Tafseer e Namoona

Topic

											

									  روکنے والا ٹولہ

										
																									
								

Ayat No : 18-20

: الاحزاب

قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ۱۸أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا ۱۹يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِنْ يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُمْ بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنْبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا ۲۰

Translation

خدا ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو جنگ سے روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آجاؤ اور یہ خود میدان جنگ میں بہت کم آتے ہیں. یہ تم سے جان چراتے ہیں اور جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے کہ جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رہی ہیں جیسے موت کی غشی طاری ہو اور جب خوف چلا جائے گا تو آپ پر تیز تر زبانوں کے ساتھ حملہ کریں گے اور انہیں مال غنیمت کی حرص ہوگی یہ لوگ شروع ہی سے ایمان نہیں لائے ہیں لہٰذا خدا نے ان کے اعمال کو برباد کردیا ہے اور خدا کے لئے یہ کام بڑا آسان ہے. یہ لوگ ابھی تک اس خیال میں ہیں کہ کفار کے لشکر گئے نہیں ہیں اور اگر دوبارہ لشکر آجائیں تو یہ یہی چاہیں گے کہ اے کاش دیہاتیوں کے ساتھ صحراؤں میں آباد ہوگئے ہوتے اور وہاں سے تمہاری خبریں دریافت کرتے رہتے اور اگر تمہارے ساتھ رہتے بھی تو بہت کم ہی جہاد کرتے.

Tafseer

									  تفسیر
                   روکنے والا ٹولہ : 
 اس کے بعد منافقین کے اس گروہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جنگ احزاب کے میدان سے خود بھی کنارہ کش ہوا اور دوسروں کو بھی کنار کشی کی دعوت دیتاتھا۔ 

فرماتاہے۔ "خدا تم میں سے اس گروہ کو جانتا ہے جو کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو جنگ سے منحرف کردیں ": (قديم یعلم الله المعزقين منكم)۔
 اور اسی طرح سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو اپنے بھائیوں سے کہتے تھے کہ ہماری طرف آؤ۔ "اور اس خطرناک سے جنگ سے دستبردار ہوجاؤ (والقائلين 

لاخوانهم هلم الينا)۔
 وہی لوگ جواہل جنگ نہیں ہیں اور سوائے کم مقدار کے اور وہ بھی بطور جبرواکراہ یا دکھا وے کہ جنگ کے لیے نہیں جاتے"۔ ( ولا يأتون الباس لاقلیلًا )۔
 "معزقين"  "عوق"  (بروزن شوق) کے مادہ سے کسی چیزسے روکنے اور باز رکھنے کے معنی میں ہے۔ اور "باس" اصل میں سختی کے معنی میں ہے اور یہاں پراس 

سے مراد "جنگ" ہے۔ 
 اوپر والی آیت احتمالی صورت میں دو گروہوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایک منافقین کے گروہ کی طرف جو مسلمانوں کی صفوں میں موجودتها ("منکم" کی تعبیراس امر 

کی گواہ ہے) اور ان کی کوشش تھی کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کو جنگ سے روکے رکھیں ، یہ وہی "معوقین" تھے۔ 
 دوسرے منافقین یا یہودیوں کے اس گروہ کی طرف اشارہ ہے جو میدان سے باہر بیٹھے ہوئے تھے اور جس وقت اسلام کے مجاہد سپاہیوں سے آمنا سامنا ہوتا تو کہتے 

کہ ہمارے پاس آؤجا اور اپنے آپ کو اس معرکہ سے نکال لو۔ (یہ وہی لوگ ہیں جن کی طرف دوسرے جملہ میں اشارہ ہوا ہے)۔ 
 یہ احتمال بھی موجود ہے کہ شاید یہ آیت ایک ہی گروہ کی دو مختلف حالتوں کا بیان ہو۔ وہ لوگ جب دوسروں کے کی درمیان ہوتے ہیں توانھیں جنگ سے روکتے ہیں اور 

جب ایک طرف ہوجاتے ہیں تو دوسروں کو اپنی طرف دعوت دیتے 
 ہم ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ ایک صحابی رسولؐ کسی ضرورت کے تحت میدان "احزاب" سے شہر میں آیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو دیکھا کہ اس نے اپنے 

سامنے روٹی، بھنا ہوا گوشت اور شراب رکھے ہوئے تھے ، توصحابی نے کہا،تم تو یہاں عیش و عشرت میں مشغول ہو اور رسول خدا نیزوں اور تلواروں کے درمیان مصروف پیکار ہیں۔ 

اس نے جواب میں کہا، اے بے وقوف !تم بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ اور مزے اڑاؤ۔ اس خدا کی قسم جس کی محمدؐ قسم کھاتا ہے وہ اس میدان سے ہرگز پلٹ کرواپس نہیں آئے گا ۔ اور یہ 

