Tafseer e Namoona

Topic

											

									  جنگ احزاب میں سچے مومنین کا کردار

										
																									
								

Ayat No : 21-25

: الاحزاب

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ۲۱وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ۲۲مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۲۳لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۲۴وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ۲۵

Translation

مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے. اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا. مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. تاکہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاہے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرلے کہ اللہ یقینا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے.

Tafseer

									  تفسیر
                  جنگ احزاب میں سچے مومنین کا کردار : 
 اب تک مختلف گروہوں اور ان کے جنگی احزاب میں کارناموں کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی جن میں ضعیف الایمان مسلمان ، منافق لوگ ، کفر و نفاق کے سرغنے اور 

جہاد سے روکنے والے شامل ہیں۔ 
  قرآن مجید اس گفتگو کے آخرمیں "سچے مؤمنین "ان کے بلند حوصلوں ، یا مردوں ، جراتوں اور اس عظیم جہاد میں ان کی دیگر خصوصیات کے بارے میں گفتگو کرتا 

ہے ۔
 اس بحث کی تمہید کو پیغمبر اسلامؐ کی ذات سے شروع کرتا ہے جو مسلمانوں کے پیشوا ، سردار اور اسوہ کامل تھے ،خدا کہتا ہے :"تمھارے لیے رسول اللہ کی زندگی 

اور (میدان احزاب میں) ان کا کردار ایک اچھا نمونه اوراسوہ کامل تھا، ان لوگوں کے لیے جو رحمت خدا اور روز قیامت کی امید رکھتے ہیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں : (ولقد كان 

لكم في رسول الله اسوة حسنة لمن كان يرجوا الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا) - 
 تمھارے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس میدان میں بلکہ ساری زندگی پیغمبراسلامؐ کی ذات والا صفات ہے۔ آپ کے بلند حوصلے ، صبرواستقامت ، پا ئمردی ، 

زیرکی ، دانائی ، خلوص، خدا کی طرف توجہ ،حادثات پر کنٹرول مشکلات اور مصائب کے آ گے سرتسلیم خم نہ کرنا ، غرضکہ ان میں سے ہر ایک چیز مسلمانوں کے لیے نمونه کامل اور 

اسوۂ حسنہ ہے۔ 
 وہ ایسا عظیم نا خدا ہے کہ جب اس کی کشتی سخت ترین طوفانوں میں گھر جاتی ہے تو ذرہ برابر بھی کمزوری، گھبراہٹ اور سراسیمگی کا مظاہرہ نہیں کرتا ۔ وہ کشتی 

کا ناخدا بھی ہے اور اس کا قابل اطمینان لنگر اور چراغ ہدایت بھی۔ وہ اس میں بیٹھنے والوں کے لیے آرام و سکون کا باعث بھی ہے اوران کے لیے راحت جان بھی۔ 
 وہ دوسرر مومنین کے ساتھ مل کر کدال ہاتھ میں لیتا ہے اور خندق کھودتا ہے ، بیلچے کے ساتھ پتھر اکٹھا کرکے خندق سے باہرڈال آتاہے، اپنے اصحاب کے حوصلے 

بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کے لیے ان سے مزاح بھی کرتا ہے ، ان کے قلب روح کو گرمانے کے حربی اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ کر انھیں ترغیب بھی دلاتا ہے ، 

ذکر خدا کر نے پرمسلسل اصرار کرتا ہے اورانھیں درخشاں مستقبل اور عظیم فتوحات کی خوشخبری دیتا ہے۔ انہیں منافقوں کی سازشوں سے متنبہ کرتا ہے اوران سے ہمیشہ خبردار 

کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
 صحیح حربی طریقوں اور بہترین فوجی چالوں کو انتخاب کرنے سے لمحہ بھربھی غافل نہیں رہتا۔ اس کے باوجود مختلف طریقوں  سے دشمن کی صفوں میں شگاف 

ڈالنے سے بھی نہیں چوکتا۔ 
 جی ہاں! وہ مومنین کا بہترین  متقداء ہے اور ان کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ اس میدان میں بھی اور دوسرے تمام میدانوں  میں بھی ۔ 
 "اسوه" (بروزن "عروہ") دراصل اس حالت کے معنی میں ہے جو انسان دوسرے کی پیروی کے وقت اپناتا ہے ،دوسرے لفظوں میں کسی کی تأسی اور اقتداء کرنے کا 

دوسرا نام ہے، اس بناء پر اس کا معنی مصدری ہوگا تاکہ وصفی اور "لقد كان لكم في رسولا اللہ اسوة حسنة"  کا مفہوم یہ ہے کہ تمھارے کے پیغمبر خدا کی ذات میں اچھی اقتداء اور 

