چند قابل غورمطلب
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ۹إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ۱۰هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ۱۱
ایمان والو! اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کوخوب دیکھنے والا ہے. اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے. اس وقت مومنین کا باقاعدہ امتحان لیا گیا اور انہیں شدید قسم کے جھٹکے دیئے گئے.
چند قابل غورمطلب
1- " اذكروا" کی تعبیر بتاتی ہے کہ یہ آیات جنگ کے اور کچھ وقت گزر جانے کے بعد نازل ہوئیں یعنی اب مسلمانوں کے لیے موقع تھا کہ جو کچھ
انھوں نے دیکھا تھا، اس کا اپنی فکر و نظر کے مطابق تجزیه و تحلیل کریں تاکہ اس کا گہرا اثر ہو۔
2- "جنود" کی تعبیر زمانۂ جاہلیت کے مختلف گردہ اور قبائل کی طرف اشارہ ہے (مثلا قریش ، عظفان ، بنی سلیم ،بنی اسد، بنی فرازہ ، بنی اشجع اور
بنی مرہ) جن میں مدینہ کے اندر والا یہودیوں کا قبیلہ بھی ہے .
3- "جنودا لم تروها" سے مراد جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لئے آئے تھے ، وہی وہ فرشتے تھے جن کا مومنین کی جنگ بدر میں
مدد کرنا بھی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ سورة انفال ان کی آیہ 9 کے ذیل میں ہم بیان کرچکے ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ نظر آنے والا
فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل ہوا اور وہ جنگ میں بھی مصروف ہوا ہو بلکہ ایسے قرائن موجود ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف مومنین کے حوصلے بلند
کرنے اور ان کا دل گرمانے کے لیے نازل ہونے تھے ۔ ؎1
بعد والی آیت جو جنگ احزاب کی بحرانی کیفیت ، دشمنوں کی عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کی شدید پریشانی کی تصویرکشی کرتے ہوئے یوں کہتی ہے ۔ "اس وقت
کو یاد کرو جب وہ تمھارے شہر کے اوپر اور نیچے سے داخل ہوگئے۔
(اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکھیں شدت وحشت سے پتھراگئی تھیں اور جان لبوں تک آئی ہوئی تھی اور خدا کے بارے میں طرح طرح
کی بد گمانیاں کرتے تھے "۔ (اذجاء وكم من فوقكم ومن اسفل منكم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجروتظنون بالله الظنونا)۔
بہت سے مفسرين اس آیت میں لفظ "فوق" کو مدینہ کی مشرقی جانب کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کیونکہ "قبیلہ غطفان" ادھرسے وارد ہواتھا۔اور "اسفل" (نیچے) کو
مغرب کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کیونکہ "قریش اور ان کے ساتھی وہیں سے داخل ہوئے تھے۔
البتہ اس طرف تو کرتے ہوے کہ مکہ ٹھیک مدینہ کی جنوبی سمت میں واقع ہے لہذامشرکین مکہ کے قبائل کو جنوب سے آنا چاہیئے ۔ لیکن شاید شہر مدینہ میں داخل
ہونے کے راستے کی کیفیت کچھ اس طرح تھی کہ انھوں نے شہر کا تھوڑا سا چکر لگایا اور مغرب کی طرف سے شہر کے اندر آ گئے صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، اوپروالا جملہ اسلام
کے مختلف دشمنوں کی طرف سے اس شہر کے محاصرہ کی طرف اشارہ ہے۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لیے تفسیرنموںہ کی جلد 7 ص مذکورہ آیت کے ذیل میں رجوع کریں ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"زاغت الابصار" کے جملہ میں "لفظ " "زاغت" "زیغ" کے مادہ سے ایک طرف جھکاؤ کے معنی میں ہے جو ایسی حالت کی طرف اشارہ ہے جو زبردست خوف اور
وحشت کی صورت میں انسان پر طاری ہوتی ہے۔ اس وقت اس کی آنکھیں ہرطرف سے ہٹ کر ایک معین نقطہ پر ٹھرجاتی ہیں اور خیرہ ہوجاتی ہیں۔
"بلغت القلوب الحناجر" (دل حلق تک پہنچ چکے تھے) کا جملہ ایک عمدہ جملہ ہے ۔ جس طرح فارسی زبان میں بھی ہے کہ (اس کی جان لبوں تک پہنچ گئی) ورنہ دل جس
کا ایک مخصوص معنی ہے یعنی جو خون کی تقسیم کا مرکز ہے کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہیں ہٹتا اور نہ ہی کبھی حلق تک پہنچتاہے۔
اور " تظنون باللہ الظنونا " کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کیفیت سے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیے غلط قسم کے گمان پیدا ہوگئے تھے کیونکہ وہ ابھی تک
