Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک اور عظیم کامیابی

										
																									
								

Ayat No : 26-27

: الاحزاب

وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ۲۶وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ۲۷

Translation

اور اس نے کفار کی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے کچھ کو قتل کررہے تھے اور کچھ کو قیدی بنارہے تھے. اور پھر تمہیں ان کی زمین, ان کے دیار اور ان کے اموال اور زمینوں کا بھی وارث بنادیا جن میں تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا اور بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے.

Tafseer

									  تفسیر
                   ایک اور عظیم کامیابی :
 مدینہ میں یہودیوں کے تین مشهور قبائل رہتے تھے ، بی قریظہ ، بنی النضیر اور میں قینقاع - 
 تینوں گروہوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ پہلے سے معاہدہ کر رکھا تھا کہ آپؐ کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے ، ان کے لیے جاسوسی نہیں کریں گے 

اورمسلمانوں کے ساتھ مل جل کر امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے لیکن قبیلہ بنی قینقاع نے ہجرت کے دوسرے سال اور قبیلہ بنی نضیر نے ہجرت کے چوتھے سال مختلف حیلول بہانوں 

سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مقابلہ کے کیلئے تیار ہو گئے۔ آخر کار ان کی مزاحمت اور مقابلہ کی سکت ختم ہوگئی اور وہ مدینہ سے باہر نکال 

دیئے گئے۔ 
 بنی قینقاع اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور بنی نضیر کے کچھ لوگ تو خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف چلے گئے ۔ ؎1 
 اسی بناء پر ہجرت کے پانچویں سال جبکہ جنگی احزاب پیش آئی تو صرف قبیلہ بنی قریظہ مدینہ میں باقی رہ گیا تھا۔ اور جیسا کہ جنگ احزاب کی سترہ آیات کی تفسیر 

میں ہم نے کہا ہے ، وہ بھی اس میدان میں اپنے معاہدہ کو توڑ کر مشرکین عرب کے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں کے مقابلے میں تلواریں سونت لیں۔ 
 جب جنگ احزاب ختم ہوگئی اور قریش ، بنی غطفان اور دیگر قبائل عرب بھی رسوا کن شکست کے بعد مدینہ سے پلٹ گئے تو اسلامی روایات کے مطابق پیغمبراکرم صلی 

اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر لوٹ آئے اور جنگی لباس اتار کر نہانے دھونے میں مشغول ہوگئے تو اس موقع پر جبرائیل حکم خدا سے آپ پر نازل ہوئے اور کہا ، کیوں آپ نے ہتھیار اتار 

دیئے ہیں جبکہ فرشتے ابھی تک آماده پیکار ہیں۔ آپؐ فورًا بنی قریظہ کی طرف جائیں اور ان کا کام تمام کریں. 
 واقعًا بنی قریظہ کا حساب چکانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں تھا۔ مسلمان اپنی کامیابی پر خوش وخرم تھے ، بنی قریظہ شکست کی شدید وحشت میں 

گرفتار تھے اور قبائل عرب میں سے ان کے دوست اور حلیف تھکے ماندے اور بہت ہی پست حوصلوں کے ساتھ شکست خوردہ حالت میں اپنے اپنے شہروں اور علا قوں میں جاچکے 
تھے اور کوئی نہیں تھا جو ان کی حمایت کرے۔ 
 بہرحال منادی نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و لہٖ وسلم کی طرف سے ندادی کہ نماز عصر پڑھنے سے پہلے بنی قریظہ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     کامل ابن کثیر جلد 2 ص 173 - 137
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کی طرف چل پڑو۔ مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوگئے اورغروب آفتاب کے ساتھ ہی بنی قریظہ کے محکم و مضبوط قلعوں کومسلمانوں نے اپنے محاصرے میں لے لیا۔   

پچیسں دن تک محاصرہ جاری رہا ۔ اس کے بعد جیسا کہ نکات کی بحث میں آئے گا ، ان سب نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا۔ ان میں سے کچھ کو قتل کردیاگیا 

اورمسلمانوں کی کامیابیوں میں ایک اور فتح کا اضافہ ہوا اور سرزمین مدینہ ہمیشہ کے لیے ان منافق اقوام اور زبردست ہٹ دھرم اعداءکے ناپاک جود سے پاک ہوگئی۔ 
 زیر بحث آیات اس ماجرا کی طرف مختصر اور بلیغ اشارہ کرتی ہیں۔ جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ آیات کامیابی کے حصول کے بعد نازل ہوئیں اور اس ماجرے 

کاتذکر ہ  خدا کی عظیم نعمت اور عنایت کے طور پر ہوا ہے۔ 
 پہلے فرمایا گیا ہے۔ "خدا نے اہل کتاب میں سے ایک گروہ کو جنہوں نے مشرکین عرب کی حمایت کی تھی ، ان کے محکم ومظبوط قلعوں سے نیچے کھینچا"۔ (وانزل الذين 