پیروی ہے۔ ان کی اقتداء کرنے سے اپنی راہوں کی اصلاح اور "صرامستقیم" کو اختیار کرسکتے ہو۔ 
 جاذب نظریہ امر ہے کہ قرآن زیربحث آیت میں اس اسوہ حسنہ کو ان اشخاص کے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے جو تین خصوصیات کے حامل ہوں یعنی اللہ اور روز 

قیامت کی امید رکھتے ہیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔ 
 حقیقت میں مبداء اور معاد پر ایمان اس بات کا سبب ہے اور ذکر خدا اس کو دوام بخشتا ہے کیونکہ اس میں شک نہیں کہ میں کا دل اس قسم کے ایمان سے سرشار نہ ہو ، 

وہ پیغمبر کے بقش قدم پر چل نہیں سکتا۔ نیز اس راہ پر چلتے ہوئے بھی اگر ہمیشہ ذکر خدا نہ کرے اورشیاطین کو اپنے سے نہ دھتکارے تو تاسی اور اقتداء کو جاری و ساری نہیں رکھ 

سکے گا۔ 
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام باوجود اس جواں مردی اور شجاعت کے جو جنگ کے تمام میدانوں میں ان سے دیکھنے میں آئی تھی اور جس کی 

ایک زندہ مثال اسی جنگ احزاب میں بھی دیکھنے میں آئی ، کہ جس کی طرف بعد میں اشاره ہوگا ، ایک گفتگو میں فرماتے ہیں:  
  " كنا اذا احمر البأس اتقينا برسول الله فلم يكن احد منا اقرب الى العدومنه"۔ 
  "جب بھی جنگ کی آگ شعلہ ور ہوتی تو ہم رسول اللہؐ کی طرف پناہ لیتے اور ہم سے کوئی شخص بھی ان سے
  زیادہ دشمن کے قریب نہ ہوتا "۔ ؎1 
 اس مقدے اور تمہید کے بعد سچے مومنین کی حالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن یوں فرماتا ہے: جس وقت مومنین نے احزاب کے لشکروں کو دیکھا تو نہ صرف یہ کہ ان 

پر گھبراہٹ طاری نہ ہوئی بلکہ کہا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا خدا اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پہلی کرن آشکار ہوچکی ہے اور خدا اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا 

ہے اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم کے علاوہ کسی اور چیز میں اضافہ نہیں کیا (ولمارا المؤمنون الأحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله ومازا دهم الا 

ایمانا وتسليمًا)۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    نہج البلاغہ ، کلمات قصار فصل غرائب جملہ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 بعض کہتے ہیں کہ یہ اس گفتگو کی طرف اشارہ ہے جو پہلے نبی کریم نے کی تھی کہ عنقریب قبائل عرب اور تمھارے مختلف دشمن ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر تمھاری طرف 

آئیں گے ۔لیکن جان لوکہ آخر کارفتح تمھاری ہوگی۔ 
 مومنین نے احزاب کے ہجوم کو دیکھا تو یقین کرلیا کہ یہ پیغمبر کا وہی وعدہ ہے اور کہا کہ اب جبکہ وعدے کا پہلا حصہ وقوع پذیر ہوچکا ہے تو دوسرا حصہ یعنی 

فتح و کامرانی بھی یقینًا اس کے پیچھے پیچھے آنے گی ۔ لہذا ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہوگیا 
 دوسرایہ کہ خدا نے سورۂ بقرہ کی آیت 214 میں مسلمانوں سے فرمایا تھا: 
  "کیاتم گمان کرتے ہو کہ آسانی کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجاؤ گے ، بغیر اس کے کہ کچھ حوادث مثل گذشتہ لوگوں کے حوادث کے تمھارے لیے ظاہر ہوں ، وہی لوگ 

جوشدید پریشانیوں میں متبلا ہوئے اور اس طرح سے ان کا عرصہ حیات ان کے لیے تنگ ہوا کہ انہوں نے کہا کہ خدا کی مدد کہاں ہے"؟ 
 خلاصہ یہ کہ ان سے کہا گیا تھا کہ تم آ زمائش کی سخت کھٹالیوں میں آزمائے جاؤگے، اور وہ اس احزاب کو دیکھ کر خدا اور رسولؐ کی گفتگو کی صداقت کی طرف 

متوجہ ہوئے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا گیا۔ 
 البتہ ان دونوں تفاسیر کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ خصوصًا جب اس بات کی طرف توجہ کی جائے کہ ایک تو اصل میں خدا کا وعدہ  ہے اور دوسرا اس کے پیغمبر 

