Tafseer e Namoona

Topic

											

									  7-  نعیم بن مسعود کی داستان اور دشمن کے لشکرمیں پھوٹ

										
																									
								

Ayat No : 21-25

: الاحزاب

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵

Translation

مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.

Tafseer

									 7-  نعیم بن مسعود کی داستان اور دشمن کے لشکرمیں پھوٹ :  
 نعیم جو تازہ مسلمان اور ان کے قبیلہ "غطفان" کو لشکر اسلام کی خبر نہیں تھی ، وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ آپؐ 

مجھے جو حکم بھی دیں گے ، میں حتمی کامیابی کے لیے اس پر کار بند رہوں گا۔
 رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: 
 "تمہارے جیسا شخص ہمارے درمیان اور کوئی نہیں ہے۔ اگرتم دشمن کے لشکر میں پھوٹ ڈال سکتے ہو تو ڈالو ، کیونکہ جنگ پوشیده تدابیر کا مجموعہ ہے" 
 نعیم بن مسعود نے ایک عمده تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ وہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گیا جن سے زمانہ جاہلیت میں ان کی دوستی تھی ان سے کہا بنی قریظہ! تم 

جانتے ہوکہ مجھے تمھارے ساتھ محبت ہے ۔
 انھوں نے کہا آپ سچ کہتے ہیں: ہم آپ کو اس بارے میں ہرگزکوئی الزام نہیں دیتے۔ 
 نعیم بن مسعود نے کہا : قبیلہ قریش اور غطفان تمھاری طرح نہیں ہیں ۔ یہ تمھارا اپنا شہر ہے ۔ تمارا! مال اولاد اور عورتیں یہاں پر ہیں اور تم ہرگز یہ نہیں کرسکتے 

کہ یہاں سے کوچ کرجاؤ۔ 
 
 قریش اور قبیلہ غطفان محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور تم نے ان کی حمایت کی ہے جبکہ ان کا شہر کہیں اور ہے اوران 

کے مال اور عورتیں بھی دوسری جگہ پر ہیں۔ اگر انھیں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گری کرکے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو اپنے شہر کو لوٹ جائیں گے 

، لیکن تم نے اور محمدؐ نے تو اسی شہر میں رہناہے اور یقینًا تم اکیلے ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، تم اس وقت تک اسلحہ نہ اٹھاؤ جب تک قریش سے کوئی معاہدہ نہ کرلو 

اور وہ اس طرح کہ وہ چند سرداروں اور بزرگوں کو تمھارے پاس گروی رکھ دیں تاکہ وہ جنگ میں کوتاہی نہ کریں۔ 
 بنی قریظہ کے یہودیوں نے اس کو بہت سراہا۔ 
 پھرنعیم مخفی طور پر قریش کے پاس گیا۔ ابوسفیان اورقریش کے چند سرداروں سے کہا کہ تم اپنے ساتھ میری دوستی کی کیفیت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ ایک بات میرے 

کانوں تک پہنچی ہے، جسے تم تک پہنچانا میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں تاکہ خیرخواہی کا حق ادا کرسکوں لیکن میری خواہش یہ ہے کہ یہ بات کسی اور کو معلوم نہ ہونے پائے۔ 
 انہوں نے کہا تم بالکل مطمئن رہو۔ 
 نعیم کہنے لگے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہودی محمدؐ کے بارے میں تمھارے طرز عمل سے اپنی براءت کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ یہودیوں محمد کے پاس قاصد بھیجا 

ہے اور کہلوایا ہے کہ ہم اپنے کیے پرپشیمان ہیں اور کیا یہ کافی ہوگا کہ ہم قبیلہ قریش اور غطفان کے چند سردار آپ کے لیے یرغمال بنالیں اور ان کو بندھے ہاتھوں آپ کے سپرد 

کردیں تاکہ آپ ان کی گردن اڑا دیں۔ اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ مل کر ان کی بیخ کنی کریں گے؟ محمد نے بھی ان کی پیش کش کو قبول کرلیا ہے ۔ اس بناء پر اگر یہودی تمھارے پاس کسی 

