1- جنگ کی اهمیت
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵
مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.
جنگ احزاب کے چند اہم پہلو:
1- جنگ کی اهمیت:
جنگی احزاب جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں تمام قبائل اور مختلف اسلام دشمن طاقتیں نوخیزاسلام کی سرکوبی کے لیے متحد ہوئی تھیں۔
جنگ احزاب کفر کی آخری کوشش، ان کے ترکش کا آخری تیر اور شرک کی قوت کا آخری مظاہرہ تھا۔ اسی بنا پر جب دشمن کا سب سے بڑا پہلوان عمرو بن عبدو عالم
اسلام کے دلیر مجاہد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"برز الایمان كله الى الشرك كله"
"سارے کا سارا ایمان سارے کے سارے (کفراور) شرک کے مقابلے میں آگیا ہے"۔ ؎1
کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی دوسرے پرفتح کفرکی ایمان پریا ایمان کی کفرپر مکمل کامیابی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جو اسلام اور شرک کے
مستقبل کا تعین کررہاتھا۔ اسی بناء پردشمن کی اس عظیم جنگ اور کارزار میں کمر ٹوٹ گئی اوراس کے بعد ہمیشہ کے لئے ابتکارعمل مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا۔
دشمن کا ستارہ اقبال غروب ہوگیا اور اس کی طاقت کے ستون ٹوٹ گئے۔ اسی لیے ایک حدیث میں ہے کہ حضرت رسول گرامیؐ نے جنگ احزاب کے خاتمے پر فرمایا:
"الان نغزوهم ولا یغزوننا"
"اب ہم ان سے جنگ کریں گے اور ان میں ہم سے جنگ کی سکت نہیں ہے"۔ ؎2