Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک بہت بڑی رسم ٹوٹتی ہے

										
																									
								

Ayat No : 36-38

: الاحزاب

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ۳۶وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ۳۷مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا ۳۸

Translation

اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھاَلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا. اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اوراللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اوراللہ کا حکم بہرحال نافذ ہوکر رہتا ہے. نبی کے لئے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے یہ گزشتہ انبیائ کے دور سے سنّت الہٰیّہ چلی آرہی ہے اوراللہ کا حکم صحیح اندازے کے مطابق مقرر کیا ہوا ہوتا ہے.

Tafseer

									  تفسیر
             ایک بہت بڑی رسم ٹوٹتی ہے : 
 سب جانتے ہیں کہ اسلام کی روح تسلیم ہے اور وہ بھی حکم خدا کے سامنے غیرمشروط طور پر ، یہ معنی قرآن کی مختلف آیات اورعبارات سے ظاہر ہوتا ہے ، منجملہ 

ان کے مندرجہ بالا آیت ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کسی ایماندار مرد اور باایمان عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی امر کو ضروری سمجھیں تو حکم خدا 

کے سامنے ان کا اپنا اختیار چلے"۔ (وماکان لمومن ولا مؤمنة اذا قضى الله ورسولہ امرًا ان يكون لهم الخيرة من امر هم)۔ 
 انھیں چاہیئے کہ وہ اپنا ارادہ حق تعالٰی کے ارادے کے تابع کرلیں جیسا کہ ان کا وجود سراپا اسی کے ساتھ وابستہ ہے ۔
 "قضي" یہاں پرقضاۓ تشریعی" قانون ، فرمان اور فیصلہ دبنے کے معنی میں ہے اور واضح سی بات ہے کہ نہ توخدا لوگوں کی اطاعت اور تسلیم کا محتاج ہے اور نہ 

ہی پیغمبراکرم کو ان سے کسی قسم طمع ، بلکہ حقیقت میں خود ان لوگوں کو اپنا فائدہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنے علم و معرفت کے محدود ہونے کی وجہ سے وہ باخبر نہیں ہو پاتے لیکن 

خدا تو جانتا ہے اور اپنے پیغمبر کو حکم بھی دیتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح سے ایک ماہر طبیب بیمار سے کہتا ہے کہ میں اس صورت میں تمہارا علاج کروں گا جب تم میری ہدایت کو 

بسروچشم نے قبول کروگے اوراپنی طرف 
سے خود مختار نہیں بنوگے۔ درحقیقت یہ بات بیمار کے بارے میں طبیب کی ولی شفقت اور انتہائی دل سوزی کی دلیل ہوتی ہے اور خدا تو اس قسم کے طبیب سے بدرجہا اولٰی اور برتر 

ہے ۔
 اسی لیے آیت کے آخر میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :"جوشخص خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی کا شکار 

ہوگا"۔ (ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالاًمبينًا)۔ 
 وہ راہ سعادت کھودے گا اور بے راہروی اور بدبختی کا شکار ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس نے مہربان خدا اور اس کے رسولؐ کے فرمان کی پروا نہیں کی جو خیروسعادت 

کا ضامن ہے. اس سے بڑ کر اور واضح گمراہی کیا ہوسکتی ہے؟ 
 اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشہور داستان کو بیان کیا گیا ہے جو پیغمبراسلام صلی الله علیہ و آلہٖ وسلم کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک 

ہے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔" اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدانے نعمت  دے رکھی تھی اورتم نے (بھی  اے رسولؐ !) اسے 

نعمت دی تھی اور تم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو"۔ (واذ تقول للذي انعم الله عليه وانعمت عليه امسك عليك زوجك واتق الله) - 
 نعمت خدا سے مراد وہی ہدایت اور ایمان کی نعمت ہے جو زید بن حارثہ کو نصیب ہوئی تھی اور پیغمبر کے نعمت یہ تھی کہ آپ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے 

کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔ 
 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زید اور زینب کے درمیان کوئی جھگڑا ہوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدر طول پکڑگیا کہ نوبت جدائي اوع طلاق تک جا پہنچی۔ اگر "تقول" 

کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فعل مضارع ہے اور اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ آنحضرت بارہا بلکہ ہمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔ 
 کیا زینب کا یہ نزاع زید کی سماجی حیثیت کی بناء پرتھا جو زینب کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی ؟ کیونکہ زینب کا ایک مشہور و معروف قبیلہ سے تعلق تھا اور 