کا وعدہ ہے اور یہ دونوں چیزیں زیربحث آیت میں بھی اکٹھی آئی ہیں۔ لہذا ان دونوں کو جمع کرنا نہایت ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
 بعد والی آیت مومنین کے ایک خاص گردہ کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبراکرمؐ کی اقتداء میں سب سے زیادہ پیش قدمی کرتے تھے ، وہ خدا سے کیے ہوئے اپنے اس عہد 

وپیمان پر قائم تھے کہ وہ آخری سانس اور آخری قطره خون تک فداکاری اور قربانی کے لیے تیار ہیں . فرمایا گیا ہے:" مومنین میں ایسے بھی ہیں جواس عہد و پیمان پر قائم ہیں جو انھوں 

سے خدا سے باندھا ہے ان میں سے کچھ نے تو میدان جہاد میں شربت شہادت نوش کرلیا ہے اور بعض انتظار میں ہیں": ( من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضٰى نحبہ 

ومنهم من ينتظر)۔ 
 " اور انھوں نے اپنے عبدہ و پیمان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی ۔" اور نہ ہی ان کے قدموں میں لغزش پیدا ہوئی ہے: (ومابدلوأتبديلًا)۔ 
 منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے برعکس کہ جنہیں طوفان حوادث ادھر سے ادھر پھینک دیتے ہیں اور جو روزانہ اپنے ناتواں دماغ میں نت نئےاور ناپاک منصوبے  

پروان چڑھاتے رہتے ہیں ، یہ ثابت الایمان مومن پہاڑ کی طرح محکم اور استوار ہیں ۔ انہوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ جو عہد و پیمان انہوں نے اس کے ساتھ باندھا ہے: وہ ہرگز ٹوٹنے 

والا نہیں ہے "۔
 لفظ " نحب " (بروزن "عهد")  عہد ، نذر اور پیمان کے معنی میں ہے اور کبھی موت کا خطرے یا تیز چلنے یا بلند آوازسے گریہ کرنے کے معنی میں میں آتا ہے۔ ؎1 
 مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ آیت کن افراد کے بارے ہے۔ 
 اہل سنت کے مشہور عالم ، حاکم ابوالقاسم جسکانی سند کے ساتھ حضرت علی علیه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: 
  "فیانزلت (رجال صدقوا ماعاهد واالله علیه) نانا والله المنتظر و 
  مابدلت تبديلًا"۔ 
  آیۂ "رجال صدقوا ما عاهد واالله علیه" ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بخدامیں 
  ہی وہ شخص ہوں جو شهادت کا، انتظارکررہا ہوں (اور قبل ازیں ہم میں سے حزه سید الشهداء جیسے لوگ 
  مردانہ وار شربت شہادت نوش کرچکے ہیں)  اور میں نے ہرگز اپنی روش اور اپنے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں 
  کی اور اپنے کیے ہوئے عہد و پیمان پر قائم ہوں ۔ ؎2 
 بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ " من قضى نحبه" کا جملہ شهداء بدر واحد کی طرف اشارہ ہے اور "منهم من ینتظر" کا جملہ دوسرے سچے مسلمانوں کی طرف 

اشارہ ہے جو فتح یا شہادت کے انتظار میں تھے۔ 
 "انس بن مالک سے بھی نقل ہوا ہے کہ ان کے چچا " انس بن نضر" جنگ بدر کے دن حاضر نہیں تھے ۔ جنگ کے خاتمے پرجب انھیں معلوم ہوا توانھوں نے سخت افسوس 

کیا کہ وہ اس جہاد میں کیوں شریک نہیں ہوئے ؟تو اس وقت خدا کے ساتھ  عہد کیا کہ اگر کوئی جنگ پیش آئی تو اس میں ضرور شریک ہوں گے اورجب تک جان میں جان ہے ، میدان میں 

ڈٹے رہیں گے۔ لہذا انھوں نے دوسری جنگ میں شرکت کی اور جس وقت کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تو وہ ڈٹے رہے۔ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑنے کے بعد مجروح ہوئے اورآخرکار 

درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ ؎3
 این عبای سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے کہا:
 "منهم من قضى نحبه" کا جملہ حمزہ بن عبدالمطلب ، باقی شہداء احد اور انس بن نضر اوران کے ساتھیوں کی طرف اشارہ هے ۔ ؎4 
 ان تفسیروں کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ۔ کیونکہ آیت کا ایک وسیع مفہوم ہے جو تمام ان شہداء اسلام پر محیط ہے جو جنگ احزاب سے پہلے شربت شہادت 

