Tafseer e Namoona

Topic

											

									  منافقین اور ضعیف الایمان میدان احزاب میں

										
																									
								

Ayat No : 12-17

: الاحزاب

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ۱۲وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا ۱۳وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا ۱۴وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ ۚ وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا ۱۵قُلْ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُمْ مِنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا ۱۶قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ۚ وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ۱۷

Translation

اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا و رسول نے ہم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ہے. اور جب ان کے ایک گروہ نے کہہ دیا کہ مدینہ والو اب یہاں ٹھکانا نہیں ہے لہذا واپس بھاگ چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررہے تھے. حالانکہ اگر ان پر چاروں طرف سے لشکر داخل کردیئے جاتے اور پھر ان سے فتنہ کا سوال کیا جاتا تو فورا حاضر ہوجاتے اور تھوڑی دیر سے زیادہ نہ ٹہرتے. اور ان لوگوں نے اللہ سے یقینی عہد کیا تھا کہ ہرگز پیٹھ نہ پھرائیں گے اور اللہ کے عہد کے بارے میں بہرحال سوال کیا جائے گا. آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم قتل یا موت کے خوف سے بھاگنا بھی چاہو تو فرار کام آنے والا نہیں ہے اور دنیا میں تھوڑا ہی آرام کرسکو گے. کہہ دیجئے کہ اگر خدا برائی کا ارادہ کرلے یا بھلائی ہی کرنا چاہے تو تمہیں اس سے کون بچاسکتا ہے اور یہ لوگ اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست پاسکتے ہیں اور نہ مددگار.

Tafseer

									  تفسير
            منافقین اور ضعیف الایمان میدان احزاب میں: 
 ہم کہہ چکے ہیں کہ امتحان کی بھٹی جنگی احزاب میں گرم ہوئی اور سب کے سب اس عظیم امتحان میں گھر گئے۔ واضح رہے کہ اس قسم کے بحرانی دور میں جو لوگ 

عام حالات میں ظاہرًا ایک ہی صف میں قرار پاتے ہیں ، کئی صفوں میں بٹ جاتے ہیں۔ یہاں پر بھی مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک جماعت سچے مومنین کی تھی ، ایک گروہ ہٹ 

دھرم اورسخت قسم کے  منافقین کا تھا اور ایک گروہ اپنے گھر بار ، زندگی اور بھاگ کھڑا ہونے کی فکر میں تھا ۔ اور کچھ لوگوں کی یہ کوشش تھی کہ دوسرے لوگوں کو جہاد سے روکیں۔ 

اور ایک گروہ اس کوشش میں مصروف تھا کہ منافقین کے ساتھ اپنے رشتہ کو محکم کریں۔ 
 خلاصہ یہ کہ ہر شخص نے اپنے باطنی اسراراس عجیب" عرصه محشر" اور "یوم البروز" میں آشکارکردیئے۔ 
 گذشته آیات میں ضعیف الایمان مسلمانوں کی جماعت کے بارے میں اور برے وسوسوں اور بدگمانیوں کے بارے میں جوانھیں لاحق تھیں گفتگو ہورہی تھی ۔ اور قرآن پہلی 

زیربحث آیت میں منا فقین اور دل کے بیمارلوگوں کے بارے میں گفتگو کو بیان کررہا ہے۔ فرماتا ہے۔ "اس وقت کو یاد کرو جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دل بیمارتھے ، کہتے تھے کہ خدا 

اور کے رسولؐ نے سوائے جھوٹے وعدوں کے ہمیں کچھ نہیں دیا: "(واذ يقول المنافقون والذين في قلوبهم مرض ما وعدنا الله ورسوله الاغرورًا)۔ 
 جنگ احزاب کی تاریخ میں آیا ہے کہ خندق کھودنے کے دوران میں جب ہرایک مسلمان خندق کے ایک حصہ کو کھودنے میں مصروف تھا تو ایک مرتبہ پتھر کے ایک سخت 

اور بڑے ٹکڑے سے ان کا سامنا ہوا کہ جس پر کوئی ہتھوڑا و کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا، "حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی تو آنحضرت بنفس نفیس خندق میں 

تشريف لے گئے اور اس پتھر کے پاس کھڑے ہوکر اور ہتھوڑے کر پہلی مرتبہ ہی اس کے دل پر ایک مضبوط چوٹ لگائی کہ اس کا کچھ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس سے ایک چمک نکلی 

