خدا کی بارگاہ میں مرد اورعورت برابرہیں
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ۳۵
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں.اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیاکررکھا ہے.
خدا کی بارگاہ میں مرد اورعورت برابرہیں :
بعض لوگ ہی خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے منزلت کا پلڑا مردوں کے لئے بھاری قرار دیا ہے اور اسلامی کارناموں میں عورتوں کو چنداں مقام و منزلت حاصل نہیں شاید
انھیں یہ غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ اسلام میں بعض مقامات پر عورت اور مرد کے حقوق اور قوانین کے درمیان فرق ہے جن میں سے آپ کی اپنی علٰیحدہ وجہ اور خاص
فلسفہ ہے۔
اس میں شاک نہیں کہ اس قسم فرق سے قطع نظر کہ جن کی خصوص معاشرتی حیثیت اور خاص طبعیی حالت ہوتی ہے، انسانی پہلو اور روحانی مقامات کے لحاظ سے
اسلام کی نظر میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
مذکورہ بالا آیت اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کیونکہ مؤمنین کی خصوصیات اور اعتقادی ، اخلاقی اور عمل کے اہم ترین بنیادی مسائل بیان کرتے وقت ترازوکے پلڑوں
کے مانند مرد اور عورت کو ایک دوسرے شانہ بشانہ قرار دیا گیا ہے اور ہردو کے لیے بغیرکسی تھوڑی سی بھی تفاوت اور فرق کے یکساں اجر بیان کیا گیا ہے۔
باالفاظ دیگر مرد اور عورت کے جسمانی فرق کے مانند ان کے روحانی فرق کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور واضح بات ہے کہ یہ فرق انسانی معاشرے کے نظام کو جاری
و ساری رکھنے کے لیے ضروری ہے جس کے نتائج عورت اور مرد کے حقوق کے بعض قوانین میں مرتب ہوتے ہیں لیکن اسلام عورت کی انسانی شخصیت کے بارے میں بعض گزشتہ
عیسائی علماء کی طرح یہ سوال نہیں کرتا کہ کیا عورت واقعًا انسان ہے اور آیا اس کے اندر بھی انسانی روح پائی جاتی ہے؟ اسلام نہ صرف اس قسم کے سوال نہیں کرتا ، بلکہ انسانی
روح کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کسی قسم کے فرق کا بھی قائل نہیں ہے ۔ اسی لیے ہم سورہ نحل کی آیہ 97 میں پڑھتے ہیں:
"من عمل صالحًا من ذكر اونځی وهو مؤمن فلنحیینہ حیوة طيبة
ولنجزينهم اجرهم باحسن ماكانوایعملون"۔
جو شخص نیک عمل کرتے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، جبکہ وہ باایمان ہو تو ہم اس کو زندہ کریں گے اور اسے پاکیزہ
زندگی بخشیں گے اوراسے اس کے بہترین عمل کا بدلہ دیں گے۔
اسلام عورت کے لیے اسی طرح اقتصادی آزادی کا قائل ہے جس طرح مرد کے لیے ، برخلاف گزشتہ بلکہ موجودہ زمانہ کے بہت سے قوانین کہ جن میں عورت کو
کسی قسم کی اقتصادی آزادی نہیں دی گئی۔
اسی بناء پر اسلامی "علم الرجال" میں ہمیں ایسی صاحبان علم خواتین کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو فقہا اور راویوں کی صف میں موجود ہیں اور جنھین ناقابل فراموش
شخصیات کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
اگر ہم اسلام سے پہلے کی عرب تاریخ کی طرف لوٹیں اور اس معاشرے میں عورت کی کیفیت کے سلسلے میں تحقیق کریں کہ کس طرح وہ اپنے بہت سے بنیادی
حقوق تک سے محروم تھی تو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات تو وہ لوگ اس کے جینے کے حق کے قائل بھی نہیں تھے اور پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ درگور کردیتے تھے۔
اسی طرح اگر موجودہ دور میں عورت کی حالت دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ تمدن کے مٹھی بھر جھوٹے دعوے داروں نے عورت کو ایک بے جان کھلونا سمجھا ہوا ہے
اوربس!
یہیں پر پہنچ کرہم اس امر کی تصدیق کریں گے کہ اسلام نے عورت کی کس قدر عظیم خدمت کی ہے اور عورت کی گردن پر اس کاکس حدتک حق بنتاہے؟ ؎1
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
-
؎1 اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد نمبر 3 میں سورة بقرہ کی آیت 328 نام کے ذیل میں اور جلد 11 میں سورہ نحل کی آیت 97 کے ذیل میں بھی حبث کی گئی ہے۔