2- حق کے سامنے جھک جانا ہی عین اسلام ہے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ۳۶وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ۳۷مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا ۳۸
اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھاَلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا. اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اوراللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اوراللہ کا حکم بہرحال نافذ ہوکر رہتا ہے. نبی کے لئے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے یہ گزشتہ انبیائ کے دور سے سنّت الہٰیّہ چلی آرہی ہے اوراللہ کا حکم صحیح اندازے کے مطابق مقرر کیا ہوا ہوتا ہے.
2- حق کے سامنے جھک جانا ہی عین اسلام ہے:
اس میں شک نہیں کہ انسان کا فکری اور روحانی استقلال اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہرکسی کے سامنے سرتسلیم خم کردے ، کیونکہ وہ
بھی اس کی طرح کا انسان ہے اور ہوسکتا ہے کہ کئی مسائل میں وہ (جس کے سامنے جھکایا جارہاہے) غلطی میں مبتلا ہو۔
لیکن جب مسئلے کا سلسلہ عالم اورحکیم خدا اور اس کے پیغمبر تک جاپہنچتا ہو ، جو خدا کے حکم کے ساتھ بولتا اور اسی کے حکم کے مطابق قدم اٹھاتا ہو تو اب مکمل
طور پر سر تسلیم خم نہ کرنا گمراہی کی دلیل ہوگا ، کیونکہ اس کا حکم اور فرمان ہر قسم کے شائبہ تک سے پاک ہوتا ہے۔ نیز اس سے قطع نظر کہ اس کا فرمان خود انسان ہی کے مفاد میں
ہوتاہے اور خدا کی پاک ذات کو تو کوئی چیز بھی فائدہ نہیں پہنچاتی تو کیا پھربھی ممکن ہے کہ کوئی عقلمند انسان اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد اپنے مفادات اور صالح کو پامال کردے؟
ان سب باتوں سے ہٹ کر ، ہم اس کی ملکیت ہیں اور ہمارے پاسں جوکچھ بھی ہے ، اس کا دیا ہوا ہے اوراس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کچھ کر بھی
نہیں سکتے۔ اس لیے قرآن مجید میں بہت سی ایسی آیات دکھائی دیتی ہیں جو اس مسئلے کی طرف اشاره کرتی ہیں۔
کوئی آیت کہتی ہے :
"انما کان قول المومنین اذا دعوا الى الله ورسوله ليحكم بینهم ان يقولوا
سمعنا و اطعنا واولئك هم المفلحون." (النور۔۔۔۔۔۔ 51)۔
"انبیاء کے حقیقی پیروکار وہی لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کا حکم سن کر کہتے ہیں ۔ ہم نے سنا اور
اطاعت کی "۔
"فلا وربک لا يؤمنون حتٰی یحكموك فيما شجر بينهم ثم
لایجد وافی انفسهم حرجًا مما قضيت ويسلموا تسليمًا"۔
(نساء / 65)۔
"تمھارے پروردگار کی قسم کی وہ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ، جب تک کہ تجھے اپنے اختلافات
میں حاکم اور فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں اور پھر تیرے کیے ہوئے فیصلے سے ذرہ برابر بھی ناراضی کا اظہار نہ کریں
اور مکمل طور پر سر تسلیم خم کریں۔"
کبھی قرآن کہتا ہے :
"ومن احسن دینًاممن اسلم وجهه لله وهو محسن" (نساء/ 125)
"کسی شخص کا دین اس شخص سے بہترہے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ پروردگار کے سامنے جھک گیا جبکہ وه
نیکوکار بھی ہے"۔
اصولی طور پراسلام تسلیم کے مادہ سے لیاگیا ہے اور وہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے ۔ اس بناء ہر شخص جس قدرحق کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے
اسی قدر روح اسلام سے ہبرمند ہے۔
اس سلسلے میں لوگوں کی کئی قسمیں ہیں:
ایک گروہ صرف ان امور میں فرمان حق تعالٰی کے سامنے جھکتاہے ، جن میں اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ مشرک ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا نام "مسلم" رکھا
ہوا ہوتا ہے ، ان کا کام "تومن ببعض ونكفر ببعض" کے مصداقص احکام الٰہی کصے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ ایمان بھی لاتے ہیں تو حقیقت میں اپنے مفاد کے لیے ایمان
لاتے ہیں نہ کہ حکم خدا پر۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے، جن کا ارادہ اور خوابش خدا کے ارادے اور خواہش کے تابع ہو تی ہے۔
جس وقت ان کے مفادات فرمان حق سے متصادم دکھائی دیتے ہیں تو وہ اپنے مفادات سے دستکش ہوکر فرمان خدا کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ یہی سچے مومن اور پکے
مسلمان ہوتے ہیں۔
تیسرا گروہ مذکورہ دونوں گروہوں سے برتر اور افضل ہوتا ہے ، یہ لوگ اصولی طور پر وہی کچھ چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے اور وہی ارادہ کرتے ہیں جو خدا کرتا
ہے۔ یہی ان کی تمنا اور منتہائے مقصود ہوتا ہے ، وه اس مقام پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ صرف اسی چیز کو پسند کرتے ہیں جسے خدا پسند کرتا اور کس چیز سے نفرت کرتے ہیں ،
جس سے خدا نفرت کرتا ہے۔
یہی لوگ اس کی بارگاہ کے خواص ، مخلصین اور مقربین ہوتے ہیں ۔ جن کا سارے کا سارا وجود رنگ توحید میں رنگا ہوتا ہے، اس
کی محبت میں غرق اوراس کے جمال میں محو ہوتا ہے ۔ ؎1
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس سلسلہ میں ایک اور بحث بھی جلد 3 میں سورہ نساء کی آیہ 65 کے ذیل میں ہو چکی ہے ۔