5- حضرت علیؑ کی تاریخی جنگ
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵
مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.
5- حضرت علیؑ کی تاریخی جنگ:
اس جنگ کا ایک اہم واقعہ حضرت علیؑ کا دشمن کے لشکر کے نامی گرامی ہے پہلوان عمروبن عبدود کے ساتھ مقابلہ تھا. تاریخ میں آیا ہے کہ لشکراحزاب نے جن
دلادران عرب میں سے بہت طاقت ور افراد کو اس جنگ میں اپنی امداد کے لئے دعوت دے رکھی تھی ، ان میں سے پانچ افراد زیادہ مشہور تھے: عمروبن عبدود ، عکرمہ بن ابی جہل ، ببیرہ
، نوفل اور ضرار یہ لوگ دوران محاصره ایک دن دست بدست لڑائی کے لیے تیار ہوئے، لباس جنگ بدان پرسجایا اور خندق کے ایک کم چوڑے حصے سے ، جو مجاہدین اسلام کے تیروں کی
پہنچ سے کسی قدر دور تھا ، اپنے گھوڑوں کے ساتھ دوسری طرف جست لگائی اور لشکر اسلام کے سامنے آکھڑے ہوئے، ان میں سے عمرو بن عبدود زیادہ مشہوراور نامور تھا۔ اس کی
"کوئی ہے بہادر" کی آواز میدان احزاب میں گونجی اور چونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلے کے لیے تیار نہ ہوا ، لہذا وہ زیادہ گستاخ ہوگیا اور مسلمانوں کے عقاید
اورنظریات کا مذاق اڑانے لگا اور کہنے لگا:
تم جو کہتے ہو کہ تمھارے مقتول جنت میں ہیں اور ہمارے مقتول جہنم میں تو کیا میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے میں بہشت بھیجوں یا وہ مجھے جہنم کی طرف
روانہ کرے؟
اوراس موقع پر اس نے اپنے یہ مشہور اشعار پڑھے:
ولقد بححت عن الناء بجمعكم هل من مبارزا
ووقفت اتجبن المشجع موقف البطل المناجز
ان السماحةوالشجاعةفي الفتی خیرا لغرائزا
تمہارے اجتماع میں میں نے اتنا پکارا اور مبارز طلبی کی کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
میں اس وقت ایسی جگہ پرکھڑا ہوں کہ بہادر نما جنگو شجاع اس کی جگہ پر کھڑا ہونے سے گھبراتے ہیں۔
جی ہاں! شرافت اور شجاعت جواں مردوں کی بہترین خصلتیں ہیں۔
اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه و اله وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص کھڑا ہو اور اس کے شرکو مسلمانوں کے سر سے دور کردے۔ لیکن حضرت علی ابن ابی
طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی اس کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوا توا آنحضرتؐ نے علی ابن ابی طالبؑ سے فرمایا:"یہ عمرو بن عبدود ہے"۔ حضرت علیؑ نے عرض کی
حضور! میں بالکل تیار ہوں خواہ عمرو ہی کیوں نہ ہو۔
پیغمبراکرمؐ نے ان سے فرمایا ۔ میرے قریب آؤ: چنانچہ علی علیہ اسلام آپ کے قریب گئے اور آنحضرتؐ نے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور اپنی خصوص تلوار
ذوالفقارنہیں عطا فرمائی اور ان الفاظ میں انھیں دعادی :
" اللهم احفظہ من يديه ومن خلفه و عن يمينه وعن
شمال ومن فوقہ ومن تحته"
خدایا! علی کے سامنے سے ، پیچھے سے ، دائیں اور بائیں سے اور اوپر اور نیچے سے
حفاظت فرما۔
حضرت علی علیہ تم بڑی تیزی سے عمرو کے مقابلہ میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے میدان میں اترے۔
الاتعجلن فقد اتاک مجیب صوتک غير عاجز
ذونیة وبصيرة والصدق منجی كل فائز
انی لارجوان افيم عليك ناتحة لجنائز!
