Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2-      ثابت قانون اور بدلتی ضرورتیں

										
																									
								

Ayat No : 40

: الاحزاب

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۴۰

Translation

محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیائ علیھ السّلامکے خاتم ہیں اوراللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے.

Tafseer

									 2-      ثابت قانون اور بدلتی ضرورتیں :
  پہلے سوال میں پیشں ہونے والے نظریہ ارتقاء سے قطع نظر یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک جانتا ہے کہ مختلف زمان اور مکان کے تقاضے 

بھی مختلف ہوا کرتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں انسان کی ضروریات ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں ، جبکہ خاتم الانبیاء کی شرایعت کے قوانین ثابت اور لازوال ہیں ، تو کیا یہ قوانین ہر دور کے 

انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ 
 ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا بھی اچھی طرح جواب دیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر تمام اسلامی قوانین جزوی حیثیت کے حامل ہوتے اور ہر 

موضوع کے لیے علٰحیدہ  علحیده جزوی احکام معین کیے ہوتے پھر تو اس سوال کی گنجائش تھی ، لیکن چونکہ اسلام میں کچھ ایسے احکام بھی ہیں جن کے اصول کلی اور نہایت ہی وسیع 

دائرہ کے حامل ہیں جو بدلتی ہوئی ضروریات اور ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا اس قسم کے اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 
 مثلًا زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان قانونی رابطے بڑھ رہے ہیں اور ہر روز نئے نئے معاہدے وجود میں آرہے ہیں جن کا قرآن کے نزول کے وقت 

بالکل وجود نہیں تھا ، مثلًا اس زمانے میں "بیمہ" نام کی کوئی چیز نہیں تھی جس کی آج ایک نہیں ، بلکہ کئی قسمیں ہیں۔ ؎1 
 اسی طرح مختلف قسم کی کمپنیاں ہیں جو موجودہ دور میں ضروریات زمانہ کے تحت معرض وجود میں آئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسلام میں ایک کلی اصول موجود ہے 

جو سوره مائدہ کی ابتدا میں "معاہوں پرعمل کرنا ضروری ہے" کی صورت میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

---
  ؎1    البتہ اسلام میں بہیہ سے ملتے جلتے کئی ایسے موضوع موجود ہیں ، جو ایک خاص حد میں محدود ہیں ، جیسے "ضامن جریرہ" کا مسئلہ ہے ( قتل خطائے محض کی دیت کا عاقلہ 

(خاص قسم  کے رشتہ داروں سے متعلق ہونا) لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ اس مسئلے سے صرف ملتا جلتا ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

---- 
  "یا ایها الذین امنوا اوفوا بالعقود" 
  "اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے معاہدوں پرعمل کرو"۔ 
 یہ حکم ہر قسم کے باہمی معاہدوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ البتہ اس کلی اصول کے لیے اسلام نے کچھ کلی شرائط بھی مقرر کی ہیں جنھیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ 
 اس بنا پر اس سلسلے میں ایک ثابت اور پائیدار کلیہ موجود ہے۔ اگرچہ اس کے مصادیق بدلتے رہتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ پر روز اس کا ایک نیا مصداق مل جائے۔ 
 دوسری مثال اسلام میں "قانون لاضرر" کے نام سے ایک مسلم قانون موجود ہے اور اسلامی معاشرہ میں جو حکم بھی کسی کے لیے ضرر اور نقصان کا سبب بن رہا ہو ، 

اس قانون کے ذریعے اس کا سدباب کیا جاسکتا ہے اور اس طرح سے بہت سے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ 
 ان سب سے قطع نظر "معاشرتی نظام کی حفاظت اور واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے" اور "اہم ترین کو اہم پر مقدم کیا جائے"۔ یہ چند ایک مسائل ایسے ہیں جو بہت 

سے مشکل ترین مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ 
 اس کے علاوہ وہ تمام وسیع اختیارات جو "دلایت فقیہ" کے ذریعے اسلامی حکومت کو حاصل ہیں ، ان کے ذریعے اسلام کے کلی اصولوں کے اندر رہ کر ان مشکلات کا 

حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ 
 البتہ ان امورمیں سے ہر ایک کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے ایک لمبی تفصیل کی ضرورت ہے ، خصوصًا جبکہ اجتہاد کا دروازہ بھی کھلا ہواہے (اجتہاد کا معنٰی 

ہے اسلامی ماخذ سے اسلامی احکام کا استنباط) لیکن ہم یہاں اس تفصیل میں نہیں جاتے کیونکہ اس طرح سے ہم اپنے مقصد سے دور ہٹ جائیں گے ، لیکن پھر بھی ہم نے اشارہ کردیا ہے 

جو مذکورہ بالا اعتراض کا جواب ہوسکتا ہے۔