ازواج نبی کو کیسا ہونا چاہیئے
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ۳۲وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۳۳وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ۳۴
اے زنانِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو. اور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوِٰادا کرو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو - بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے. اور ازواج پیغمبر تمہارے گھروں میں جن آیات الٰہی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھنا کہ خدا بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے.
تفسیر
ازواج نبی کو کیسا ہونا چاہیئے
گذشتہ آیات میں ازواج پیغمبر کی حیثیت اور عظیم ذمہ داری کے بارے میں گفتگوتھی۔ زیرنظرآیات میں بھی یہ موضوع اسی طرح جاری وساری ہے۔ان چند آیات میں
ازواج نبی کو سات اہم احکام دیئے گئے ہیں۔
پہلے ایک مختصرسی تمہید میں فرمایا گیا ہے۔ "اے ازواج پیغمبر!اگر تقوٰی اپناؤ تو تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو": (يانساء النبي لستن كأحد من النساء ان اتقتيتن) -
ایک طرف رسول اللہ سے تمھاری نسبت ہے. دوسری طرف تم مرکزوحی میں موجود ہو ، آیات قرآنی سنتی ہو اور تعلیمات اسلامی کو جانتی ہو ۔ اس خاص حیثیت کا حامل
ہونے کے باعث تم تقوٰے اور گناہ دونوں میں تمام عورتوں کے لیے نمونہ اور مثال بن سکتی ہو۔
اس بناء پر تم اپنی حیثیت کو پہچانو اور اپنی بھاری ذمہ داری کو طاق نسیاں کے سپرد نہ کرو اور جان لواگرتم نے تقوٰی اختیار کیا توبارگاہ خداوندی میں تمھارا بہت ہی
مقام و مرتبہ ہوگا۔
اس مقدمے میں قرآن مخاطب کو اپنی ذمہ داریاں قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے اور انھیں ان کے مقام یاد دلاتا ہے۔ اس کے بعد پہلا حکم عفت و پاکدامنی کے سلسلے
میں صادر کرتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ ایک باریک نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے تاکہ اس بارے میں دوسرے مسائل خود بخود واضح اور روشن ہوجائیں ۔ چنانچہ قرآن فرماتاہے :"
اس بناء پر ہوس انگیز انداز سے بات نہ کیا کرو کہ جس سے دل کے بیمارتمھارے بارے میں للچانے لگیں": (افلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض )۔
بلکہ بات کرتے وقت دوٹوک، سپاٹ اور معمول کے مطابق گفتگو کرو۔ پست عورتوں کی سی گفتگو نہ کرو جوکوشش کرتی ہیں کہ ہیجان انگیز اور تحریک آمیز جس کے
باعث شہوت پرست افراد گناہ کی سوچ میں پڑجاتے ہیں۔
" الذي في قلبه مرض" (وہ شخض کہ جس کے دل میں بیماری ہے ) کی تعبیر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ جنسی جذبات کا اعتدال اور مشروع حد میں ہونا عین سلامتی
ہے اور جب اس حد سے گزر جائے ، تو پھرایک قسم کی بیماری ہے ۔ یہاں تک کہ وہ کبھی کبھار جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے جسے "جنسی جنون" سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دور حاضر میں
ماہرین نے ان نفسیاتی بیماریوں کی اقسام کوتفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ، جواس طاقت کے حد اعتدال سے تجاوز اورمختلف جنسی آلودگیوں اور گندے ماحول میں پڑجانے
کی و جہ سے وجود میں آتی ہیں۔
آیت کے آخر میں دوسرے حکم کی یوں تشریح کی گئی ہے ، تمھیں ایسی شائستہ گفتار کرنا چاہیئے جو خدا اور بنی کریمؐ دونوں کی رضا کے مطابق اور حق و عدالت
سے مزين ہو"۔ (وقلن قولا س مرفًا) ۔
حقیقت میں " لا تخضعن بالقول" کا جملہ گفتگو کے انداز اور "قلن قولا معروفًا" گفتگو کے مطالب کی طرف اشارہ ہے۔
البتہ "قول معروف" (اچھی اور شائستہ گفتگو) کا وسیع مفہوم ہے جو مذکوره معنی کے علاوہ ہرقسم کی باطل ، بے ہودہ ، گناہ سے آلودہ اورحق کی مخالفت گفتار کی