عظیم لشکر جو جمع ہوچکا ہے اسے اور اس کے ساتھیوں کو زنده نہیں چھوڑے گا۔
 یہ سن کر وہ صحابی کہنے لگے تو جھوٹ بکتا ہے ، خدا کی قسم میں ابھی رسول اللہ کے پاس جاکر تمھاری اس گفتگو سے باخبر کرتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے بارگاہ 

رسالت میں پہنچ کر تمام ماجرا بیان کیا تو اوپر والی آیت نازل ہوئی۔ 
 اس شان نزول کی بناء پر "اخوانهم" (ان کے بھائی) کا لفظ ہوسکتا ہے کہ حقیقی بھائی کے معنی میں ہو یا پھر ہم مسلک کے معنی میں ہو جیساکہ سورہ اسراء (بنی 

اسرائیل) کی آیت  27 میں اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطانوں کے بھائی کا نام دیا گیا ہے": ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين"۔ 
 بعد والی آیت میں فرماتابے " ان تمام رکاوٹوں کا باعث یہ ہے کہ وہ تمھاری بابت تمام چیزوں میں بخیل ہیں": (اشحة عليكم)۔ ؎1 
 نہ صرف میدان جنگ میں جان قربان کرنے میں کہ وسائل جنگ مہیا کرنے کے لیے مالی امداد اور خندق کھودنے کے لیے جسمانی امداد حتی کہ فکری امداد مہیا کرنے 

میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں ۔ ایسابخل جو توام ہوتا ہے اور ایسا حرص میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ 
 ان کے بخل اور ہرقسم کے ایثارسے دریغ کرنے کے بیان کے بعد ان کے ان دوسرے اوصاف کو جو ہر عہد اور ہر دور کے تمام منافقین کے لیے تقریبًا عمومیت کا 

درجہ رکھتے ہیں ، بیان کرتے ہوئے کہتا ہے "جس وقت خوفناک اور بحرانی لمحات آتے ہیں تو وہ اس قدر بزدل اورڈرپوک ہیں آپ دیکھیں گے کہ وه آپ کو دیکھ  رہے ہیں حالانکہ ان کی 

انکھوں میں ڈھیلے بے اختیار گردش کر رہے ہیں، اس شخص کی طرح جو جاں کنی میں متبلا بو":(فاذا جاء الخوف رايتهم ينظرون اليك تدور اعينهم كالذى یغی عليه من الموت)۔ 
 چونکہ وہ صحیح ایمان کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی زندگی میں ان کا کوئی مستحکم  سہارا ہے، جس وقت کسی سخت حادثہ دوچار ہوتے ہیں تو کلی طور پر اپنا توازن 

کھو بیٹھتے ہیں گویا چاہتے ہیں کہ ان کی روح قبض ہوجائے۔ 
 پھرمزید کہتا ہے" لیکن یہی لوگ جس وقت کہ طوفان رک جاتا ہے اور حالات معمول پرآجاتے ہیں تو تمھارے پاس توقع لے کر آتے ہیں کہ گویا جنگ کے اصل فاتح یہی 

ہیں اور قرض خواہوں کی طرح پکار پکار کر اورسخت اور درشت الفاظ کے ساتھ مال غنیمت سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس میں سخت گیر ، بخیل اور حریص ہیں (فاذا ذهب 

الخوف سلقوكم بالسنة حداد اشعة على الخير)- 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     "اشعه" "شع"  کے مادہ "شحبح" کی جمع ہے۔ اس کا معنی سے ایسابخل جس سے حرص ملا ہوا ہو۔ اور یہ لفظ اکثر مفسرین بقول یہاں محل اعراب کے لحاظ  سے "حال" واقع 

ہورہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیان علت کے مقام  کے میں حال ہو۔ (غور کیجیئے گا)۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 "سلقوكم" "سلق" (بروزن خلق) کے مادہ سے کسی چیز کو غیظ و غضب سے کھولنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، چاہے ہاتھ کا کھولنا ہو یا زبان کا۔ یہ تعبیر ان 

لوگوں کے بارے میں استعمال ہوئی ہے جو آمرانہ اور تحکمانہ لب و لہجے میں چیخ و پکار کر کسی چیز کو طلب کرتے ہیں۔ 
 "السنة حداد" تیز و تند زبانوں کے معنی میں ہے اور یہاں سختی کے ساتھ بات کرنے سے کنایہ ہے۔ 
 اس آیت کے آخر میں ان کی آخری صفت کی طرف جو واقع میں ان کی تمام بدبختیوں کی جڑ اور بنیادہے ، اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے" وہ ہرگزایمان نہیں لاۓ": (اولٰئک 