جس پر آپؐ نے فتح و کامرانی کی تکبیر بلند کی ۔ آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بھی تکبیر کہی۔ 
 آپؐ نے ایک اور سخت چوٹ لگائی تو اس کا کچھ حصہ اور ٹوٹا اور اس سے بھی چمک نکلی۔ اس پر بھی سرور کونین صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے تکبیر کہی 

اورمسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر کہی آخری کار آپ نے تیسری چوٹ بھی لگائی جس سے بجلی کوندی اور باقی ماندہ پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم 

نے پھر تکبیر کہی اور مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس موقع پر جناب سلمان فارسی نے اس ماجرہ کے بارے میں دریافت کیا تو سرکار رسالت مآبؐ نے فرمایا : "پہلی چمک میں میں نے "

حیرہ" کی سرزمین اور ایران کے بادشاہوں کے قصر و محلات دیکھے ہیں اور جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ میری امت ان پر کامیابی حاصل کرے گی۔
 دوسری چمک میں "شام اور روم" کے سرخ رنگ کے محلات نمایاں ہوئے اور جبرائیل نے پھربشارت دی کہ میری امت ان پرفتح باب ہوگی ۔ تیسری چمک میں مجھے" 

صنعا ویمن" کے قصور ومحلات دکھائی دیئے اور جبرائیل نے نوید وہی کہ میری امت ان پر بھی کامیابی حاصل کرے گی ، اے مسلمانو! تمھیں خوشخبری ہو !! 
 منافقین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا! کیسی عجیب و غریب باتیں ہیں اور کیا ہی باطل اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے ؟ مدینہ سے حیرہ اور مدائن کسرٰی کو تو 

دیکھ کر تمہیں ان کے ہونے کی خبردیتاہے حالانکہ اس وقت تم چند عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو (اور خود دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہو) تم تو بیت الحزر (خوف کی جگہ) تک نہیں 

جاسکتے (کیا ہی میں خیال خام) اور گمان باطل ہے)؟
 تو اوپر والی آیت نازل ہوئی اور کہا کہ یہ منافق اور دل کے مریض کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے سوائے دھوکہ فریب کے ہمیں کوئی وعدہ نہیں دیا ۔ (وہ 

پروردگا کی بے انتها قدرت سے بے خبرہیں )۔ ؎1 
 اس وقت اس قسم کی بشارت اور خوشخبری سوائے آگاہ اور باخبر مؤمنین کی نظر کے (باقی لوگوں کے لیے) دھوکا اور فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن 

پیغمبر کی ملکوتی آنکھیں ان آتشیں چنگاریوں کے درمیان سے جو کدالوں اور ہتھوڑوں کے
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1       کامل ابن اثیر جلد 4 ص 109 . سیرۃ ابن ہشام میں بھی یہی واقعہ مخصتر سے فرق کے سارھ ذکر ہوا ہے اور وہ یہ کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ، بجلی کی پہلی کوند میں میں 

نے فتح یمن کو دیکھا اور دوسری کوند میں فتح شام و مغرب  اور تیسری چمک مشرق (سرزمین ایران) کی فتح کو مشاہدہ کیا ہے ۔ تاریخی لحاظ سے بھی ان تینوں علاقوں کی فتح تربیتی طور 

پر ہم آہنگ ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

- 
خندق کھودنے کے لیے زمین پر لگنے سے نکلتی تھیں ، ایران ، روم اوریمن کے بادشاہوں کے قصور و محلات کے دروازوں کے کھلنے کو دیکھ سکتے تھے اور اپنی جان کو ہتھیلی لیے 

بوئے بھی امت کو بشارت دے سکتے تھے اور آئندہ کے اسرارموزسے پردھے بھی اٹھاسکتے تھے۔
 شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ "الذين في قلوبهم مرض" سے مراد وہ منافقین ہی توہیں اور اس جملہ کیا کا ذکر 
درقیقت "منافقین" کے لفظ کی وضاحت جو پہلےآچکا ہے۔ نفاق کی بیماری سے بڑھ کر اور کونسی بیماری ہوسکتی ہے؟ کیونکہ صحیح و سالم اور خدائی فطرت رکھنے والے انسان کا 

صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے دو یا دو سے زیادہ چہروں والا انسان بیمار ہوتا ہے جو ہمیشہ اضطراب ، تضاد اور تناقض کا شکار ہوتا ہے۔ 
 اس بات کی گواہ وہ آیت ہے جو سورہ بقرہ کی ابتداء میں آئی ہے اور منافقین کے بارے میں کہتی ہے :
  "في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضًا" (بقرہ ۔۔۔۔۔۔ 10)
  ان کے دلوں میں ایک قسم کی بیماری ہے اور خدا (ان کے اعمال کی بناء پر) ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے۔ 
 بعد والی آیت میں منافقین اور دل کے بیمار لوگوں میں سے ایک خطرناک کے گروہ کے حالات تفصیل سے بیان کرتا ہے جو دوسرں کی نسبت زیادہ خبیث اور آلوہ گناہ 

ہیں۔ چناچہ کہتا ہے اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے یثرب (مدینہ) کے رہنے والو ! یہاں تمھارے نے کی جگہ نہیں ہے ، اپنے گھروں کی طرف لوٹ 

جاؤ : (واذ قالت طائفة منهم یا اهل یثرب لامقام لكم فارجعوا)۔ 
 خلاصہ یہ کہ دشمنوں کے اس انبوہ کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ اپنے آپ کو معرکہ کا رزار سے نکال کر لے جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت کے اور بیوی بچوں کو 

قید کے حوالے نہ کرو۔ 
 اس طرح سے وہ چاہتے تھے کہ ایک طرف سے تو وہ انصار کے گروہ کو لشکر اسلام سے جدا کرلیں اور دوسری طرف سے انہی منافقین کا ٹوالہ جن کے گھر مدینہ 

میں تھے۔ نبی اکرم سے اجازت مانگ رہے تھے کہ وہ واپس چلے جائیں اوراپنی اس واپسی کیلئے حیلے بہانے بنارے تھے ۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے گھروں کے درو دیوار ٹھیک 

نہیں ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا ۔ اس طرح سے وہ میدان کو خالی چھوڑ کر فرارکرنا چاہتے تھے (ويستأذن فريق منهم النبي يقولون ان بيوتنا عورة وماهي بعورة  ان يريدون الافرارًا ) ۔ 
 لفظ "عوره"  "عار" سے ہے اور عورۃ اس چیز کوکہا جاتا ہے جسے ظاہرکرنا ننگ و عار کا باعث ہو۔ وہ شگاف جو گھر کی دیوار میں ظاہر ہوتے ہیں ، اسی طرح 

سرحدوں کے نازک اور خطرناک مقامات اور وہ چیزیں جن سے انسان خوف کھاتا ہو، سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور یہاں مراد وہ گھرہیں جن کے قابل اطمینان درو دیوار نہ ہوں اور ہر 

وقت دشمن کے حملے کا خوف طاری رہتا ہو۔ 
 منافقین اس قسم کا عذر پیشں کرکے یہ چاہتے تھے کہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں میں جاکر پناہ لیں۔ 
 ایک روایت میں آیا ہے کہ قبیلہ "بنی حارثہ" نے کسی شخص کو حضور رسالت پناه کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ہمارے گھر غیع محفوظ ہیں اور ان میں سے کسی کا 

گھربھی ہمارے گھروں کی طرح نہیں اور ہمارے اور قبیلہ" غطفان" کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو مدینہ کی مشرقی جانب سے حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ لہذا اجازت دیجئے تاکہ ہم 

اپنے گھروں کو پلٹ جائیں اور جاکر اپنے بیوی بچوں کا دفاع کریں تو سر کار رسالت نے انھیں اجازت عطا فرما دی۔ 
 جب یہ بات انصار کے سردار "سعدبن معاد" کے گوش گذار ہوئی تو انھوں نے پیغمبراسلامؐ کی خدمت میں عرض کیا "سرکار! انہیں اجازت نہ دیجیئے بخدا آج تک جب 

بھی کوئی مشکل درپیش آئی تو ان لوگوں نے یہی بہانہ تراشا ، یہ جھوٹ بولتے ہیں"۔ چنانه آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ واپس آجائیں۔ 
 "یثرب" مدنیہ کا قدیمی نام ہے ، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس شہر کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے اس کا نام "یثرب" رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس 

کا نام " مدینة الرسول " (پیغمبر کا شہر) پڑگیا جس کا مخفف "مدینہ" ہے۔ 
 اس شہر کے کئی ایک نام اور بھی ہیں۔ سید مرتضٰی (رحمۃ اللہ علیہ) نے ان دو ناموں (مدینہ اور یثرب) کے علاوہ اس شہر کے گیارہ اور نام بھی ذکر کیے ہیں ، 