ایمانی قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نہیں ، پہنچ پائے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں بعد والی آیت میں کہتا ہے کہ وہ شدت سے متزلزل ہوئے ۔
شاید ان میں سے کچھ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار ہم شکست کھا جائیں گے اور اس قدرت و قوت کے ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب ہوجائے گا ، اسلام کے زندگی کے
آخری دن آ پہنچے ہیں اور پیغمبر کا کامیابی کا وعدہ کبھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
البتہ یہ افکار ونظریات ایک عقیدہ کی صورت میں نہیں بلکہ ایک وسوسہ کی شکل میں بعض لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں پیدا ہو گئے تھے بالکل ویسے ہی جیسے
جنگی احد کے سلسلہ میں قران مجید ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے :" وطافۃ قد اهمتهم انفسهم يظنون بالله غيرالحق ظن الجاهلية"۔ یعنی تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانی لمحات میں
صرف اپنی جان کی فکرمیں تھا اور جاہلیت کے دور کے گمانوں کی مانند خدا کے بارے میں غلط گمان رکھتے تھے۔ (آل عمران ۔۔۔۔۔۔۔۔ آیہ 154)۔
البتہ محل بحث آیت میں مخاطب یقینًا مسلمان ہیں اور" یاایها الذین امنوا" کا جملہ جواس سے قبل کی آیت میں ہے اس معنی کی دلیل ہے اور جنھوں نے اس کے مخاطب
منافقین کو سمجھا ہے گویا انھوں نے یاتواس نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی یا پھر خیال کیا کہ اس قسم کی بدگمانی ایمان اور اسلام کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ حالانکہ اس قسم کے انکار کا
وسوسہ کی حد اور تک ظاہرہونا اور وہ بھی سخت بحرانی حالات میں ایک فطری اور معمول کے مطابق بات ہے ۔ ؎1
یہی وہ منزل تھی کہ خدائی امتحان کی بھٹی سخت گرم تھی جیساکہ بعد والی آیت کہتی ہے کہ "وہاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت بل گئے تھے" (هنالك ابتلى
المؤمنون وزلزلوا زلزالًا شديدًا)۔
فطری امر ہے کہ جب انسان فکری طوفانوں میں گھر جاتا ہے تو اس کا جسم بھی ان طوفانوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، بلکہ
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مفسرین کی ایک جماعت نے یہاں "ظمنون" کا عمومی معنی اچھے اور برے گمان لیا ہے ، لیکن اس آیت میں اور اس سے بعد والی آیت میں موجود قرائن بتاتے ہیں کہ مراد برے گمان
ہیں ۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
وہ بھی اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب لوگ ذہنی طور پر پریشان ہوتے ہیں تو جہاں بھی بیٹھے ہوتے ہیں اکثر بے چین رہتے ہیں، ہاتھ ملتے
رہتے ہیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوں کو اپنی حرکات سے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔
اس شدید پریشانی کے شواہد میں سے ایک یہ بھی تھا جسے مورخین نے بھی نقل کیا ہے کہ عرب کے پانچ مشہور جنگجو پہلوان جن کا سرخیل عمرو بن عبد ود تھا ،
جنگ کا لباس پہن کر اورخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور "هل من مبارز" رہے کوئی مقابلہ کرنے ولا؟ کی آواز لگانے لگے ، خاص کرعمروبن عبدود رجز پڑھ پڑھ
کرجنت اور آخرت کا مذاق آڑارہاتھا، وہ کہہ رہاتھا کہ" کیا تم نہیں کہتے ہو کہ تمھارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟ تو کیا تم میں سے کوئی بھی جنت کے دیدار کا شوقین نہیں ہے ؟ لیکن
اس کے ان نعروں کے مقابلہ میں لشکرپر بری طرح خاموشی طاری تھی اور کوئی بھی مقابلے کی جرات نہیں رکھتا تھا سوائے علی بن ابی طالب کے جو مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے
اورمسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ہم کنار کر دیا۔ اس کی تفصیل نکات کی بحث میں آئے گی۔
جی ہاں! اس طرح فولاد کو گرم بھٹی میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ نکھر جائے اسی طرح اوائل کے مسلمان بھی جنگ احزاب جیسے معرکوں کی بھٹی میں سے گزریں تاکہ کندن
بن کرنکلیں اور حوادثات کے مقابل میں جراءت اور پامردی کا مظاہرہ کرسکیں۔