زید آزاد شده تھا ۔یازید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟ یا ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تھی ، بلکہ دونوں میں روحانی اور اخلاقی موافقت اور ہماآہنگی نہیں تھی ؟ کیونکہ ممکن ہے 

دو افراد اچھے تو ہوں لیکن فکر و نظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف ہو جس کی بناء پردہ اپنی ازدواجی زندگی کو آیندہ کے لیے جاری نہ رکھ سکتے ہوں ؟
 بہرحال مسئلہ اس حد تک پیچیدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے۔" تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ہے اور تم لوگوں سے 

ڈرتے ہو حالانکہ خدا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو ": وتخفی فی نفسك ما الله مبدیہ وتخشى التاس و الله احق ان تخشاه)۔ 
 مفسرین نے اس مقام پر بہت سی باتیں کی ہیں اور بعض لوگوں کی تعبیرات میں لاپرواہی  اور نافہمی کے سبب دشمن کے ہاتھ بہانے آگئے، حالانکہ ان قرائن سے 

واضح ہوجاتا ہے کہ اس آیت کا مفہوم زیادہ پیچیدہ نہیں ہے کیونکہ آیات کے شان نزول اور تاریخ میں یہ بات موجود ہے کہ پیغمبر کی نظرمیں تھا کہ اگران میاں بیوی کے درمیان صلح 

صفائی نہیں ہو پاتی اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے تو وه اپنی پھوپھی زاو زینب کی اس ناکامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کردیں گے ، اس کے ساتھ آپؐ کو یہ خطرہ بھی 

لاحق تھاکہ لوگ دو وجوہ کی بنا پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیں گے۔ 
 پہلی وجہ تو یہ تھی کہ زید آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا، اور زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق بولے بیٹے کے بھی وہی احکام ہوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے ہوتے 

ہیں ۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھا جاتا تھا۔ 
 دوسری یہ کہ رسول اکرمؐ کیونکر اس بات پر تیار ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپؐ کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ 
 بعض اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا ہوا تھا اور آیت کے بعد والے حصےمیں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے۔ 
 اسی بناء پریہ مسئلہ ایک تو اخلاقی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہ جاہلیت کی دو غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نہایت ہی مؤثر ذریعہ تھا.  (یعنی منہ بولے 

بیٹے کی مطلقہ سے ازدواج . اور آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے عقد)۔ 
 مسلم ہے کہ پیغمبرؐ کوان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہیئے تھا اور نہ ہی فضا کے مکدر ہونے اور زہریلے پروپیگنڈا سے خوف زدہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بہرحال 

کی فطری بات ہے کہ انسان اس قسم کے مواقع پرخصوصًا جہاں بیوی کے انتخاب کا مسئلہ ہو تو خوف و وحشت کا شکار ہوہی جاتا ہے ، خاص کرجب یہ احتمال ہو کہ ایک جنجال کھڑا 

ہوجائے گا اور آپؐ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کے لیے رکاوٹ کھڑی ہوجائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گی اور ان کے دل میں شکوک و 

شبات و پیدا ہوجائیں گے۔ 
 اس لیے آیت کے آخرمیں فرمایاگیا ہے۔ جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کرلیا اوراپنی بیوی کو چھوڑدیا تو ہم اسے تمہاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے 

بٹیوں کے مطلقہ ہوںے کے مطلقہ ہونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو"۔ (فلمًا قض زيد منها وطرًازوجناكها لكي لا يكون على المومنین حرج في ازواج ادعیابهم 

اذا قضوا منهن وطرًا)۔ 
 یہ کام ایسا تھا جسے انجام پاجانا چاہیئے تھا" اور خدا کا فرمان انجا پاکر رہتاہے": (وكان امرالله مفعولًا)۔  
 "أدعياء" "دعی" کی جمع ہے جو منہ بولے بیٹے کے معنی میں ہے، "وطر" ضرورت اور اہم  حاجت کے معنی میں ہے اور "زینب" کی طلاق اور جدائی کے بارے میں 

اس تعبرکا انتخاب حقیقت میں لطف بیان کی وجہ سے بے تاکہ "طلاق" کا لفظ جو عورتوں کے لیے بلکہ مردوں کے لیے بھی عیب ہے ، صراحت کے ساتھ بیان نہ ہو ، گویا یہ دونوں ایک 

