4- بیسوی صدی کی جاہلیت
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ۳۲وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۳۳وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ۳۴
اے زنانِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو. اور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوِٰادا کرو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو - بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے. اور ازواج پیغمبر تمہارے گھروں میں جن آیات الٰہی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھنا کہ خدا بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے.
4- بیسوی صدی کی جاہلیت:
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت "الجاهلية الاولٰى" کی تفسیر کے سلسلے میں زیر بحث آیات میں شک و شبہ کا شکار ہوئی ہے۔ گویا وہ یہ باور نہیں
کرسکے کہ ظہور اسلام کے بعد جاہلیت کی کوئی اورقسم بھی دنیا میں ظہور پذیرہوگئی جس کے سامنے اسلام سے پہلے عربوں کی جاہلیت بھی شرما جائے گی لیکن آج کے زمانے میں یہ
امر ہمارے لیے جو بیسویں صدی کی جاہلیت کے وحشت ناک مظاہر کے شاہد ہیں پورے طور پر حل شدہ ہے اوراسے قرآن مجید کی معجزانہ پیش گوئیوں میں سے ایک شمار کرنا چاہیئے۔
اگر عرب جاہلیت اولٰی کے زمانے میں جنگ اور غارتگری کا بازار گرم رکھتے تھے اور بطور مثال متعدد بار بازار عکاظ احمقانہ خوں ریزی کا مرکز بنا جس میں کچھ
افراد قتل ہوگئے تو ہمارے زمانے کی جاہلیت میں اسی عالمی جنگیں رونما ہوتی ہیں کہ بسا اوقات دوکروڑ افراد ان کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اوراس سے زیادہ تعداد میں لوگ مجروح اور
معذور ہوجاتے ہیں۔
اگر جاہلیت عرب میں عورتیں "تبرج بزینت" کرتی تھیں اور اپنے دوپٹے کو اس انداز سے استعمال کرتیں کہ سینے ، گلا ، گردن کا ہار اور گوشوارے نمایاں ہوجاتے تو
ہمارے زمانے میں ایسے کلب club بھی ہیں جنھیں" برہنوں کے کلب" کا نام دیا جاتاہے (جن کا نمونہ انگلستان میں موجود ہے) ہم نہایت معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ ایسے
کلبوں میں لوگ مادر زاد ننگے بن کر جاتے ہیں ۔ ساحل سمندر کے پلازوں، سوئمنگ پولوں حتٰی کہ شارع عام پر ہونے والی اخلاقی با ختگی ناقابل بیان ہے ۔
اگر عربوں کی جاہلیت کے دور میں "زنان آلودہ ذوات الاعلام" (جھنڈے تلے والی بدمعاش عورتیں) جو گناہ کی دعوت کی غرض سے اپنے مکانوں پر جھنڈے نصب کردی
تھیں ، موجود تھیں ، تو ہماری صدی کی جاہلیت میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اس بارے میں مخصوص روزناموں میں ایسے مطالب شائع کرتے ہیں جن کے ذکر سے قلم شرما جاتا ہے
اوراس کے مقابلے میں عربوں کی جاہلیت ، شرافت نظر آتی ہے۔
قصہ کوتاه ہم ان مفاسد کی کیفیت کے بارے میں کیا کہیں جو ایمان سے خالی اس مادی و مشینی تمدن میں پائے جاتے ہیں جن کو بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور ہم اس
مقدس تفسیر کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔
جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے ایسے لوگوں کی زندگی کی نشان دہی کرنے کے لیے مشتے نمونہ ازخرے دار تھا جو خدا سے اپنا ناتہ توڑ لیتے ہیں اور ہزارہا دانش
گاہوں ، علمی مراکز اور مشہور دانش مندوں کے باوجود اخلاقی فساد کی دلدل میں پھنس چکے ہیں فساد کی منجدھار میں ڈوب چکے ہیں ۔ حتٰی کہ خود انہی مراکز کے دانشور بھی ایسی تباہ
کاریوں کا شکارہوچکے ہیں۔