نوش فرما چکے تھے۔ اورمنتظرین بھی تمام وہ لوگ ہیں جو فتح و کامرانی اور شہادت کے انتظارمیں زندہ رہے ہیں ، اور پہلے گروہ کے سردار حضرت حمزہ اور دوسرے کے سردار 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1        مفردات راغب ، مجمع البیان اور لنسان العرب (نحب) 
  ؎2        مجمع البیان آیہ زیربحث کے ذیل میں۔ 
  ؎3       تفسیر قرطبی، فی ظلال القرآن اور مجمع البیان (مختصر سے فرق کے ساتھ) 
  ؎4       مجمع البیان زیربحث آیت کے ذیل میں۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جناب علی بن ابی طالب قرار پاتے ہیں۔ 
 اسی لیے تفسیر صافی میں آیاہے: 
  " ان اصحاب الحسين بكربلا كانوا كل من ارادالخروج ودع 
  الحسين وقال! السلام عليك يابن رسول الله ! فيجيبه وعليك 
  السلام ونحن خلفك ، ويقرء، فمنهم من قضٰى نحبه ومنهم 
  من ینتظر" 
  اصحاب امام حسینؑ میں سے جو بھی کربلا میں میدان کی طرف جانا چاہتا تو امام عالی مقام سے الوداع کرتا اور 
  کہتا آپؑ پر سلام ہو اے فرزند رسول ! (سلام وداع کرتا ) توامام بھی انہیں جواب دیتے اور پھراس آیت کی
  تلاوت کرتے " فمنهم من قضٰى نحبه ومنهم من ينظر:۔ ؎1 
 کتب مقاتل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسینؑ نے دوسرے شہداء مثلًا مسلم بن عوسجہ کے جنازہ کے پاس بھی اور جس وقت "عبدااللہ بن يقطر" کې خبر شهادت آپ کو 

ملی ، اس وقت بھی اس آیت کو تلاوت فرمایا"۔  ؎2 
 یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت اس قسم کا وسیع مفہموم رکھتی ہے جو ہر زمانے کے تمام سچے مومنین پر محیط ہے۔ چاہے وہ ہوں جنہوں نے جام شہادت زیب تن 

کیا اور چاہے وہ ہوں جو بیغرکسی قسم کے تنزلزل کے اپنے خدا سے کیے ہوئے عہد و پیمان پر قائم رہے اور جہاد و شہادت پر آمادہ رہے ۔
 بعد والی آیت میں مومنین اور منافقین کے اعمال کے نتیجے اور آخری ہدف کو ایک مختصرسے جملے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ "مقصد یہ ہے کہ خدا سچوں کو ان 

کی سچائی کی وجہ سے جزائے خیر دے اور منافقین کو جب چاہے عذاب دے۔ اور (اگر وہ توبہ کریں) تو انہیں بخش دے اور ان کی توبہ قبول کرے۔ کیونکہ خدا غفور و رحیم ہے"۔ (

لیجزی الله الصاد قین بصدقهم و یعذب المنافقين ان شاء اويتوب عليھم إن الله كان غفورًا رحيمًا)۔ 
 نہ تومخلص مومنین کی سچائی اور وفاداری بغیر جزائے خیر کے رہے گی اور نہ ہی  منافقین کی کمزوری اور تخریب کاری بغیر عذاب اور سزا کے رہے گی۔ 
 قرآن توبہ کے دروازے اور بازگشت کی راہیں منافقین کے لیے کھلی رکھتا ہے ، لہذا "او یتوب عليهم" کے جملہ کے ساتھ ان پر توبہ کے دروازے کھولتا ہے اور " 

غفور رحیم " کے ساتھ ا پنی توصیف کرتا ہے تاکہ ایمان، صدق اور شرعی فرائض پرعمل درآمد کا جذبہ ان میں بیدار کیا جائے۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    تفسیر صافی آیہ زیربحث کے ذیل میں۔
  ؎2    تفسیر نورالثقلین جلد 4 ص 259۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 چونکہ یہ جملہ منافقین کے غلط اعمال کے نتیجے کے طور پر ذکر ہوا ہے لہذا بعض بزرگ مفسرین نے اس سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ ممکن بعض اوقات ایک 

عظیم گنا آلودہ دلوں میں حق و حقیقت کی طرف حرکت ، انقلاب اور بازگشت کا زریعہ بن جائے اور وہ ایسی برائی بن جائے جو ایک خیر اور نیکی کا نقطۂ آغاز ٹھہرے۔ 
 زیربحث آخری آیت جنگ احزاب کے سلسلہ میں حرف آخرکی صورت میں اس بحث کو ختم کرتی ہے ۔ مختصرسی عبارتوں میں اس ماجرے کو واضح طور پر سمیٹے 