دوسرے کے احتیاج مند تھے کہ ایک مدت تک مشترکہ زندگی بسر کریں اورجب یہ احتیاج ختم ہوگئی تو ان کے درمیان جدائی واقع ہوگئی ۔ 
 "زوجناكھا" (ہم اسے آپ کی تزویج میں لے آئے) کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ ازواج ، خدا کی طرف سے تھا۔اسی لیے تاریخ میں آیا ہے کہ "زینب" رسول خدا کی 

دوسری بیویوں پر فخرو مباہات کرتی اورکہتی تھیں: 
  " زوجكن اهلوكن وزوجني الله من السماء"۔ 
  "پیغمبرؐسے تمھارا نکاح تو تمھارے رشتہ داروں نے کیا لیکن میرا نکاح اللہ نے آنحضرت کے ساتھ 
  آسمانوں میں کیا ہے. ؎1 
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن ہرقسم سے کے شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ہے جو زمانہ جاہلیت کی 

ایک کو توڑنے کے لیے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارے کہ پیغمبرؐ کا مختلف عورتوں سے شادی 

کرنا کوئی عام سی بات نہیں تھی، بلکہ اس میں کئی ایک مقاصد کا ذکرکرنا مقصود تھا جو آپؐ کے مکتب کے مستقبل انجام سے تعلق رکھتا تھا۔ 
 "كان امراللہ مفعولا" کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس قسم کے مسائل میں دو ٹوک فیصلہ کردینا چاہیئے اور کرنے کا کام ضرورانجام پذیر ہونا چاہیئے۔ ایسے مسائل 

میں جوکلی اور بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ، ان کے سلسلہ میں دنیا کے شور شرابے اور جنجال کے ساتھ  سامنے ہتھیار نہیں ڈال دینا چاہیئے۔ 
 مذکورہ بالا آیت کی واضح تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے ضمن میں جوالزامات دشمن یا نادان دوست لگاتے ہیں ، وہ بالکل بے بنیاد ہیں اور 

انشااللہ ہم نکات کی بحث میں اس بارے میں مزید وضاحت کریں گے۔ 
 آخری زیر بحث آیت گزشتہ مباحث کی تکمیل کے سلسلے میں یوں کہتی ہے، "خدا نے جو چیز پیغمبر پر واجب کردی ہے اس کے بارے میں ان کے لیے کسی قسم کی 

سختی اور حرج نہیں ہے": (ماكان على النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ)۔
 جب خداوند عالم انھیں کوئی حکم دیتا ہے تواس کے بارے میں کسی قسم کی رو رعایت جائز نہیں ہے ۔ کسی قسم کے چون و چرا کے ہغیر اس پرعمل درآمد ہونا چاہیئے۔ 
 آسمانی رہبروں کو خدائی احکام کے اجراء میں اِدھر اُدھر کی باتوں پر بھی کان نہیں دھرنا چاہیئے ، غلط سیاسی فضا با غلط قسم کے آداب ورسوم جو ماحول پر چھائے 

ہوئے ہیں، مدنظرنہیں رکھنا چاہیئے۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   کامل ابن اثیر جلد 2 ص 177 قابل توجہ امر یہ ہے کہ پیغمبراکرم کی زینب سے شادی پانچویں سحری میں ہوئی (حوالہ مذکررہ)- 
 کیونکہ بعض اوقات اس قسم کے احکام انہی غلط رسومات کو مٹانے اور غلط اور رسوا کن بدعتوں کو قلع قمع کرنے کے لیے ہوتے ہیں ، انہیں ولايخافون لومة لائم (مائده 

/ 54) کا مصداق ہوتے ہوئے دنیا کی کسی سرزنش اور شور وغوغا خاطر میں نہ لاکر حکم انہی  پر کاربند ہونا چاہیئے۔
 اصولی طور پراگر ہم یہ چاہیں کہ جب تک فرمان خدا کے لیے سب کی رضا اور خوشنودی حاصل نہ کرلیں ، اس وقت تک کچھ نہ کریں تو یہ بات قطعًا ناممکن ہے 

کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جوصرف اس دقت راضی ہوتے ہیں جب ہم ان کی تمام خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں یا ان کے مکتب کے پیرکار ہوجائیں، جیساکہ قرآن کہتا ہے۔ 
  " ولن ترضی عنک الیھود ولا النصارٰى حتٰى تتبع ملتهم" 
  یہود و انصاری ہرگز تجھ سے راضی نہیں ہوں گے، جب تک تو ان کے دین کی غیر شروط پیروی نہ کرے"۔ 
       (بقراہ/120)
 زیربحث آیت کے بارے میں بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا تھا، کیونکہ جیسا یہ ہے کہہ چکے ہیں ، رسول خدا صلی الله علیہ والہٖ وسلم کے زینب سے شادی کرلینے پر 

اس ماحول کے عام لوگوں کی نظر میں دو اعتراض تھے ایک تو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی جو ان کی نگاہ میں سگے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے کے مترادف تھا اور یہ ایسی 

بدعت تھی، جسے ہرحالت میں توڑنا چائیے تھا اور دوسرا ایک باوقارشخصیت یعنی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے شخص کا ایک آزاد شده غلام کی مطلقہ سے شادی کرنا ۔ 

کیونکہ یہ چیز پیغمبر کو ایک غلام کے ہم پلہ قرار دیتی تھی اس غلط خیال کو بھی بہر صورت ختم ہونا چاہیئے تھا اوراس کی جگہ انسانی اقدار کو لینا چاہیے تھی اور میاں بیوی کا "کفو" 

ہونا صرف ایمان، اسلام اور تقوٰے کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیئے تھا، اور یہی ہوکررہا۔ 
 اصولی طور پر کسی رسم ورواج کو توڑنے اور غیر انسانی آداب ورسوم کو ختم کرنے سے ہمیشہ ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے ۔ لہذا پیغبروں کو کبھی ایسے ہنگاموں کی پرواہ 

نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے بعد والے جملہ میں فرمایا گیا ہے: انبیاء کے بارے میں یہ خدائی سنت گزشتہ امتوں میں بھی جاری رہ چکی ہے: (سنة الله فی الذين خلوا من قبل)۔ 
 گویا اسے رسول ! صرف آپ ہی ان مشکلات میں گرفتار نہیں ہیں، بلکہ تمام انبیاء غلط رسم ورواج کوتوڑتے وقت ان مشکلات سے دو چار ہوۓ تھے۔
 اس معاملہ میں بے سب سے بڑی مشکل صرف یہ نہیں تھی کہ ان دو غلط رسموں کو توڑا جائے ، بلکہ آنحضرت کی شادی کامسئلہ بیچ میں آجانے کی وجہ سے عیب 

جوئی کے لئے دشمن کے ہاتھ میں ایک اور بہانہ بھی آتا تھا ، جس کا تفصیل بعد میں آئے گی۔ 
 اس قسم کے بنیادی و مسائل کے فیصلہ کن ہونے کو ثابت کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: 
 خدا کا حکم ہمیشہ جچاتلا اور صحیح صحیح پروگرام کے مطابق ہوتا ہے اور اسے نافذ العمل ہونا چاہیے" (وكان امرالله قدًامقدورًا)۔ 
 ہوسکتا ہے کہ "قدًامقدورًا" کی تعبیر فرمان الٰہی کے حتمی ہونے کی طرف اشارہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں حکمت اور مصلحت کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ لیکن 

زیادہ مناسب یہی ہے کہ اس سے دونوں معانی مراد لیے جائیں یعنی فرمان خدا حساب و کتاب پر مبنی بھی ہے اور وہ بغیر کسی حیل و حجت کے نافذالعمل بھی ہے۔ 
 پھرمزیدار بات یہ کہ تاریخی کتابوں میں ہے کہ پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے زینب سے ازواج کے سلسے میں کھانے کی دعوت کاایسا عمومی بندوبست کیا 

، جو اس سے پہلے کسی شادی کے موقع پر دیکھنے نہیں آیا تھا۔ ؎1 
 اس طرح سے گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ آپ کسی طرح میں بے ہودہ اور فضول رسم و رواج سے مرعوب نہیں ، بلکہ اس خدائی حکم کے نفاذ پرفخرکرتے ہیں۔ 

علاوہ ازیں آپ کی نگاہ میں یہ بھی تھا کہ اس طرح سے زمانہ جاہلیت کی رسم کو توڑنے کی آواز نام جزیرۃ العرب کے رہنے والوں کے کانوں تک پہنچ جائے ۔