میدان احزاب میں کڑی آزمائش
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ۹إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ۱۰هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ۱۱
ایمان والو! اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کوخوب دیکھنے والا ہے. اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے. اس وقت مومنین کا باقاعدہ امتحان لیا گیا اور انہیں شدید قسم کے جھٹکے دیئے گئے.
تفسیر
میدان احزاب میں کڑی آزمائش :
یہ اوربعد والی آیات جو مجموعی طور پر سترہ آیات بنتی ہیں اور "مومنن" اور "منافقین" کے بارے میں خدا کی کڑی آمازئیش اور عمل کے سلسلہ میں ان کے صدق
گفتار کے امتحان کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ، جس کے متعلق گذشتہ آیات میں بحث ہوچکی ہے۔
یہ آیات تاریخ اسلام کے ایک اہم ترین حادثے یعنی جنگ احزاب کے متعلق گفتگو کرتی ہیں ، ایسی جنگ جو تاریخ اسلام میں ایک اہم تاریخی موڑ ثابت ہوئی اور اسلام و کفر
کے درمیان طاقت کے موازنے کے پلڑے کو مسلمانوں کے حق میں جھکادیا اور اس کی کامیابی آیندہ کی عظیم کامیابیوں کے لیے کلیدی حیثیت اختیار کر گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس
جنگ میں دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اوراس کے بعد وہ کوئی خاص قابل ذکر کارنامہ انجام دینے کے قابل نہ رہ سکے۔
"یہ جنگ احزاب" جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گروہوں کی طرف سے ہرطرح کا مقابلہ تھاکہ اس دن کی پیش رفت سے ان
لوگوں کے ناجائز مفادات خطرے میں پڑ گئے تھے۔
جنگ کی آگ کی چنگاری" بنو نضیر" یہودیوں کے ایک گروہ کی طرف سے بھڑکی جو مکہ میں آئے اور قبیلہ "قریش" کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے
پر اکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیں گے ۔پھر قبیلہ "غطفان" کے پاس گئے اورانھیں بھی کارزار کے لیے آمادہ کیا۔
ان قبائل نے اپنے ہم پیمان اور حلیفوں مثلًا قبیلہ "بنی اسد" اور بنی سلیل" کو بھی دعوت دی اور چونکہ یہ سب
قبائل خطرہ محسوس کیے ہوئے تھے ، لہندا اسلام کا کام ہمیشہ کے لئے تمام کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تاکہ وہ اس طرح سے پیغمبر کو شہید ، مسلمانوں کو
سرکوب ، مدینہ کو غارت اور اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل کردیں۔
مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو ایک عظیم گروہ کے مقابل میں دیکھا تو حکم رسالت پناهؐ سے مشورہ کرنے بیٹھ گئے اور سب سے پہلے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی
پیش کش پر مدنیہ کے اطراف میں خندق کھودی گئی تاکہ دشمن اسے آسانی کے ساتھ عبور نہ کرسکے اور شہر لوٹ مار سے بچ جائے (اسی بناء پر اس جنگ کا ایک نام" جنگ خندق" بھی
ہے)۔
مسلمانوں پر بہت سخت اور خطرناک لمحات گزر رہے تھے ۔ جانیں لبوں تک آئی ہوئی تھیں ، منافقین لشکراسلام کے درمیان زبردست تگ دو میں پڑے ہوئے تھے ۔ دشمن کا
انبوہ کثیر اور اس کے مقابلہ میں لشکر اسلام کی کمی (لشکر کفر کی تعداد دس ہزار اور لشکر اسلام کی تین ہزار لکھی ہے) دشمن کی تیاری جنگی سازوسامان اور ضروری وسائل کی فراہمی
ایک سخت اور درناک مستقبل کومسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے مجسم کررہے تھے۔
لیکن خدا چاہتا تھا کہ یہاں پیکر کفر پرآخری ضرب پڑے اور منافقین کو مسلمانوں کی صفوں سے جدا کردے ، سازشی عناصر کا بھانڈا پھوڑ دے اور سچے مسلمانوں کو
آزمائش کی بھٹی میں ڈالے۔
اخرکار یہ جنگ جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی ، مسلمانوں کی کامیابی پرمنتج ہوئی ، حکم خداسے سخت آندھی چلی جس نے کفار کے خیمے ، تمبو اور تمام بساط
زندگی کو لپیٹ کر رکھ دیا، ان کے دلوں میں زبردست رعب و وحشت ڈال دی اور فرشتوں کی غیبی طاقتیں مسلمانوں کی مد د کےلیے بھیجیں ۔
عمروبن عبدو کے مقابلہ میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کی قدرت نمائی بھی عجیب وغریب خدائی طاقتوں کے مظاہرے کہ اضافہ ہوا اور مشرکین کوئی
کارنامہ سرانجام دیئے بغیر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
اوپر والی سات آیات میں مشرکین کی سرکوبی کرنے والا تجزیہ و تحلیل پیش کیا گیا ہے اور اسلام کی فیصلہ کن کامیابی اور منافقین کی سرکوبی کو احسن انداز میں
بیان فرمایا ہے ۔
یہ تھی جنگ احزاب کی ایک جھلک جو ہجرت کے پانچویں سال واقع ہوئی ۔ ؎1
یہاں سے ہم آیات کی تفسیر کی طرف جاتے ہیں اور اس جنگ کی دیگرتفصیلات اور نکات کو بحث کے لیے اٹھاۓ رکھتے ہیں۔
قران اس ماجرا کو پہلے تو ایک ہی آیت میں خلاصہ کرتا ہے. پھر دوسری 12 آیات میں اس کی خصو صیات کو بیان کرتے ہوئے کہتاہے" اے وہ لوگ جو ایمان لائے
ہو اپنے اوپر خدا کی عظیم نعمت کویاد کرو ، اس موقع پر جب کہ (عظیم) لشکر تمھاری طرف آۓ (یاایها الذین آمنوا اذكروا نعمة الله عليكم اذجاء تکم جنم )۔
لیکن ہم نے ان پر آندھی اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنہیں تم نہیں دیکھتے تھے اوراس ذرایعہ سے ہم نے ان کی سرکوبی کی اور انہیں تر بتر کردیا:: (فارسلنا
علیھم ریحًا وجنم دً الم تروها)۔
" اور خدا ان تمام کاموں کو جنہیں تم انجام دیتے ہو دیکھ رہا ہے (اور وہ کام بھی جو ہر گروہ نے اس عظیم میدان میں انجام دیئے) بصیر اور بیناہے"۔ (وكان الله بما
تعملون بصیرًا) -
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے اس تفصیل کا ایک اجمالی خاکہ بے جسے اسلامی مورخین نے منجلہ " ابن اثیر" " کامل" میں درج کیا ہے۔