Tafseer e Namoona

Topic

											

									  3- خدا کا ارادہ  تشریعی ہے یاتکوینی 

										
																									
								

Ayat No : 32-34

: الاحزاب

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ۳۲وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۳۳وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ۳۴

Translation

اے زنانِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو. اور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوِٰادا کرو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو - بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے. اور ازواج پیغمبر تمہارے گھروں میں جن آیات الٰہی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھنا کہ خدا بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے.

Tafseer

									 3- خدا کا ارادہ  تشریعی ہے یاتکوینی : 
 ہم نے آیت کی تفسیر کے دوران میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ "انما یرید الله ليذهب عنكم الرجس" میں ارادہ سے مراد اراده تشریعی نہیں بلکہ اردۂ تکوینی 

ہے۔ 
 مزید وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم  ذہین نشیں کریں کہ اراده تشریعی سے مرادخدا کے اوا مرونواہی ہیں۔ مثلًا خدا ہم سے نماز ، روزه ، حج و جہاد  وغیرہ 

چاہتاہے اور یہی ارادہ تشریعی  ہے ۔
 معلوم ہوا کہ اردۂ تشریعی کا ہمارے اعمال کے ساتھ تعلق ہوتا ہے نہ کہ خدا کے افعال کے ساتھ۔ حالانکہ زیر بحث آیت میں ارادے کا تعلق خدا کے فعل کے ساتھ ہے ، 

قرآن کہتاہے: خدانے ارادہ کیا ہے تم اہل بیت سے ہر قسم کی نجاست اور پلیدی کو دور رکھے اس بناء پراس قسم کاارادہ تکوینی ہونا چاہیے جو عالم تکوین میں خدا کی مشیت سے مربوط 

ہے۔ 
 مزید براں پاکیزگی اور تقوٰے کے سلسلہ میں ارادہ تشریعي کامسئلہ اہل بیت کے ساتھ مخصوص نہیں رہتا، کیونکہ خدا نے توسب لوگوں کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ پاک 

ہوں اور تقوٰے اختیار کریں اور اہل بیت کے لیے کوئی اعزاز نہیں ہوگا کیونکہ تمام مکلف اسی حکم میں شامل ہیں۔ 
 بہرحال یہ موضوع یعنی  ارادہ تشریعی نہ صرف یہ کہ ظاہرآیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں بلکہ گذشتہ آیات کے ساتھ بھی کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ وہ سب 

احادیث ایک اعلی خصوصیت اور زبردست قدرو قیمت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں جو اہلبیت کے ساتھ مخصوص ہے۔ 
 یہ بھی مسلم ہے کہ "رجس" یہاں پر ظاہری نجاست کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ پانی ناپاکیوں کی طرف اشارہ ہے اور اسے شرک وکفراور منافی عفت اعمال وغیرہ 

میں محدود نہیں کیا جاسکتا اور ہرقسم کے اعتقادی ، اخلاقی اور عملی گناہ اور آلودگیاں اس میں شامل ہیں۔ 
 دوسرانکتہ جس کی طرف غور سے توجہ کرنا چاہئے یہ ہے کہ اراده تکوینی جو خلقت آفرنیش کے معنی میں ہے یہاں مقتضی کے مفہوم میں ہے کہ علت نامہ کے 

معنی میں ، جوموجب جبرواکراہ اور باعث سلب اختیار ہوتا ہے ۔
 اس کی وضاحت یہ ہے کہ مقام عصمت تقوائے الہی کی ایک حالت ہے جو پروردگار کی مدد سے انبیاء اور ائمہ میں پیدا ہوتی ہے ، لیکن اس حالت کے باوجود ایسا نہیں 

ہے کہ وہ گناہ نہ کرسکیں بلکہ وہ اس کام کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اپنے ارادہ واختيار 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1      صحیح بخاری اور صحیح مسلم ،المراجعات  ص 229 خط 72 کے مطابق - 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کے ساتھ گناہ کے نزدیک نہیں جاتے۔ 
 بالکل اس ماہر طبیب کی مانندہ کسی زہریلی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا کیونکہ وہ اس کے یقینی خطرات سے آگاہ ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے لیکن اس کی 

بصریت اور فکری دروحانی تقاضے اس امرکا سبب بنتے ہیں کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے دست بردار ہو جائے۔ 
 یہاں اس نکتے کو یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ یہ خدائی تقوٰی اس کی خاص دین ، عطیہ اورنعمت ہے تو اس نے انبیاء مرسلین اورآئمہ اطہار علیہم السلام کو عطا 

فرمایا ہے نہ کہ دوسرے لوگوں کو ۔ لیکن توجہ رہے کہ خدا نے یہ اعزاز انھیں رہبری اور قیادت کی بھاری ذمہ داری نبھانے کی بناء پر عطا فرمایا ہے اور یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس 

کا فائدہ  سب کو پہنچتا ہے اور یہ عین عدالت ہے ، بعینہ اس خاص امتیاز کے مانند جو خدا نے آنکھ کے نازک اور بہت ہی حساس پرودوں کودیا ہے جن سے سارا بدن فائده اٹھاتا ہے۔
 علاوہ ازیں انبیاء اور آئمہ جس قدر اعزازات کے حامل ہیں اور عنایات الٰہیہ ان کے شامل حال ہیں اسی قدر ان کی ذمہ داری بھی سخت ہوتی ہے اور ان کا ایک ترک 

اولٰی ؑام افراد کے ایک عظیم گناہ کے برابر شمار ہوتا ہے۔ یہی امر عدالت الٰہی کو واضح کرتاہے۔ 
 مختصریہ کہ یہ ارادہ مقتضی کی صورت میں ارادہ تکوینی ہے (نہ کہ علت تامہ) اوراس کے باوجود تو موجب جبر ہے اور نہ ہی اعزاز کو سلب کرتا ہے۔