Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- جنگ بنی قریظہ کے واقعات

										
																									
								

Ayat No : 26-27

: الاحزاب

وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ۲۶وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ۲۷

Translation

اور اس نے کفار کی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے کچھ کو قتل کررہے تھے اور کچھ کو قیدی بنارہے تھے. اور پھر تمہیں ان کی زمین, ان کے دیار اور ان کے اموال اور زمینوں کا بھی وارث بنادیا جن میں تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا اور بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے.

Tafseer

									 2- جنگ بنی قریظہ کے واقعات:
  ہم بتاچکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جنگ احزاب ختم ہوتے مامورہو گئے کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کا حساب چکادیں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے بنی 

قریظہ کے قلعوں کی طرف اس قدرجلدی کی کہ بعض لوگ اپنی نماز عصر سے بھی غافل ہوگئے اور مجبورًا انھیں بعد میں قضا بجالانی پڑی، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان 

کے قلعوں کا محاصره کاحکم صادر فرمایا۔ پچیسں دن تک محاصرہ جاری رہا۔ قرآن کے فرمان کے مطابق خدا نے شدید رعب اور وحشت دشمنوں کے دلوں میں ڈال دیں۔ 
 کعب بن اسد کا شماریہودیوں کے سرداروں میں ہوتا تھا ۔ اس نے اپنی قوم سے کہا ، مجھے یقین ہے کہ محمدؐ ہمیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم جنگ نہ 

کریں۔ لہذا میری تین تجاویز ہیں ، ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلو۔ 
 پہلی تجویز تو یہ ہے کہ اس شخص کے ہاتھ میں باتھ دے کر اس پر ایمان لے آؤ اور اس کی پیروی اختیارکرلو ۔ کیونکہ تم پر ثابت ہوچکاہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے 

اور اس کی نشانیاں تمھاری  کتابوں میں پائی جاتی ہیں تو اس صورت میں تمھارے مال ، جان اور اولاد  اور عورتیں محفوظ ہو جائیں گی۔ 
 وہ کہنے لگے کہ ہم ہرگز حکم تورات سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس کا متبادل اختیار کریں گے۔ 
 اس نے کہا: اگر یہ تجویز قبول نہیں کرتے تو پھراؤ اور اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالو تاکہ ان کی طرف سے آسوده خاطر ہوکر میدان جنگ 

میں کود پڑیں اور پھر دیکھیں کہ خدا کیا چاہتا ہے؟ اگر ہم مارے گئے تو اہل وعیال کی جانب سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور اگر کامیاب ہو گئے تو پھر عورتیں بھی بہت بچے بھی 

بہت ۔
 وہ کہنے لگے کہ ہم ان بے چاروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر دیں ؟ ان کے بعد ہمارے لیے زندگی کی قدرو قیمت کیا رہ جائے گی؟ 
 کعب بن اسد نے کہا اگر یہ بھی تم نے قبول نہیں کیا تو آج چانکہ ہفتہ کی رات ہے ، محمدؐ  اوراس کے ساتھی یہ خیال کریں گئے کہ ہم آج رات حملہ نہیں کریں گے۔ 

انھیں اس غفلت میں ڈال کر ان پر حملہ کر دیں شاید کامیابی حاصل ہوجاۓ۔ 
 وہ کہنے لگے یہ کام بھی ہم نہیں کریں گے ۔ کیونکہ وہ کسی بھی صورت میں ہفتہ کا احترام پامال نہیں کریں گے۔ 
 کعب کہنے لگا : پیدائش سے لے کر آج تک تمھارے اندر عقل نہیں آسکی۔ 
 اس کے بعد انھوں نے پیغمبراکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے بات کی کہ ابولباہ کو ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ ان سے صلاح مشورہ کرلیں۔ 
 جس وقت ابولبابہ ان کے پاس آئے تو یہودیوں کی عورتیں اور بچے ان کے سامنے گریہ و زاری کرنے لگے۔ اس بات کا ان کے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس وقت لوگوں 

نے کہا کہ آپ ہمیں مشورہ دیتے ہیں کہ ہم محمد کے آگے ہتھیار ڈال دیں؛ ابولبابہ نے کہا ہاں اور ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا، یعںی تم سب کو قتل کر دیں گے۔ 
 ابو لبابہ کہتے ہیں ، جیسے ہی میں وہاں سے چلا تو مجھے اپنی خیانت کا شدید احساس ہوا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم  کے پاس نہ گیا ، بلکہ سیدھا مسجد 

کی طرف چلا اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا میں اپنی جگہ سے اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک خدا میری توبہ قبول نہ کرلے۔ 
 آخر کار خدا نے اس کا یہ گناہ اس کی صداقت کی بناہ پربخش دیا۔ اور اسی سلسلے میں یہ آیت "وأخرون اعترفوا بذنوبهم ..... نازل ہوئی. (توبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 102) 
 آخرکار بنی قریظہ کے یہودیوں نے مجبور ہو کر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ 
 جناب پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سعد بن معاذ تمہارے بارے میں جو نیک کردیں ، کیا تمھیں قبول ہے؟وہ راضی ہو گئے۔ 
 سعد بن معاذ نے کہا کہ اب وہ موقع آن پہنچا ہے کہ سعدکسی ملامت کرنے والے کی علامت کو نظر میں رکھے ۔ بغیر حکم خدا بیان کرے۔ 
 سعدنے جس وقت یہودیوں سے دوبارہ یہی اقرار لے لیا تو آنکھیں بند کرلیں اور جس طرف پیغمبر کھڑے ہوئے تھے ادھر رخ کرکے عرض کیا ، آپ بھی میر فیصلہ 

قبول کریں گے ؟ آنحضرت نے فرمایا، ضرور! تو سعد نے کہا، میں کہتا ہوں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ تھے (ننی قریظہ کے مرد) انھیں قتل کر دینا چاہیئے ، ان کی 

عورتیں اور بچے قید اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں۔
 البتہ ان میں سے ایک گروہ اسلام قبول کرنے کے بعد قتل ہونے سے بچ گیا۔ ؎1 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
  ؎1    سیرت ابن ہشام جلد 3  ص 224 اور کامل ابن اتیرج  جلد 2 ص 185(کچھ تخلیص کے ساتھ)۔