بات کی ایک اور تاکید ہے جو آیت کے آغازمیں ہے ۔ یہ خدا کی خاص رحمت ہی ہے کہ وہ مومنین کو اوہام ، شہوات اور شیطانی وسوسوں کی تاریکیوں سے نکال کریقین 

واطمینان کے نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے کیونکہ اگر اس کی رحمت شامل حال نہ جو تو خطرات اور پیچیدہ راستہ کبھی طے نہ ہو سکے۔  
 موجودہ سلسلے کی آخری آیت میں مومنین کے مقام اور ان کی جزاء کی عمدہ اورمختصر عبارت میں تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ۔خدائی فرشتوں کا تحیہ ان 

کے لیے جس دن (قیامت) وہ اس سے ملاقات کریں گے، سلام ہے"۔  (تحیتهم يوم یلقونہ سلام )- 
 "تحيت" ماده "حیات" سے  "سلامتی" اور "ایک اور زندگی" کے لیے دعا کرنے کے معنی میں ہے ( مزید وضاحت کے لیےتفسیرنمونہ جلد 4 ص 55 کی طرف رجوع 

کریں ۔ 
 یہ ایسا سلام ہے جوعذاب اور ہرقسم کے درد و رنج اور پریشانی سے محفوظ ہے اور سکون  واطمیان سے ملا ہوا ہے۔ 
 اگرچہ بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ "تحتیهم" مومنین کو آپس میں درود وسلام پیش کرنے کی طرف اشارہ ہے ، لیکن اگر گذشتہ آیات کو دیکھیں جن میں خدا اور ملائکہ 

کی اس جہان میں صلوٰۃ اور رحمت کی گفتگوتھی تو اس کا ظاہر یہ بتایا ہے کہ "یہ تحیہ" بھی اس کے فرشتوں کی جانب سے آخرت میں ہوگا۔ جیسا کہ سورہ رعد کی آیت 23/24 میں 

ہے۔ 
  "والملائكة يدخلون عليهم من كل باب سلام عليكم بما 
  صبرتم"۔ 
  "اس دن فرشتے ان پر ہر دروازے سے دارد ہوں گے اور ان سے کہیں گے تمھارے صبرکی وجہ سے 
  تم پر سلام ہو"۔
 جوکچھ  ہم نے کہا ہے اس سے ضمنی طور واضح ہوجاتا ہے کہ "یوم یلقونہ" سے مراد قیامت کا دن جسے "لقاءاللہ کے دن" کا نام دیا گیاہے۔ عام طور پریہ تعبہر 

قرآنی آیات میں اسی معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ 
 اس تحیہ کے بعد جودرحقیقت آغاز کار سے مربوط ہے اس کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: "خدا نے ان کے لیے بڑاقیمتی اجر فراہم کر 

رکھاہے"۔( واعدلھم اجركريمًا) - 
 یہ ایک ایساجملہ ہے جس میں اختصار کے باوجود تمام چیزیں جمع ہیں اور خدا کی تمام نعمتیں اور ہر قسم کی بخششیں اس میں چھپی ہوئی ہیں۔