نفی ہے۔
یاد رہے کہ آخری جملہ ہوسکتا ہے کہ پہلے سے قبلہ کی وضاحت ہو ۔ مبادہ کوئی یہ خیال کرے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کا طرزتکلم غیر
مردوں سے سخت یا خلاف ادب ہونا چاہیے ، نہیں بلکہ ان کی گفتگو شائستہ ، مودبانہ لیکن کسی تحریک آمیز پہلو کے بغیر ہونا چاہیئے۔
تیسرا حکم عفت و پاکدامنی کے سلسلہ میں ہے، ارشاد ہوتا ہے "تم اپنے گھروں میں رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح لوگوں کے سامنے نہ آؤ "اور اپنے بدن اور اس کی
زینت کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کرو ": (وقرن فی بیوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الاولٰى)۔
"قرن " "وقار" کے مادہ سے بوجھ کے معنی میں ہے اور گھروں میں ٹھہرے رہنے کے لیے کنایہ ہے۔ بعض نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ لفظ" قرار" کے مادہ
سے ہے، جو نتیجے کے مادہ سے ہے جو نتیجے کے لحاظ سے پہلے معنی ہے چنداں مختلف نہیں۔ ؎1
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 الیت اگر اس صورت میں جب کہ قرار کے مادہ سے ہو، اس کافعل صررًا قررنًاہوگا جس کی پہلی "راء" تخفیف کے عنوان سے حذف ہونی ہے مقل اور اس کا فتح قاف کی
طرف منتقل ہوا ہے جس کی وجہ سے حمزہ وصل ضرورت نہیں رہی ۔ یہ " قرن" ہوگیا ہے۔ (غور کیجئے گا)
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"تبرج " کا معنی ہے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا اور "برج" کے مادہ سے لیا گیا ہے اور "برج" اس چیز کو کہتے ہیں جو سب کی نگاہوں کے سامنے ہو۔
باقی رہا یہ کہ جاہلیت اولٰی سے کیا مرادہے ؟ تو ظاہرًا اس سے مراد جاہلیت ہے ، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے پہلے تھی اور جیسا کہ
تاریخ میں آیا ہے کہ اس زمانے میں عورتیں ٹھیک طرح پردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ اپنے دوپٹے کا ایک حصہ اپنی پشت پراس طرح ڈال لیتی تھیں جس سے ان کا گلا ، سینہ اور گردن کا ایک
حصہ اور گوشوارے دکھائی دیتے تھے۔ قرآن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ازواج کو اس قسم کے اعمال سے روکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ ایک حکم ہے اور آیات کا ازواج پیغمبرکو مخاطب کرنا زیادہ تاکید کے لیے ہے ۔بالکل اس طرح جیسے کہ کسی دانشور سے کہیں کہ آپ تو ایک
عالم میں جھوٹ نہ بولا کریں ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسروں کےلیے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ ایک عالم کو زیادہ سختی کے ساتھ اس سے پرہیز کرنا
چاہیئے۔
بہرحال یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ کوئی دوسری جاہلبیت عربوں کی جاہلیت کی طرح درپیش ہے کہ جس کے آثار ہم قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق اپنی متمدن
مادی دنیا میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن گذشتہ مفسرین کے سامنے چونکہ ایسی چیزنہ تھى لہذا وہ اس لفظ کی تفسیر میں میں مشقت میں پڑے رہے اور وہ آدمؑ اور نوحؑ کے درمیانی فاصلے کو
"جاہلیت اولٰی" سے تعبیر کرتے تھے۔ یا پھر داؤدؑ اور سلیمانؑ کے عصر کے درمیانی فاصلے کو جاہلیت کہتے تھے جس میں عورتیں ایسا نفیسں لباس پہن کر باہر نکلتی تھیں ، جس سے
بدن جھلکتا تھا ، اس طرح سے وہ اسلام سے پہلے والی جاہلیت کو "جاہلیت ثانیہ" سمجھتے ھے۔
لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ان تمام باتوں کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ "جاہلیت اولٰی "وہی اسلام سے پہلے والی جاہلیت ہے کہ جس کی طرف قرآن
میں کئی جگہوں پرارشاد بھی ہوا ہے ۔ (آل عمران 143 ، مائده 50 اور فتح 126 ) اور "جاہلیت ثانیہ" وہ جاہلیت ہے جو بعد میں پیدا ہوگی (جیسا کہ ہمارا زمانہ ہے )۔ اس موضوع