منجملہ ان کے "طیبہ" "طابه" "سكينه" "محبوبه" مرحومہ" اور "قاصمه" ہیں۔ (اور بعض لوگ اس شہر کی زمین کو "یثرب" کا نام دیتے ہیں)۔ ؎1 
 چند ایک روایات میں آیا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ "اس شہر کو یثرب نہ کیا کرو"۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یثرب اصل میں "ثرب" (

بروزن "ثرب" کے مادہ سے ملامت کرنے کے معنی میں ہے اور آپؐ اس قسم کے نام کو اس بابرکت شہر کے لیے پسند نہیں فرماتے تھے۔ 
 بہرحال منافقین نے اہل مد ینہ کو "یااہل یثرب " کے عنوان سے جوخطاب کیا ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ 

وسلم کو اس نام سے نفرت ہے۔ یا چاہتے تھے کہ اسلام اور "مدینۃ الرسولؐ" کے نام کوتسلیم نہ کرنے کا اعلان کریں ۔ یا لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرائیں۔ 
 بعد والی آیت میں خداوند عالم اس گروہ کے ایمان کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "وہ اسلام کے اظہار میں اس قدر ضعیف اور ناتواں ہیں کہ اگر 

دشمن مدینہ کے اطراف وجوانب سے اس شہر میں داخل ہوجائیں اور مدینہ کو فوجی کنٹرول میں لے کر انہیں پیشں کیش کریں کہ کفر و شرک کی طرف پلٹ جائیں توجلدی سے اس کو قبول 

کرلیں گے اور اس راہ کے انتخاب کرنے میں ذراسا بھی توقف نہیں کریں گے":  (ولو دخلت عليهم من اقطارهاثم سئلوالفتنة لاتوها وما تبثوابها الایسيرًا)۔ 
  ظاہر ہے کہ جو لوگ اس قدر ضعیف ، کمزور اور غیرمستقل مزاج ہوں کہ نہ تو دشمن سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوں اور نہ ہی راہ خدا میں شہادت قبول کرنے کے 

کیا، ایسے لوگ بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں اوراپنی راہ فورًا بدل لیتے ہیں۔ 
 اسی بنا پرفتنہ کی لفظ سے مراد یہاں پر کفر و شرک ہی ہے جیاکہ قران کی دوسری آیات مثلا سورہ بقرہ کی آیہ 193 جیسی آیات میں آیا ہے۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1  مجمع البیان جلد 8  ص 346 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 لیکن  بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں " فتنہ سے مراد مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے کہ اگر اس منافق ٹولے کو پیش کش کی جائے تو وہ فورا اس دعوت کو قبول 

کرتے ہوئے فتنہ پروازوں کے ساتھ تعاون کرنے لگ جائیں۔ 
 لیکن یہ تفسیر "ولو دخلت علیهم من قطارها.... "(کہ اگر مدرنیہ کے اطراف سے ان پر حملہ آور ہوجائیں ......) کے ظاہری جملہ سے سازگار نہیں ہے اور شاید اسی 

بناء پر اکثر مفسرین نے اس سے پہلے معنی کو منتخب کیا ہے ۔
 پھرقرآن اس منافق ٹولے کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر کہتا ہے۔ "انھوں نے پہلے سے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا ہوا تھاکہ دشمن کی طرف پشت نہیں کریں 

گے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہوئے توحید ، اسلام اور پیغمبر کے لیے دفاع میں کھڑے ہوں گے ۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ خدا سے کیے گئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا 

جائے گا"؟ (ولقد کانواعاهدوا الله من قبل لایولون الأدبار وكان عھدالله مسئولا) - 
 بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس پیمان سے مراد وہی معاہدہ ہے جو "بنی حارثہ" نے جنگ احد کے دن خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کیا تھا جب کہ انھوں نے میدان سے 

پلٹنے کا ارادہ کیا تھا اور بعد میں پشیمان ہو گئے تھے اور عہد کیا تھا کہ پھر کبھی ان امور کے پیچھے نہیں جائیں گے۔ لیکن وہی لوگ جنگ احزاب کے میدان میں دو بار عہد شکنی کی فکر 