لم یومنواء )۔ 
 "اور اسی بناء پر خدا نے ان کے اعمال نیست و نابود کر دیئے ہیں": (فاحبط الله اعمالهم) - 
 کیونکہ ان کے اعمال ہرگز خداکی منشا اور ان کے خلوص پر مبنی نہیں ہیں اور "یہ کام خدا کے لیے بہت ہی آسان ہے": (وكان ذالک على الله بسيرًا) - 
 مجموعی طور پر ہم اس طرح نتیجہ نکالتے ہیں کہ "معوقين" (باز رکھنے والے) ایسے منافق تھے جن کی یہ صفات تھیں: 
 1-  بہت ہی کم تعداد کے علاوہ باقی کوئی بھی اہل جنگ و جہادنہیں تھے۔ 
 2- وہ کبھی جان و مال کے لحاظ اسے ابل ایثار و قربانی نہیں تھے ۔ اور تھوڑی سے تھوڑی پریشانی کے متحمل میں نہیں ہوتے تھے۔ 
  3- طوفانی اور بحرانی لمحات میں شدت خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو کلی طور پرکھو بیٹھتے تھے۔ 
 4- کامیابی کے موقع پر اپنے آپ کو تمام اعزازات کا وارث سمجھتے تھے۔ 
 5- چونکہ وہ بے ایمان تھے لہذا ان کے اعمال بھی بارگاہ الٰہی میں بے قدروقیمت تھے۔ 
 یہی حال ہر دور اور زمانہ کے ہر معاشرہ کے منافقین کا رہا ہے۔ 
 قرآن مجید نے ان کی ظریفانہ انداز میں صفات بیان کی ہیں، جن کے ذریعہ ان کے ہم فکر لوگوں کو پہچانا جاسکتا ہے اور موجودہ دور میں ہم اس کے کتنے نمونے اپنی 

آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں !! 
 بعد والی آیت اس گروہ کی بزدلی اور خوف کی زیادہ فصیح انداز میں تصویرکشی کرتے ہوئے کہتی ہے، "وہ اس قدر وحشت زدہ ہوچکے ہیں کہ احزاب اور دشمن کے 

لشکروں کے پراگندہ ہوجانے کے بعد بھی یہ تصور کرتے ہیں کہ ابھی وہ نہیں گئے": (یحسبون الأحزاب الم يذهبوا)۔ 
 وحشتناک اور بھیانک تصور نے ان کی فکر پرسایہ ڈالا ہوا ہے ۔ گویا کفرکی افواج پے در پے ان کی آنکھوں کے سامنے قطار در قطار جاری ہیں ،ننگی تلواریں لیے اور 

نیزے تانے ان پر حملہ کررہی ہیں۔ 
 یہ بزدل ، جھگڑالو ، درپوک منافق اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں، جب کسی گھوڑے کے ہنہنانے یا کسی اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنتے ہیں تو مارے خوف کے 

لرزنے لگتے ہیں کہ شاید احزاب کے لشکر واپس آرہے ہیں۔ 
 آگے چل کر کہتا ہے "اگر احزاب دوبارہ پلٹ کر آجائے تو وہ اس بات پر تیار ہیں کہ بیابان کا رخ کرلیں اور بادیہ نشین بدوؤں کے درمیان منتشر ہوکر پنہاں ہو جائیں": 

(وان یات الاحزاب يودوالوانهم بادون في الإعراب )۔
 ہاں، ہاں وہ چلے جائیں اور وہاں جاکر رہیں "اور ہمیشہ تمھاری خبروں کے جویا رہیں": (یسئلون عن انبائكم) - 
 ہر مسافر سے تمھاری ہر ہر پل کی خبر کے جویا رہیں۔ ایسا نہ ہوکہ کہیں احزاب ان کی جگہ کے قریب آجائیں اور ان کا سایہ ان کے گھر کی دیواروں پرآپڑ ے اور تم 

پر یہ احسان جتلائیں کہ وہ ہمیشہ تمھاری حالت اور کیفیت کے متلاشی تھے۔ 
 اور آخری جملہ میں کہتا ہے کہ "بالفرض وہ فرار بھی نہ کرتے اور تمھارے درمیان ہی رہتے، پھر بھی سوائے تھوڑی سی جنگ کے وہ کچھ نہ کرتے :" (ولوكانوا فيكم 

ماقاتلوا الأقليلًا)۔ 
 نہ ان کے جانے سے تم پریشان ہونا اور نہ ہی ان کے موجود رہنے سے خوشی منانا ، کیونکہ نہ تو ان کی قدروقیمت ہے اور نہ ہی کوئی خاص حیثیت ، بلکہ ان کا نہ 

ہونا ان کے ہونے سے بہتر ہے۔ 
 ان کی یہی تھوڑی سی جنگ بھی خدا کے لیے نہیں کہ لوگوں کی سرزنش اور ملامت کے خوف اور ظاہرداری یاریاکاری کے لیے ہے کیونکہ اگر خدا کے لیے ہوتی تو 

اس کی کوئی حدوانتہانہ ہوتی اور جب تک جان میں جان ہوتی وہ اسی میان میں ڈٹے رہتے۔
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