کی مزید تفصیل نکات کی بحث میں پیش کریں گے۔
آخر میں چوتھے ، پانچویں اور چھٹے حکم کو بیان فرمایا گیا ہے۔ "تم ( پیغمبر کی بیویو !) نماز قائم کرو ، زکواة ادا کرو ، خدا اوراس کے رسول کی اطاعت کرو"۔ (واقمن
الصلوة وأتين الزكاة واطعن الله ورسوله )۔
اگر عبادات میں سے نماز اور زکوٰۃ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز خالق کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے اور زکوة بھی باوجود اس کے کہ ایک
عظیم عبادت ہے ، مخلوق خدا کے ساتھ ایک اور اٹوٹ رابطہ بھی ہے ۔
باقی رہا "اطعن الله ورسوله تو یہ ایک کلی حکم ہے اور خدا کی طرف سے مقرر کردہ تمام امورپرجاری ہے۔
تین احکام بھی واضح کرتے ہیں کہ زیربحث احکام ازواج نبیؐ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ سب کے لیے ہیں۔ اگر چہ ازواج بنیؐ کے بارے میں زیادہ تاکید کی
گئی ہے۔
الله تعالی آیت کے آخرمیں فرماتا ہے۔ "اے اہل بیت! خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ نجاست اور گناہ کوتم سے دور رکھے اورتمھیں ہرطرح سے پاک و پاکیزہ رکھے"۔ (انما
یرید الله ليذهب عنکم الرحبس اهل البيت ويطهركم تطهيرًا) ۔
"انما" کی تعبیر جو عام طور پر"حصر" کے لیے ہے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نعمت خاندان پیغمبراکرم علیہم السلام سے مخصوص ہے۔
لفظ "يريد" پروردگار کے اراده تکوینی کی طرف اشارہ ہے ورنہ ارادۂ تشریعی اہل بیت پیغمبر کے ساتھ مخصوص نہیں ہوگا ، بلکہ سب لوگ بغیر کسی استثناء کے حکم
شریعت کے تحت اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ ہر قسم کے گناہوں اور نجاستوں سے پاک رہیں۔
ہوسکتا ہے ، کہا جائے کہ اردۂ تکوینی تو ایک قسم کے جبر کاموجب ہے ، لیکن جب ان بحثوں کی طرف توجہ کی جائے جو انبیاء اورائمہ علیہم السلام کے معصوم
ہونے کے بارے میں کی جاتی ہیں تو اس بات کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور یہاں پر بطور خلاصہ یہی کہا جاسکتاہے کہ معصومین ایک طرف کو اپنے اعمال کی وجہ سے ایک قسم کی
اکتسابی لیاقت کے حامل ہیں اور دوسری طرف اپنے پروردگار کی طرف سے ذاتی اور وہبی لیاقت رکھتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کے لیے نمونہ و اسوہ بن سکیں۔
دوسرےلفظوں میں معصومین کی ہمت تائیدات الٰہی اور اپنے پاک اعمال کی وجہ سے ایسی ارفع واعلٰی ہے کہ گناہ پر قدرت واختیار رکھنے کے باوجود گناہ کی طرف
نہیں جاتے، یوں سمجھیئے کہ کوئی عقلمند قطعًا تیار نہیں ہوگا کہ آگ کا انگارہ اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لے ، باوجود یکہ اس میں نہ کوئی جبر ہے نہ اکراہ ، بلکہ یہ ایسی حالت ہے جو
کسی قسم کے جبر و اکراہ کے بغیر خود انسان کے وجود کے اندر سے اس کے علم وآگاہی اور فطری و طبعی مبادیات کی وجہ ابھرتی ہے ۔
لفظ "رحبس" ناپاک شی کے معنی میں ہے خواہ وہ انسان کے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے ناپاک ہو یا عقلی علم کی وجہ سے یا شریعت کی روسے یا ان سب وجوہ
کے اعتبار ہے۔ ؎1
یہ جو بعض نے "رجس" سے گناہ ، شرک ، بخل وحسد یا باطل اعتقاد وغیرہ مراد لیا ہے تو درحقیقت یہ اس کے مصادیق کا بیان ہے ورنہ اس لفظ کا مفہوم عام اور
وسیع ہے اور ہر قسم کی نجاست اس کے معنی میں شامل ہے ، کیونکہ الف لام یہاں جنس پر دلالت کرتاہے۔
"تطهير" کا معنی ہے پاک کرنا اور حقیقت میں نجاستوں اور ناپاکیوں کو دور کرنے کے بارے میں تاکید ہے ۔ نیز اس کا مفعول مطلق کی شکل میں ہونا یہاں اس معنی کی
ایک اور تاکید شمار ہوتا ہے۔
باقی رہی "اہل بیت" کی تعبیر تو تمام علماء اسلام اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ جناب پیغمبر کے اہل بیت کی طرف اشاره ہے یہی بات خود آیت سے ظاہر سے بھی
سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ "بیت" اگرچہ یہاں مطلق صورت میں ذکر ہوا ہے لیکن قبل وبعد کی آیات کے قرینے سے اس سے مراد پیغمبراکرمؐ کا بیت اور گھر ہے۔ ؎2
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 راغب نے کتاب مفردات میں رجس کے مادہ میں مذکورہ بالا معنی اور اس کے چارقسم کے مصداق کو بیان کیا ہے۔
؎2 بعض نے "بیت" کویہاں "بیت اللہ الحرام" اورکعبہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور اس کے اہل متقی افراد کو شمار کیا ہے۔ یہ بات آیات کے سیاق سے بہت ہی غیر مناسب
ہے کیونکہ یہاں گفتگو پیغمبر اکرامؐ اور ان کے گھر کے بارے میں ہے نہ کہ وہ بیت اللہ الحرام کے متعلق اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کے لیے کوئی بھی قرینہ موجود نہیں ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
باقی رہا یہ کہ "اہل بیت پیغمبرؐ" سے مراد کون لوگ ہیں تو اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اسے ازواجِ پیغمبرؐ کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں
اور قبل وبعد کی آیات کو جو ازواج کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اس کا قر ینہ سمجھتے ہیں۔
لیکن ایک مطلب کی طرف توجہ کرنے سے اس نظریہ کی نفی ہوجاتی ہے اور وہ ہے کہ و ضمیریں جو قبل و بعد کی آیات میں آئی ہیں سب کی سب جمع مونث کی شکل
میں ہیں جب کہ آیت کے اس حصے" انما یرید الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت و يطهركم تطهيرًا" کی ضمیریں سب جمع مذکر کی شکل میں ہیں اور یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں کوئی
دوسرا معنی مراد ہے۔
اس لیے بعض دوسرے مفسرین نے اس سے وسیع تر نظریہ اختیار کرتے ہوئے آیت میں پیغمبراکرمؐ کے سارے خاندان کو شامل سمجھاہے چاہے وہ مرد ہوں یا آپ کی
بیویاں۔
دوسری طرف بہت زیادہ روایات جو اہل سنت اورشیعہ منابع و مصادر میں وارد ہوئی ہیں ایک اور معنی دیتی ہیں اور پیغمبراکرام کے سارے خاندان کے شمول کی بھی
نفی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس آیت میں مخاطب صرف پانچ افراد ہیں ، یعنی حضرت پیغمبراکرمؐ حضرت علیؑ و حضرت فاطمیہؑ امام حسنؑ اور امام حسین علیہ الصلوة والسلام ۔
تو اس قدر وافر مقدرمیں نصوص کے ہوتے ہوئے ہر آیت کے مفہوم کی تفسیر کے لیے روشن قرینہ ہیں اس آیت کے لیے قابل قبول تفسیر وہی تیسرا معنی ہے یعنی
آیت "خمسہ طیبہ"سے مختص ہے۔
یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت پیغمبر کی ازواج کی ذمہ داریوں کے ذکر کے بیچ میں یہ بات کیونکرآگئی ہے کہ جس میں پیغمبراکرمؐ کی
بیویاں شامل نہیں ہیں؟
تو اس کا جواب بزرگ مفسرم مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس طرح دیتے ہیں: یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آیات قرآن میں ہم ایسی آیات کا سامنا کر رہے ہیں کہ جوایک
دوسرے کے ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ۔ قرآن ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسی طرح فصحاعرب کے کلام و اشعارمیں بھی اس کے
وافرنمونے ملتے ہیں۔
تفسیرالمیزان کے عظیم مولف نے اس پر ایک اور جواب کا اضافہ کیا ہے کہ جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے :
ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ "انمایرید الله ليذهب عنكم الرجس...." کانک جملہ ان آیات کے ساتھ نازل ہوا ہے بلکہ روایات سے اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ یہ
حصہ علیحده نازل ہوا ہے ،لیکن پیغمبر اکرمؐ کے دور میں آیات قرآن کی جمع آوری کے موقع پر یا اس کے بعد ان آیات کے ساتھ قرار دیا گیا ہے۔
