Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اسلام میں عورت کا مقام

										
																									
								

Ayat No : 35

: الاحزاب

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ۳۵

Translation

بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں.اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیاکررکھا ہے.

Tafseer

									  تفسیر 
             اسلام میں عورت کا مقام :
 ازواج رسول کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں گزشتہ آیات میں مذکورہ گفتگو کے بعد زیر نظر آیت میں عورتوں مردوں اور ان کی برجستہ صفات کا متعلق ایک اورمفید 

گفتگو ہورہی ہے ۔ ان کی دس اعتقادی ، عملی اور اخلاقی صفات کو شمار کرکے ان کے عظیم اجر کو آیت کے آخرمیں بیان کیا گیا ہے۔ 
 ان دس صفات کا ایک خصہ ایمان کے مراحل کے بارے میں ہے (یعنی زبان سے اقرار، قلب و روح سے تصدیق اور ارکان کے ساتھ عمل)۔ 
 اس کا دوسرا خصہ زبان وشکم اور جنسی شہوت پرکنٹرول کے بارے میں ہے کیونکہ تینوں عوامل انسان کی زندگی اوراخلاق کے لیے نہایت ہی موثر اور فیصلہ کن 

نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک اور حصے میں محرومین کی حمایت اور سخت ترین حوادث میں استقامت یعنی صبر کا ذکر ہے تو ایمان کی جڑ ہے۔ آخر میں ان صفات کو اپنائے رکھنے اور 

انہیں دوام بخشنے یعنی ذکر پروردگار کے متعلق گفتگو چناچہ ارشاد ہوتا ہے : "مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں"۔( وان المسلمين والمسلمات)۔ 
 مومن مرد اور مومن عورتیں : (والمؤمنين والمؤمنات) اور وہ مرد جو حکم خدا کے مطیع اور پیروکار ہیں اور وہ عورتیں جو فرمان حق تعالٰی کی اطاعت کرتی ہیں: (والقانتين 

والقانتات)۔ 
 اگر اس آیت میں مفسرین نے "اسلام" اور "ایمان" کو ایک ہی معنی میں لیا ہے لیکن واضح ہے کہ آیت میں تکرار اس بات کی نشاہدہی کرتا ہے کہ ان کے مرد دو الگ الگ 

چیزیں ہیں اور اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو سورہ حجرت آیہ 14 میں آئی ہے: 
  "قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنوا ولٰكن قولوا اسلمنا ولما يدخل 
  ادیان فقلوبكم" 
  "اعراب کہتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں آپ کہہ دیجیئے کہ ابھی تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم اسلام لائے 
  ابھی تو ایمان تمھارے دل کی گہرائیوں میں اترہی نہیں"۔ 
 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام وہ زبانی اقرار ہے جو انسان کو مسلمانوں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے اور اسی پراسلامی احکام نافذ ہوتے ہیں ، لیکن ایمان ، دل کے 

ساتھ تصدیق کرنے کا نام ہے۔ 
 اسلامی روایات میں بھی اس فرق کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ 
 ایک روایت میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے اسلام اور ایمان کے بارے میں آپؑ سے سوال کیا کہ کیا یہ دونوں میں مختلف ہیں؟ تو 

امامؑ نے جواب میں فرمایا: 
 " جی ہاں ایمان، اسلام کے ساتھ ساتھ ہے لیکن ممکن ہے کہ اسلام ، ایمان کے ساتھ نہ ہو۔ 
 صحابی نے مزید وضاحت چاہی تو امام عالی مقام عليہ السلام نے فرمایا: 
  "الاسلام شهادة أن لا اله الا الله والتصديق برسول الله صلى الله عليه والهٖ 
  وسلم، به حقنت الدماء ، وعليه جرت المناكح والمواریث، وعلى ظاهره جماعة 
  الناس، والايمان الیدي ومايثبت في القلوب من صفة الاسلام ، وما ظهر من 
  الحمل به "
  اسلام توحید کی شہادت اور رسالت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق ہے، جو شخص ان امور کا اقرار
  کرے ، اس کی جان (حکومت اسلامی کی پناہ میں) محفوظ ہوگی اور مسلمانوں کااس سے شادی بیاه جائز ہوگا اور وہ مسلمانوں 
  کی میراث لےسکتا ہے ، لوگوں کا ایک گروہ اس ظاہری اسلام ہی کا مصداق ہے ، لیکن ایمان نور ہدایت اور 
  ایسی حقیقت کا نام ہے جودل میں جا گزیں ہوتی ہے اور ایسے اعمال سے عبارت ہے کہ ایمان کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ 
 "قانت"  "قنوت" کے مادہ سے ہے اورجس طرح ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ یہ ایسی اطاعت کے معنی میں ہے جس خضوع و خشوع پایا جاتا ہے۔ ایسی عبادت جو ایمان اور 