میں پڑ گئے ۔ ؎1 
 بعض نے اس عہد کی طرف اشارہ سمجھاہے جو جنگ بدر میں یا ہجرت پیغمبر سے پہلے عقبہ میں آنحضرتؐ سے باندھاتھا۔ ؎2 
 لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی آیت ایک ایسا وسیع مفہوم رکھتی ہے جو ان کے ان معاہدوں کو بھی شامل ہے اوردوسرے معاہدوں کو بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ 
 اصولی طور ہرجو شخص ایمان لاتا اور رسول اسلامؐ کی بعیت کرتا ہے، درحقیقت وہ آپؐ سے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اسلام اور قران کا جان کی حد تک دفاع کرلے گا۔
 یہاں پرعہدو پیمان پر زیاده تر زوراس لیے دیا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بھی کیے گئے عبدو پیمان کا احترام کرتے تھے۔ تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ کوئی 

شخص اسلام کا دعوٰے کرنے کے بعد اپنے معاہدہ کو پامال کر ڈالے؟ 
 جب خدا نے منافقین کی نیت کو فاش کر دیا کہ ان کا مقصد گھروں کی حفاظت کرنا نہیں ، بلکہ میدان جنگ سے فرارکرنا ہے توانہیں دو دلیلوں کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ :
  پہلے تو پیغمبر سے فرماتاہے ۔" کہہ دیجئے کہ اگر موت یا قتل ہونے سے فرارکرتے ہو تو یہ فرارتمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اور تم دنیاوی زندگی کے چند دن 

سے زیاده فائدہ نہیں اٹھاؤگے : ( قل لن ينفعكم الفراران فررتم من الموت او القتل واذ الاتمثعون الاقليلًا) ۔
 فرض کر و کہ تم جان بچا کر فرار کر بھی گئے تو یہ دو حال سے خالی نہیں ہے ۔ یا توتمھاری اجل اور حتمی موت کا وقت آن پہنچا ہے 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     تفسیر"قرطبی" اور تفسیر "فی ظلال القرآن" زیر بحث آیات کے ضمن میں ۔ 
  ؎2     "آلوسی"  نے روح البیان میں اس قول کو نقل کیاہے۔ 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تو تم جہاں بھی ہو گے ۔ موت تھارے دامن گیر ہوکر رہے گی ۔ حتٰی کہ خود تمھارے اپنے ہی گھروں میں اور تمھارے بیوی بچوں کے پاس بھی تمھیں موت آکر رہے گی۔ اندر یا باہر کا حادثہ 

تمھاری زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ اور اگر اجل نہیں آئی تو ذلت ، خواری اور رسوائی کے ساتھ یہ چار روزہ دنیاوی زندگی بسر کرنے اور دشمن کے چنگل میں اسیر ہوجانے کے بعد 

عذاب الہی میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ 
 درحقیقت یہ بیان اس بیان سے ملتاجلتا ہے جو جنگ احد میں کمزور اساس منافقین کے ایک اور گروہ سے خطاب کی صورت میں نازل ہوا کہ:
  "قل لوكنتم في وتكم لبرز الذين كتب عليهم القتل الٰى 
  مضاجعهم" 
  یعنی : کہہ دیجیئے کہ اگرچہ تم اپنے گھروں میں بھی ہو ، پھر بھی وہ لوگ جن کے لیے قتل ہوجانا مقدر ہوچکاہے۔ 
 توان کے بستروں تک پہنچ کر انہیں تہہ تیغ کردیں گے ۔ (آل عمران ۔۔۔۔ 154) ۔ 
 دوسرا یہ کیا تم جانتے نہیں ہوکہ تمھارا سارا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کی قدرت و مشیت کے دائرہ اختیار سے ہرگز نجات نہیں سکتے۔ 
 "اے پیغمبر !ان سے کہہ دیجیئے ، کون شخص خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں تمہاری حفاظت کرسکتا ہے ، اگر وہ تمھارے لیے مصیبت یارحمت چاہتا ہے؟" (قل من 

ذالذی یعصمكم من الله ان اراد بكم سوءًا او ارادبكم رحمة) - 
 جی ہاں ! " وہ خدا کے علاوہ کوئی سر پرست اور یارو مدد گار نہیں پائیں گے"۔ (ولايجدون لهم من دون الله ولیا ولا نصيرًا) - 
 اب جبکہ تمام تقدیریں اس کے ہاتھ میں ہیں لہذا جہاد کے سلسلہ میں اس کا فرمان جو دنیا میں بھی اور اللہ کی بارگاہ میں بھی باعث عزت و سرفرازی ہے، دل و جان سے 

قبول کرو ۔ یہاں تک کہ اگر تمہیں اس راہ میں شہادت بھی نصیب ہوجائے تو اس کا خنده  پیشانی سے استقبال کرو ۔