Tafseer e Namoona

Topic

											

									  3- خندق کی کھدائی

										
																									
								

Ayat No : 21-25

: الاحزاب

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵

Translation

مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.

Tafseer

									 3- خندق کی کھدائی :
 جیساکہ معلوم ہے کہ خندق کے کھودنے کا سلسلہ حضرت سلمان فارسی  کے مشورہ سے وقوع پزیر ہوا۔ خندق اس زمانے میں ملک ایران میں دفاع کا موثر ذریعہ تھا اور 

جزیرۃ العرب میں اس وقت تک اس کی مثال نہیں تھی اور عرب میں اس کا شمار نئی ایجادات میں ہوتا تھا۔ اطراف مدینہ میں اس کا کھودنا فوجی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ خندق 

دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے اور مسلمانوں کے روحانی تقویت کا بھی موثر زریعہ تھی۔ 
 خندق کے کوائف اور جزئیات کے بارے میں صحیح طور پرمعلومات تک رسائی تو نہیں ہے البتہ مورخین نے اتنا ضرور لکھا ہے کہ اس کا عرض اتنا تھا کہ دشمن کے 

سوار جست لگا کر بھی اس کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ اس کی گہرائی ایقینًا اتنی تھی کہ اگر کوئی شخص اس میں داخل ہو جاتا تو آسانی کے ساتھ دوسری طرف باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ 

علاوہ ازیں مسلمان تیراندازوں کا خندق والے علا قہ پراتنا تسلط تھا کہ اگر کوئی شخص خندق کو عبور کرنے کا ارادہ کرتا تو ان کے لیے ممکن تھا کہ اسے خندق کے اندر ہی تیر کا نشانہ 

بنا لیتے ۔
 رہی اس کی لمبائی ترمشہور روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ حضرت رسالت مآب صلی الہ علیہ و آلہ وسلم نے دس  دس افراد کو چالیس ہاتھ (تقریبًا 20 میٹر) خندق 

کھودنے پر مامور کیا تھا اور مشہور قول کے پیش نظر کہ لشکراسلام کی تعداد تین ہزار تھی تو مجموعی طور پر اس کی لمبائی اندازًا بارہ ہزار ہاتھ  (چھ ہزار میٹر) ہوگی۔ 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   بحارالانوار جلد 20 ص 228۔ 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس زمانے میں نہایت بی ابتدائی وسائل کے ساتھ اس قسم کی خندق کھودنا بہت ہی  طاقت فرسا کام تھا خصوصًا جب کہ مسلمان 

خوراک اور دوسرے وسائل کے لحاظ سے بھی سخت تنگی میں تھے۔ 
 يقينا خندق کھودی بھی نہایت کم مدت میں گئی۔ یہ امر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ لشکر اسلام پوری ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے 

ضروری پیش بندی کرچکا تھا اور وہ بھی اس طرح سے کہ لشکرکفر کے مدنیہ پہنچنے سے تین دن پہلے خندق کی کھدائی کا کام مکمل ہوچکا تھا۔