ظاهروهم من أهل الكتاب من صياصيهم)۔ 
 "صياصي"  جمع ہے "صيصیہ" کی جو مضبوط قلعوں کے معنی میں ہے۔ بعد ازاں اس لفظ کا دفاع کے ہر ذریعے پراطلاق ہونے لگا ، جیسے بیل کے سینگ یا مرغے کی 

ٹانگ والا کانٹا۔ 
 یہاں سے وا/ضح ہوجاتا ہے کہ یہودیوں نے اپنے قلعے مدینہ کے پاس بلند اور اونچی جگہ پر بنارکھے تھے اور ان کے و بلند برجوں سے اپنا دفاع کرتے تھے " 

انزل" (نیچے لے آیا) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 
 اس کے بعد مزید فرمایا کیا ہے۔ "خدا نے ان کے دلوں میں خوف اور رعب ڈال دیا": (وقذف في قلوبهم الرعب)۔ 
 آخرکار ان کا معاملہ یہان تک پہنج گیا کہ "تم ان میں سے ایک گروہ کوقتل کرتے تھے اور دوسرے کو اسیر بنا رہے تھے "۔(فریقًا تقتلون وتأسرون فریقًا)۔ 
 "اور ان کی زمینیں گھر اور مال ومتاع تمھارے اختیار میں دے دیا"۔ (و اورتكم ارضهم وديارهم و اموالهم )۔
 یہ چند جملے جنگ بنی قریظہ کے عام نتائج کا خلاصہ ہیں۔ ان خیانت کاروں میں سے کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے،  کچھ قید ہو گئے اور بہت زیاده مال غنیمت 

جس میں ان کی زمینیں ، گھر، مکانات اور مال و متاع شامل تھا، مسلمانوں کو ملا ۔ 
 ان غنائم کو "ارث" سے تعبیر کرنا اس بناء پر ہے مسلمانوں نے ان کے حاصل کرنے میں کوئی زیادہ زحمت نہیں اٹھائی بلکہ آسانی کے ساتھ و تمام مال ان کے ہاتھ آگیا 

جو یہودیوں نے سالہا سال کے عرصے میں ظلم اور بیدادگری اور لوٹ کھسوٹ کے ذریعے حاصل کیا تھا۔
 آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے۔ "اسی طرح وہ زمین بھی تھارے اختیارمیں دے دی جس پر ہرگز تم نے قدم نہیں رکھاتھا"۔ (وارضًالم تطوما )۔ 
 "اور خدا ہر چیز پر قادر و توانا ہے": (وكان الله على كل شيء قديرًا)۔ 
 " ارضالم تطوفا" سے مراد کونسی زمیں ہے؟ مفسرین کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے ۔ بعض نے اسے سرزمین "خیبر" کی طرف اشارہ سمجھاہے جوبعد میں 

مسلمانوں کے ہاتھوں فتح بوئي۔ 
 بعض نے سرزمین کی طرف اشاره سمجھاہے 
 بعض اسے سر زمین "روم اور ایران" جانتے ہیں۔ 
 اور بعض سب سر زمینوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں تواس دن سے لے کر قیامت تک مسلمانوں کی قلم رو میں قرار پائیں گی۔
 لیکن ان احتمالات میں سے کوئی بھی ظاہر آیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ کیونکہ آیت فعل ماضی کے قرینہ سے جو اس میں آیا ہے یعنی" اورثكم" اس بات کی شاہد ہے 

کہ یہ سرزمین اسی جنگ بنی قریظہ کے واقعے میں مسلمانوں کے تصرف میں آئی تھی ۔ علاوہ ازیں سرزمین مکہ ایسی نہیں تھی کہ جس میں مسلمانوں نے قدم نہ رکھا ہو جبکہ قرآن کہتا 

ہے کہ ایسی زمین تمھارے قبضہ میں دی کہ جس میں تم نے قدم نہیں رکھا تھا۔ ظاہرًا یہ جملہ ان مخصوص باغات واراضی کی طرف اشارہ ہے جو بنی قریظہ کے قبضے میں تھے اور 

کوئی بھی ان میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ یہود اپنے اموال کی حفاظت اور اس کا زبردست خیال رکھتے تھے۔ 
 نیز اگراس فتح و کامیابی کے ماضی میں ہونے سے صرف نظر کرلیں تو بھی زیادہ مناسب زمین خیبر سے تعلق رکھتی ہے جو بہت ہی مختصر عرصے میں یہودیوں 

سے لے لی گئی تھی اورمسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھی۔ (جنگ خیبر ہجرت کے ساتویں سال وقوع پذیر ہوئی تھی) -