کو بھجیں اور گروی رکھنے کا مطالبہ کریں تو ایک آدمی بھی ان کے سپرد نہ کرتا کیونکہ خطرہ یقینی ہے۔ 
 پھر وہ اپنے قبیلہ غطفان کے پاس آئے اور کہا : تم میرے اصل اور نسب کو اچھی طرح جانتے ہو۔ میں تمھارا عاشق اور فریفتہ ہوا اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ 

تمہیں میرےخلوص نیت میں تھوڑا سا بھی شک و شبہ ہو۔ 
 انھوں نے کہا : تم سچ کہتے ہو ، یقینا ایسا ہی ہے۔ 
 نعیم نے کہا : میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن ایسا ہوکہ گویا تم نے مجھ سے نہیں سنی۔ 
 انھوں نے کہا : مطمئن رہو۔ یقینًا ایساہی ہوگا ، وہ بات کیا ہے؟ 
 نعیم نے وہی بات جو قریش سے کہی تھی ، یہودیوں کے پشیمان ہونے اور یرغمال بنانے کے ارادے کے بارے میں حرف بحرف ان سے بھی کہہ دی اور انھیں اس 

کام کے انجام سے ڈرایا۔ 
 اتفاق سے وہ (ماہ شوال 5ھجری ٓکے) جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات تھی ۔ ابوسفیان اور غطفان کے سرداروں نے ایک گروہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس بھیجا 

اور کہا : ہمارے جانوریہاں تلف ہورہے ہیں اور یہاں ہمارے لیے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں کل صبح ہمیں حملہ شروع کرنا چاہیے تاکہ کام کو کسی نتیجے تک پہنچائیں۔ 
  یہودیوں نے جواب میں کہا: کل ہفتے کا دن ہے اور ہم اس دان کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ علاوہ ازیں ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر جنگ نے تم پر دباؤ ڈالا تو تم 

اپنے شہروں کی طرف پلٹ جاؤگے اور ہمیں یہاں تنہا چھوڑ دو گے۔ ہمارے تعاون اور ساتھ دینے کی شرط یہ ہے کہ ایک گروہ گردی کے طور پر ہمارے حوالے کردو۔ 
 جب یہ خبر قبیلہ قریش اور غطفان تک پہنچی تو انہوں نے کہا : خدا کی قسم نعیم بن مسعود سچ کہتا تھا۔ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے ۔
 لہذا انہوں نے اپنے قاصد یہودیوں کے پاس بھیجے اور کہا :بخدا ہم تو ایک آدمی بھی تمھارے سپرد نہیں کریں گے اوراگر جنگ میں شریک ہو تو ٹھیک ہے، شروع کرو۔ 
 بنی قریظہ جب اس سے باخبر ہوئے تو انھوں نے کہا: واقعًا نعیم بن مسعود نے حق بات کہی تھی ! یہ جنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ کوئی چکرچلارہے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں 

کہ لوٹ مارکرکے اپنے شہروں کو لوٹ جائیں اور ہمیں محمد کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ جائیں۔ پھر انہوں نے پیغام بھیجا کہ اصل بات وہی ہے جو ہم کہہ چکے ہیں۔ بخدا ! جب تک کچھ 

افراد گروی کے طور پر ہمارے سپرد نہیں کرو گے، ہم بھی جنگ نہیں کریں گے ۔ قریش اور غطفان نے بھی اپنی بات پر اصرار کیا، لہذا ان کے درمیان میں اختلاف پڑگیا ۔ 
اوریہ وہی موقع تھا کہ رات کو اس قدر زبردست سرد طوفانی ہوا چلی کہ ان کے خیمے اکھڑ گئے اور دیگیں چولہوں سے زمین پرآ پڑیں۔ 
 یہ سب عوامل مل ملاکر اس بات کا سبب بن گئے کہ دشمن کو سر پرپاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا اور فرار کو قرار پر ترجیح دینی پڑی۔ حتی کہ میدان میں ان کا ایک آدمی بھی 

نہ رہا۔ ؎1