1- جھوٹے افسانے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ۳۶وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ۳۷مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا ۳۸
اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھاَلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا. اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اوراللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اوراللہ کا حکم بہرحال نافذ ہوکر رہتا ہے. نبی کے لئے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے یہ گزشتہ انبیائ کے دور سے سنّت الہٰیّہ چلی آرہی ہے اوراللہ کا حکم صحیح اندازے کے مطابق مقرر کیا ہوا ہوتا ہے.
چند اہم نکات
1- جھوٹے افسانے:
پیغمبراسلام کی زینب کے ساتھ شادی کی داستان قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردی ہے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کی
مطلقہ سے شادی کے ذریعے دور جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنا تھا ، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کردیا۔ اس طرح سے انہوں نے
پیغمبراکرم کی ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلی احادیث کا سہارا لیا ہے۔ ان داستانوں میں ایک یہ بھی ہے کہ جس وقت رسول
اکرم زید کی احوال پرسی کے لیے اس کے گھر گئے اور جونہی آپؐ نے دروازہ کھولا تو آپ کی نظر زینب کے حسن و جمال پرجا پڑی تو آپؐ نے فرمایا:
"سبحان الله خالق النورتبارك الله احسن الخالقين"۔
منزہ ہے وہ خدا جونور کا خالق ہے اور جاوید و بابرکت ہے وہ اللہ جو احسن الخالقین ہے"۔
ان لوگوں نے اس جملے کو زینب کے ساتھ آنحضرت صلی الله علیہ والہٖ وسلم کے لگاؤ کی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ عصمت و نبوت کے مسئلے سے قطع نظر بھی
اس قسم کے افسانوں کی تکذیب کے واضح شواہد ہمارے پاس موجود ہیں:
پہلایہ کہ حضرت زینب ، رسول پاکؐ کی پھوپھی زاد تھیں اور خاندانی ماحول میں تقریبًا آپ کے سامنے بڑھی پلی تھیں اور آپؐ ہی نے زید کےلیے ان کی خواستگاری
کی تھی۔ اگرزینب حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن و جمال نے پیغمبراکرم کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیاتھا تو نہ تو اس کاحسن و جمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ہی اس
ماجرے سے پہلے ان کے ساتھ آنحضرتؐ کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینب کوزید کے ساتھ شادی کرنے سےدلچسپی نہ تھی ، بلکہ اس بارے میں انہوں نے
اپنی مخالفت کا اظہارصراحت کے ساتھ بھی کردیا تھا اور وہ اس بات کو کاملًا تریجح دیتی تھیں کہ زید کی بجائے رسول اللہ کی بیوئی بنیں ، کیونکہ جب آنحضرت زید کے لیے زینب سے
خواستگاری کرنے آئے تو وہ نہایت خوش ہوگئیں ، کیونکہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ آپؐ ان سے اپنے
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
--
؎1 عظیم مفسر طبرسی مرحوم "مجمع البیان" میں اس طرح نقل کرتے ہیں کہ
"فتزوجها رسول الله ..... وما اولم علی امرءة من نسائه ما اولم عليها، ذبح شاۃ واطعم الناس الخيز واللحم ،حتي امتد النهار ۔ (مجمع البیان جلد 8 ص 361)۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
---
لیے خواستگاری کی غرض سے تشریف لائے ہیں ، لیکن بعد میں قرآن کی آیت کے نزول اور خدا و پیغمبر کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے زید کے ساتھ شادی کرنے پر راضی ہوگئیں۔
توان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تو ہم کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ آپؐ زنیب کے حالات سے بے خبر تھے ؟ یا آپ ان سے شادی کی خواہش رکھتے
ہوئے بھی اقدام نہیں کرسکتے تھے؟
دوسرا یہ کہ جب زید نے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف رجوع کیا تو آپؐ نے بار بار اسے نصحیت کی اور
طلاق دینے کے لیے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کی نفی کا ایک اور شاہد ہے۔
پهر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادی کا مقصد بیان کرتا ہے تاکہ کسی قسم کی دوسری باتوں کی گنجائش باقی نہ رہے۔
چوتھا امر یہ ہے کہ آیت بالا میں خداوند عالم اپنے پیغمبر فرماتا ہے کہ زید کی مطلقہ بیوی کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انھیں صرف خدا سے ہی ڈرنا چاہیے ۔
خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ہے کہ یہ شادی ایک فرض کی بجا آوری کے طور پر انجام پائی تھی کہ خدا کی ذات کے لیے شخصی معاملات کو ایک طرف رکھ دینا
چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا ہو۔ اگرچہ اس سلسلے میں کور دل دشمنوں کی زبان سے زخم اور منافقین کی افسانہ طرازی کا پیغمبرکی ذات پرالزام ہی کیوں نہ آتا ہو۔ پیغمبراکرم
نے حکم خدا کی اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کی پاداش میں یہ ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اوراب تک کررہے ہیں۔
لیکن سچے رہبروں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آجاتے ہیں ، جن میں انھیں ایثار اور فدا کاری کا ثبوت دینا پڑتا ہے، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتہامات اور
الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ، تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں۔
البتہ اگر پیغمبرگرامیؐ قدر نے زینب کو بالکل ہی نہ دیکھا ہوتا اور نہ ہی پہچانا ہوتا اور زینب نے بھی آپؐ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظہار نہ کیا ہوتا
اور زید بھی انھیں طلاق دینے پر تیار نہ ہوتے (نبوت وعصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر) پھرتو اس قسم کی گفتگو اوران تو ہمات کی گنجائش ہوتی، لیکن پیغمبر کی تو وہ دیکھی دکھائی تھیں
لہذا ان تمام امکانات کی نفی کے ساتھ ان افسانوں کا جعلی اور من گھڑت ہونا واضح ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں نبی اکرمؐ کی زندگی کا کوئی لمحہ یہ نہیں بتاتا کہ آپ کو زینب سے کوئی خاص لگاؤ اور رغبت ہو، بلکہ دوسری بیویوں کی طرح اور شاید ان میں سے بعض
دوسری بیویوں کی نسبت ان سے کم رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کی نفی پر یہ ایک اور دلیل ہے.
آخری بات جس کی طرف ہم یہاں پر اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اس غلط رسم کو مٹانا تو ضروری تھا، لیکن اس کی
کیا ضرورت تھی کہ خود آنحضرت ہی اس کے لیے عملی اقدام اٹھائیں۔ آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ اس مسئلے کو قانون کی صورت میں بیان کردیتے اور دوسروں کو اپنے منہ بولے
بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے شادی کرنے کی ترغیب دلاتے۔
لیکن توجہ رکھنا چاہیئے کہ بعض اوقات ایک جاہلانہ اور غلط رسم کا خاتمہ خاص کر شادی بیاہ کے سلسلے میں اور وہ بھی ایسے افراد سے جو دنیا کی نگاہوں میں کم
حیثیت ہوتے ہیں ، صرف گفتگو سے ممکن نہیں ہوتا، بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ کام اچھا ہے تو پیغمبر اسے خود کیوں نہیں انجام دیتے؟ اپنے آزاد شدہ غلام کی مطلقہ بیوی سے خود
شادی کیوں نہیں کرتے؟ وغیره ۔
اس قسم کے مواقع پر ایک عملی نمونہ اس طرح کے تمام اعترضات کو ختم کردیتا ہے ، فیصلہ کن انداز میں وہ غلط رسم ٹوٹ جاتی ہے قطع نظر اس کے کہ یہ عمل بذات
خود ایک قسم فداکاری اور ایثار بھی تھا۔