اعتقاد کے ساتھ بجالائی جائے ۔ یہ ایمان کے عملی پہلوؤں اور اس کے آثار کی جانب اشارہ ہے۔
 اس کے بعد سچے مؤمنین کی ایک اہم ترین صفت یعنی زبان کی حفاظت کرنے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے اور سچے مرد اور سچی عورتیں"۔ (والصادقين 

والصادقات)۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

- 
  ؎1    اصول کافی جلد 2 ص 41 "ان الايمان يشرك الاسلام"۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

- 
 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کی استقامت اور درستی اس کی زبان کی استقامت پر منحصر ہے ۔ چنانچہ ارشاد 
  " لا يستقیم ایمان امرءحتی یستقیم قلبہ ، ولایستقیم قلبه حتٰى يستقيم 
  السانہ" 
  "انسان کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو ، جب تک اس 
  کی زبان درست نہ ہو اس کادل درست نہیں ہوتا۔ 
 چونکہ مشکلات کے مقابلے میں ایمان کی بنیاد صبروشکیبائی ہے اور معنویت کے لحاظ سے صبر کا مقام و مرتبہ انسان کے بدن  میں مثل" سر" کے ہے. لہذا ان کی 

پانچویں صفت کو یوں بیان کیا گیا ہے" اور صابر و شکیبا مرد اور صابروبا استقامت عورتیں"۔ (والصابرين و الصابرات) 
 ہم جانتے ہیں کہ اخلاقی کے آفات اور اس کے مصائب میں تکبروغرور اورحب جاء و مال بھی ہیں جب کہ اس کا متضاد "خشوع" ہے ، لہذا چھٹی صفت یہ بتائی گئی 

ہے۔ اور با خشوع مرد اور باخشوع عورتيں"۔ (والخاشعين والخاشعات).  
 حب جاہ کے علاوہ حب مال بھی ایک عظیم آفت ہے جس کے چنگل میں پھنس جانا ایک زبردست المیہ ہوتا ہے ۔ بلکہ قید و بند سے کم نہیں ہوتا۔ اس کا متضاد "انفاق" اور 

حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے ۔ اس لیے ساتویں صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے اور انفاق کرنے والے مرد اور انفاق کرنے والی عورتیں"۔ (والمتصدقين والمتصدقات)۔ 
 ہم عرض کرچکے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجائے تو بہت سے شرور اور اخلاقی آفات سے بچ جاتا ہے اور وہ ہیں زبان ، 

شکم اور جنسی خواہشات پہلے حصہ میں چوتھی صفت کی طرف اشارہ ہوا ہے ، لیکن دوسرے اور تیسرے حصے میں سچے مومنین کی آٹھویں اور نویں صفت کی طرف اشارہ کرتے 

ہوئے فرمایا گیا ہے۔ "اور وہ مرد جو روزہ رکھتے ہیں اور وہ عورتیں جو روزہ رکھتی ہیں": ( والصائمين و الصائمات)- 
 "اور وہ مرد ہر اپنے دامن کو فحش آلودگیوں سے بچاتے ہیں اور وہ عورتیں جو پاک دامن ہیں" (والحافظين فروجهم والحافظات )- 
 اور آخر میں دسویں اور آخری صفت بیان کی گئی ہے کہ جس سے عام گزشتہ صفات کا دوام وابستہ ہے، ارشاد ہوتا ہے۔ "اور وہ مرد جو خدا کر زیادہ یاد کرتے ہیں 

