Tafseer e Namoona

Topic

											

									  8- حذیفہ کا واقعہ

										
																									
								

Ayat No : 21-25

: الاحزاب

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵

Translation

مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.

Tafseer

									 8- حذیفہ کا واقعہ: 
 بہت سی تواریخ میں آیا ہے ، حذیفہ یمانی کہتے ہیں کہ ہم جنگ خندق کے ایام میں بھوک اور تھکن ، وحشت اوراضظراب سے اس قدر دو چار تھے کہ خدا ہی بہتر جانتا 

ہے۔ ایک رات (لشکر احزاب میں اختلات پڑجانے کے بعد) پیغمبرؐ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو چھپ چھپا کر دشمن کی لشکرگاہ میں جائے اور ان کے حالات معلوم کر 

لائے تاکہ وہ جنت میں میرا رفیق اور ساتھی ہو۔ 
 حذیفہ کہتے ہیں خدا کی قسم کوئی شخص بھی شدت و حشت، تھکن اور بھوک کے مارے اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ 
 جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حالت دیکھی تو مجھے آواز دی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا جاؤ 
الا اور میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آؤ ۔ لیکن وہاں کوئی اور کام انجام نہ دنیا یہاں تک کہ میرے پاس آ جاؤ۔ 
 میں اسی حالت میں وہاں پہنچا جب کہ سخت آندھی چل رہی تھی اور طوفان برپا تھا اور خدا کا یہ لشکر انھیں تہس نہس کر رہا تھا۔ خیمے تیز آندھی کے سبب ہوا میں 

اڑتے تھے۔ آگ بیابان میں پھیل چکی تھی ۔ کھانے پینے کے برتن الٹ پلٹ گئے تھے۔ اچانک میں نے ابوسفیان کا سایہ محسوس کیا کہ وہ اس تاریکی میں بلند آواز سے کہہ رہا تھا : اے 

قریش ! تم میں سے ہر ایک اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص کو اچھی طرح سے پہچان لے تاکہ یہاں کوئی بے گانہ نہ ہو ، میں نے پہل کرکے فورًا ہی اپنے پاس بیٹھے وائے شخص 

سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟اس نے کہا، میں فلاں ہوں ، میں نے کہا بہت اچھا۔ 
 پھر ابوسفیان نے کہا خدا کی قسم! یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے ، ہمارے اونٹ گھوڑے ضائع ہوچکے ہیں اور ببی قریظہ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     سیرۃابن ہشام جلد 3 ص 240 (تلخیص کے ساتھ)۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
نے اپنا پیمان توڑ ڈالا ہے اوراس طوفان نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ 
 پھر وہ بڑی تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف بڑھا اور سوار ہو نے کے لیے اسے زمیں سے اٰٹھایا ۔ وہ اس قدرجلدی میں تھا کہ اونٹ کے پاؤں میں نبدھی ہوئی رسی کو 

کھوانا بھول گیا۔ لہذااونٹ تین پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ میں نے سوچا ایک ہی تیر سے اس کا کام تمام کر دوں ابھی تیر چلہ کمان میں جوڑا ہی تھا کہ فورًا آنحضرت کا فرمان یاد آگیا کہ جس آپ 

نے فرمایا تھا کچھ کاروائی کیے بغیر واپس آ جانا، تمھارا کا کام صرف وہاں کے حالات ہمارے پاس لانا ہے لہذا میں واپس پلٹ گیا اور جاکرتمام حالات عرض کیے۔ 
 پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بارگاه ایزدی میں عرض کیا: 
  "اللھم انت منزل الكتاب ، سريع الحساب، اهزم الأحزاب اللهم 
  اهذمهم و زلزلهم"۔ 
  "خداوندا : تو کتاب کو نازل کرنے والا اور سر يع الحساب ہے ، تو خودہی احزاب کو نیست و نابود فرما! 
  خدایا! انھیں تباہ کر دے اور ان کے پاؤں نہ جمنے دے"۔ ؎1