ہوئے کہتی ہے۔" خدا نے کافروں کو ایسی حالت میں واپس لوٹایا کہ ان کے دل غیظ وغضب سے لبریز تھے ، وہ غم وغصہ میں چل رہے تھے اور وہ کسی ایسے نتیجے پر نہ پہنچ سکے 

جو ان کے پیش نظر تھا"۔  (وردالله الذين كفروا بغيظهم لم یالوخيرًا) - 
 "غیظ"  کا معنی غصہ ہے، اور کبھی غم اور اندوہ کے معنی میں بھی آتا ہے ، یہاں پر دونوں معانی مراد ہیں۔ لشکر احزاب ، لشکراسلام پر اپنی آخری فتح کا امیدوار تھا 

لیکن ناکام رہا اور غم و غصہ کی حالت میں اپنے علاقوں کی طرف لوٹ گیا۔ 
 یہاں پر "خیر" سے مراد جنگ میں کامیابی ہے۔ البتہ لشکر کفر کی کامیابی کبھی بھی خیر نہیں تھی لیکن قرآن ان کی سوچ کی عکسی کرتے ہوئے اسے "خیر" سے تعبیر 

کرتا ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اس میدان میں کسی بھی قسم کی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوۓ۔
 بعض نے کہا ہے کہ یہاں "خیر" سے مراد مال ہے کیونکہ یہ لفظ کئی دوسرے مقامات پر بھی مال کے لیے بولاگیا ہے جن میں سے سورہ بقرہ کی آیت  180 بھی 

ہے جسے آیہ  وصیت کہتے ہیں ، اس میں ہے :ان ترك خيرا الومنة للوالدين" 
  کیونکہلشکر کفر کے حملے کے اصل مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مدینہ کی غنیمتوں کو حاصل کریں اور اسی سرزمین کو غارت کریں۔ 
 لیکن "خیر" کے مفہوم کو یہاں" مال" کے معنی میں محدود کرنے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہاں پراس سے ہر قسم کی کامیابی مرادہے جسے وہ مدنظر 

رکھے ہوئے تھے اور مال بھی ان سے ایک تھا جس سے وہ محروم رہے۔ 
 بعد والے جملہ میں قرآن مزید کہتا ہے ۔ "خدا نے اس میدان میں مومنین کو جنگ سے بے نیاز کردیا"۔ (وكفى الله المؤمنين القتال)۔ 
 اس قسم کے اسباب و عوامل فراہم کیے کہ کسی قسم کی سختی پیش نہ آئی  جس سے مومنین کا زیادہ نقصان ہوتا اور جنگ ختم ہوگئی، کیونکہ ایک طرف سے تو شدید 

طوفان اور سردی نے مشرکین کو درہم برہم کردیا اور دوسری طرف خدا کے نظر آنے والے لشکر کے ذریعے رعب ، خوف اور وحشت کو ان کے دلوں میں ڈال دیا اور تیسری طرف سے 

حضرت علی بن ابی طالب علیہ اسلام  کی ضرب دشمن کے سب سے بڑے پہلوان عمرو بن عبدود پر پڑی جس سے وہ دیار عدم میں 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
تفسیر المیزان آیه زیر بحث کے ذیل میں۔  
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
جا پہنچا۔ اس سے ان کی امیدوں اور آرزوؤں کی عمارت دھڑام سے نیچے آ گری۔ یہ امر اس بات کا سبب ہوا کہ وہ مدینہ کا محاصر ترک کر کے اپنے اپنے قبائل کی طرف ناکام واپس پلٹ 

گئے۔ 
 آیت کے آخری جملہ میں فرمایا گیا ہے۔ خدا قوی اور ناقابل شکست ہے ( و كان اللہ قويًا عزیزًا)۔ 
 ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ "قوی"  تو ہوں لیکن "عزیز" یعنی ناقابل شکست نہ ہوں یعنی ان پر زیادہ قوی شخص کامیاب ہوجائے ۔ لیکن " ناقابل شکست طاقتور" صرف اور 

صرف خدا ہے جس کی طاقت اور قدرت لا متناہی ہے۔ وہی توہے جس نے اس قسم کے بہت سخت اور خطرناک میدان میں اس قسم کی کا میابی مومنین کے نصیب کی کہ لڑای ، جنگ اور جان 
دینے تک کی نوبت بھی نہ آئی۔