اور وہ عورتیں جو خدا کے زیادہ یاد کرتی ہیں"۔  (والذ كرين الله كثيرًا والذاكرات). 
 جی ہاں! وہ خدا کے ساتھ ہرحالت میں اور تمام مقامات پرغفلت اور بے خبری کے پردوں کو اپنے دل سے ہٹا دیتے ہیں شیاطین کے وسوسوں اور بے ہودہ خیالات کو 

دور کر دیتے ہیں ۔ اور اگر ان سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے، تو فورًاس 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    محجۃ البيضاء جلد 5 ص 153 - 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کی تلافی کردیتے ہیں تاکہ خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم سے ہٹ نہ جائیں 
 "ذكر كثيرًا" سے کیا مراد ہے ؟ اسلامی روایات اور مفسرین کی گفتگو میں اس کی مختلف تفسیریں بیان ہوئی ہیں جو بظاہراس کا مصداق شمار ہوں گی اور اس لفظ کا اس 

لفظ کا وسیع مفہوم ان سب پر محیط ہوگا۔ 
 منجملہ ان کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ایک مبارک حدیث ہے: 
  "اذا ايقظ الرجل اهله من الليل فتوضا وصليا كتبا من الذاكرين الله 
  كثيرًا والذاكرات" 
  جب کوئی مرد اپنی بیوی کو رات کے وقت بیدار کرے اور دونوں وضو کر کے نماز (تہجد) ادا کریں تو ان دونوں کا 
  شمار ان مردوں اور عورتوں میں ہوگا جوخدا کوزیادہ یاد کرتے ہیں ۔ ؎1 
 ایک اور حدیث حضرت امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں؛ 
  جوشخص  فطمہ الزھرا علیہاالسلام کی تسبیح رات کو پڑھے تو وہ اس آیت کا مصداق ہوگا۔ 2 
 بعض مفسرین نے کہا ہے کہ "ذکرکثیر" یہ ہے کہ : 
 "قیام وقعود کی حالت میں اور بستر پر جاکر خدا کو یاد کیا جائے "۔
 تفسیر جو بھی ہو ذکر ہہرحال فکرکی نشانی ہے اور فکر عمل کا مقدمہ اور تمہید ہے اور مقصد قطعًا فکر وعمل سے خالی ذکر نہیں ہے۔ 
 آیت کے آخر میں ایسے مردوں اور عورتوں کے عظیم اجر کو اس طرح بیان کیا گیا۔ "خدا نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم فراہم کررکھا گیا" : (اعدالله لهم مغفرة 

واجرًا عظيمًا)۔ 
 خداوند عالم پہلے مرحلہ میں ان کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے جو ان کی روح کی آلودگی کا موجب بنتے ہیں، پھر انہیں عظیم اجر عطا کرتاہے ایسا اجرجس کی عظمت خود 

اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ درحقیقت ان میں سے ایک میں ناگوار حالات کی نفی کا اور دوسرے میں خوشگوار حالات کے پیدا کرنے کا پہلو موجود ہے ۔
 اجرکی تعبیر ویسے بھی اس کی عظمت کی دلیل ہے اور پھراس کو "عظیم" کی صفت کے ساتھ موصوف کرنا اس عظمت کی تاکید ہے اور پھراس عظمت کومطلق اور 

بغیر کسی قید کے ذکرکرنا اس کی وسعت وامان کی ایک اور دلیل ہے۔ واضع رہے ، جس چیز کو خداوند عظیم باعظمت شمار کرے وہ یقینًا انتہائی عظیم ہوگی ۔ 
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ "اعد " ( آمادہ کر رکھا ہے) فعل ماضی کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ جو یا تو اس اجرکے قطعی اور برخلاف نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے یا 

پھراس طرف اشارہ ہے کہ بہشت اور اس کی نعمتیں ابھی سے مومنین کے لیے تیارہیں۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

-
  ؎1    تفسیر مجمع البیان اور تفسیر قرطبی زیر بحث آیت کے ذیل میں۔ 
  ؎2    تفسير مجميع البيان اسی آیت کے ضمن میں ۔