1- آیت تطہیر عصمت کی واضح دلیل
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ۳۲وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۳۳وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ۳۴
اے زنانِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو. اور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوِٰادا کرو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو - بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے. اور ازواج پیغمبر تمہارے گھروں میں جن آیات الٰہی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھنا کہ خدا بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے.
1- آیت تطہیر عصمت کی واضح دلیل:
بعض مفسرین " رجس" کو آیت میں صرف شرک یا زنا جیسے گناہان کبیرہ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جبکہ اس محدودیت کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ "
الزجس" کا "اطلاق" (اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس کا الف اور لام ، جنس کے لیے ہے) ہرقسم کی ناپاکی اورگناہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے کیونکہ برگناہ "رجس" ہے اسی لیے یہ
لفظ قرآن میں "شرک" "الکحل والے مشروبات" "جوا" "نفاق" "حرام وناپاک گوشت" اور اس قسم کی دوسری چیزوں کے معنی میں آیا ہے۔ (حج -30 ، مائد - 90 ، توبہ - 125 ، انعام -
145)۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ خدائی ارادہ تخلف ناپذیر ہے اور "انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس" کاجملہ اس کے حتمی ارا دہ پر دلیل ہے خصوصًا "انما" کے لفظ
کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جوحصر اور تاکید کے لیے ہے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کا یہ قطعی ارادہ ہے کہ اہل بیت ہر قسم کے رجس نجاست اور گناہ سے پاک ہوں اور اسی چیز
کا نام عصمت ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں اراده الہی سے مراد حلال و حرام کے بارے میں اس کے احکام اور فرامین نہیں ہیں ، کیونکہ یہ
احکام تو سب کے لیے ہیں اور اہل بیت سے اخصاص نہیں رکھتے۔ اس بناء پر وہ لفظ "انما" کے مفہوم کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔
پس یہ مسلسل اور متواتر ارادہ ایک قسم کی خدائی امداد کی طرف اشارہ ہے جو اہل بیت کی عصمت اور اس کے دوام و تسلسل کے لیے ہے اور اس سے ساتھ ساتھ
اراده و اختیار کی آزادی کے بھی منافی نہیں ہے جیساکہ ہم تشریح کر چکےہیں۔
حقیقت میں آیت کا مفہوم وہی ہے جو "زیارت جامعہ" میں آیا ہے۔
"عصمكم الله من الذلل وا منكم من الفتن، وطهركم من الدنس، وأذهب
عنكم الرجس ، وطهركم تطهيرًا"
" خدانے لغزشوں سے تمھاری حفاظت کی اور انحراف و کج روی کے فتنے سے امان میں رکھا اور آلودگیوں سے پاک رکھا تم سے ہرقسم کی
ناپاکیوں اور نجاستوں کو دور کیا اور جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے تمہیں پاک رکھا"۔
اس وضاحت کے بعد اوپر والی آیت کے عصمت اہل بیت پر دلالت کرنے میں شک و ترد نہیں کرنا چاہیے۔