من ضربة غلاء يبقى صوتها بعد الهزاهز
جلدی نہ کرو کیونکہ تیری پکار کا قوی اور طاقت ور جواب دینے والا اب آگیا ہے۔
وہ شخص جو پاک نیت ، شائستہ بصیرت اور فاتح انسان کے لیے نجات دینے والی صداقت رکھتا ہے-
مجھے امید ہے کہ نوحہ کرنے والیوں کی نو حہ زاری تیرے جنازہ کے پاس بلند کراؤں گا۔
ایسی واضح ضربت سے کہ جس کی صدا جنگ کے میدانوں کے بعد بھی باقی رہے ۔ اور ہر جگہ پہنچے ۔
یہی وہ موقع تھاکہ پیغمبر ختمی المرتبت صلی الہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ مشهور جملہ ارشاد فرمایا۔
"برزالایمان كله لي الشريك کله"
پورے کا پورا ایمان پورے کے پورے کفر کے مقابلہ میں جارہا ہے۔ ؎1
امیر المومنین علی علیہ السلام نے پہلے تو اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ پھر میدان چھوڑ کرچلے جانے کو کہا۔ اس پر بھی اس نے انکار کیا اور
اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھا۔آپؑ کی تیسری پیشکش یہ تھی کہ گھوڑے سے اتر آئے اور پیادہ ہوکر دست بدست لڑائی کرے ۔
عمرو آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ میں نے بھی سوچا بھی نہ تھا کہ عرب میں سے کوئی شخص مجھے ایسی تجویز دے گا۔ گھوڑے سے اترآیا اور علی علیہ السلام
پراپنی تلوار کاوارکیا۔ لیکن امیر المومنینؑ نے اپنی مخصوص مہارت سے اس دار کو اپنی سپر کے ذریعے روکا۔ مگر تلوار نے سپر کو کاٹ کر آپؑ کے سر مبارک کو زخمی کردیا۔ اس کے
بعد حضرت على علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملی سے کام لیا۔ عمرو بن عبدود سے فرمایا ، تو عرب کا زبردست پہلوان ہے ، جب کہ میں تجھ سے تن تنہالڑ رہا ہوں ۔ لیکن تونے اپنے
پیچھے کن لوگوں کو جمع کر رکھا ہے۔ اس پر عمرنے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے عمر کی پنڈلی پرتلوار کا وار کیا ، جس سے وہ سرد قد زمین پرلوٹنے لگا ۔ شدید گرد و غبار نے میدان کی فضا کو گھیر رکھا تھا۔ کچھ منافقین
یہ سوچ رہے تھے کہ حضرت علیؑ ، عمرو کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں۔ لیکن سب انھوں نے تکبیر کی آواز سنی تو علیؑ کی کامیابی ان پر واضح ہوگئی ۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے
سرمبارک سے خون بہہ رہا تھا۔ اور لشکرگاہ اسلام کی طرف خراماں خراماں واپس آرہے تھے۔ جبکہ فتح کی مسکراہٹ آپؑ کے لبوں پر کھیل رہی تھی۔ اور عمر کا بےسر پیکرمیدان کے
کنارے ایک طرف پڑا ہوا تھا۔
عرب کے مشہور پہلوان کے مارے جانے سے لشکر احزاب اور ان کی آرزوؤں پر ضرب کاری لگی، ان کے حوصلے پست اور دل انتہائی کمزور ہوگئے۔ اس ضرب
نے ان کی فتح کی آرزوؤں پر پانی پھیر دیا ۔ اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کامیابی کے بارے میں حضرت علیؑ سے ارشاد فرمایا:
لم وزن الیوم عملک بعمل جميع امة محمد الرجع ھملك على
عملھم و ذاک أنه لم يبق بيت من المشركين الاوقد دخل ذل
بقتل عمرو ولم يبق بيت من المسلمين الا وقد دخل عز بقتل عمرو:
اگر تمھارے آج کل کے عمل کو ساری امت محمد کے اعمال سے موازنہ کریں تو وہ ان پر بھاری
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار جلد 20 ص 215 ، ابن ابی الحدید : شرح نہج البلاغہ جلد 4 ص 344 حقاق الحق جلد 6 ، 9 یہ روایت ان کتب کے حوالے کے درج کی گئی ہے
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہوگا۔ کیونکہ عمرو کے مارے جانے سے مشرکین کا کوئی ایسا گھر باقی نہیں رہا جس میں ذلت و خواری داخل نہ ہوئی ہو اور مسلمانوں کا کوئی بھی گھرایسا نہیں ہے جس میں عمرو کے
قتل ہو جانے کی وجہ سے عزت داخل نہ ہوئی ہو"۔ ؎1
اہل سنت کے مشہور عالم ، حاکم نیشاپوری نے اس گفتگو کو نقل کیا ہے ۔ البتہ مختلف الفاظ کے ساتھ اور وہ یہ ہے :
"لمبارزة على بن ابی طالب لعمرو بن عبدود یوم الخندق
افضل من اعمال أقتى الى يوم القيامة " ؎2
"یعنی علی ابن ابی طالب کی خندق کے دن عمرو بن عبدود سے جنگ میری امت کے قیامت کے
اعمال سے افضل ہے"۔
آپ کے اس ارشاد کا فلسفہ واضح ہے ، کیونکہ اس دن اسلام اور قرآن ظاہرًا نابودی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے ، ان کے لیے زبردست بحرانی لمحات تھے۔ جس
شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فدا کاری کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ ایثار اور قربانی کا ثبوت دیا، اسلام کو اس خطرے سے محفوظ رکھا ، قیامت تک اس کے
دوام کی ضمانت دے دی ، اس کی فدا کاری سے شجر اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور پھراسلام عالمین پر پھیل گیا لہذا سب لوگوں کی عبادتیں اس کی مرہون منت قرار پاگئیں۔
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین نے کسی آدمی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ عمرو بن عبدود کے لاشے کو دس ہزار درم میں خرید لائے (شاید ان کا یہ
خیال تھا کہ مسلمان عمرکے بدان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو سنگدل ظالموں نے حضرت حمزہ کے بدن کے ساتھ جنگ احد میں کیا تھا) لیکن رسول اکرمؐ نے فرمایا: اس کا لاشہ تمھاری
ملکیت ہے۔ ہم
مردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس وقت عمرو کی بہن اپنے بھائی کے لاشے پر پہنچی اور اس کی قیمتی زرہ کو دیکھا کہ حضرت على علي السلام نے اس کے بدن سے
نہیں اتاری تواس نے کہا :
"ماقتله الاكفوكريم"
"میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس کا قاتل کریم اور بزرگوار شخص ہی تھا"۔ ؎ 3
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
-
؎1 بحارالانور جلد 20 ص 216
؎2 مستدرک حاکم جلد 3 ص 32
؎3 اس حصے میں "احقاق الحق" جلد 6 ، بحارالانوار جلد 20 ، تفسیر المیزان جلد 16 ۔" حبیب السیر" جلد اول اور فروغ ابدیت جلد 2 سے استفادہ کیا گیا ہے۔