اس سوال کا جو تیسرا جواب دیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ قران چاہتاہے کہ پیغمبراکرم کی بیویوں سے کہے کہ تمھاری نسبت ایک ایسے گھرانے سے ہوگئی ہے کہ
جس کے افراد معصوم ہیں تو جو کوئی شجر عصمت کے سائےمیں اور معصومین کے مرکز میں اور وہ اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ دوسروں کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ خبردار ہو
اور اس بات کونہ بھول جائے کہ جس کی نسبت ایسے خاندان سے ہو کہ جس میں پانچ پاک و معصوم ہستیاں موجود ہیں ،اس کی ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں ۔ خدا اور خلق خدا اس سے بہت
سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔
انشاءاللہ ہم نکات کی بحث میں ان سنی و شیعہ روایات کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے جو اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں۔
آخری زیر بحث آیت میں ازواج پیغمبر کا ساتواں اور آخری حصہ بیان ہوا ہے اوران سب خبردار اور متنبہ کیا گیا ہے کہ بہترین موقع انھیں میسرہے اس سے استفادہ
کریں اور حقائق اسلام سے آگاہی حاصل کریں ، چناچہ فرمایا گیا ہے ۔ "تمھارے گھروں میں خدائی آیات اور حکمت و علم کی تلاوت ہوتی ہے اسے یاد کرو " اوراس کے سائے میں اپنی
اصلاح کرو ، کیونکہ بہترین موقع تمھارے ہاتھ میں ہے"۔ (واذكرن مايتلى في بيوتكن من آيات الله والحكمة) -
تم وحی کے مقام اور نور قرآن کے مرکز ومنبع موجود ہو ، یہاں تک کہ اگر تم گھرمیں بھی بیٹھی ہو تو بھی پیغمبر اسلام کی زبانی تمھارے گھر کی فضا آیات سے گونج
رہی ہے۔ لہذا تھمیں چاہئے کہ شایان شان طریقے سے اسلامی تعلیمات اور پیغمبرؐ کے ارشادات سے بہرہ مند ہو جب کہ رسول اللہ کا ہر سانس درس ہے اور ہر بات ایک راہ عمل متعین
کرتی ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ "آیات اللہ" اور"حکمت" کے درمیان کیا فرق ہے ؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ دونوں الفاظ قران کی طرف اشارہ ہیں۔ البتہ "آیات" کی تعبیر اس
کے اعجاز کے پہلو کو بیان کرتی ہے اور حکمت کی اس کے عمیق اور گہرے مفہوم اور علم کو بیان کرتی ہے۔
بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ "آیت الله" آیات قرآن کی طرف اشارہ ہے اور "حکمت" سنت پیمغبر صلی اللہ علیہ وآ لہٖ وسلم اور آپ کے حکیمانہ پندونصائح کی
طرف اشارہ ہے۔
اگرچہ دونوں تفاسیر آیت کے مقام والفاظ سے مناسبت رکھتی ہیں، لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے، کیونکہ "تلاوت" کی تعبیر آیات الٰہی سے زیادہ مناسبت
رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کی متعدد آیات میں آیات اور حکمت دونوں کے بارے میں نزول کی تعبیرآئی ہے ۔ مثلًا سوره البقرہ کی آیت 231 ( وما انزل عليكم من الكتاب والحكمة ) اسی
طرح سوره نساء کی آیت 113 میں بھی آیا ہے۔
خلاصہ کلام کے طور پر آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :" خدالطیف رخبیر ہے"۔ (ان الله كان لطيفً خبيرًا)۔
اس طرف اشارہ ہے کہ وہ نہایت ہی گہرے اورباریک مسائل سے بھی باخبراور گاہ ہے اور تمھاری نیتوں کو بھی اچھی طرح سے جانتا ہے اور تمھارے سینوں کے
اندرونی اسرارسے بھی باخبرہے۔
یہ اس صورت میں ہے جب "لطیف" کی تفسیر ایسی ذات سے کی جائے جو باریک ہیں اور ذره ذره سے باخبر ہو ، اور اگر صاحب لطف مراد ہوتو یہ اس طرف اشارہ
ہوگا کہ اللہ تم ازواج رسول کی نسبت لطف و رحمت رکھتا ہے اورتمھارے اعمال سے "خبیر" اور آگاہ ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ "لطيف" آیات قرآنی کے اعجاز کی بناء پر ہے اور" خبیر" اس کے حکمت آمیز مضمون کی بناء پر ہے ۔ اس کے باوجود ان معانی کا آپس میں کوئی
اختلاف نہیں ہے اور یہ سب مطالب مفہوم آیت میں جمع ہوسکتے ہیں۔