Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک نکتہ

										
																									
								

Ayat No : 4-6

: الاحزاب

مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ۴ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ۶

Translation

اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں اور تمہاری وہ بیویاں جن سے تم ا ظہار کرتے ہو انہیں تمہاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے اور نہ تمہاری منہ بولی اولاد کواولادقرار دیا ہے یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے. ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں سے قصداانجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کے بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا چاہو تو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتابِ خدا میں لکھی ہوئی موجود ہے.

Tafseer

									
  ایک نکتہ: 
 بہت سی روایات ائمہ اہل بیت سے اوپر والی آیت کی تفسیریں اولواالار حام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں سے بعض میں یہ آیت" میراث مال" کے مسئلہ سے 

تفسیر ہوئی ہے جیساکہ مفسرین کے درمیان مشہور ہے جبکہ بعض دوسری روایات میں "خلافت و ملوکیت کی میراث "خاندان پیغمبر اور ائمہ اہل بیت کے لیے تفسیر ہونی ہے۔ 
 منجملہ ان کے ہم ایک  حدیث میں امام جعفر صادقؑ سے پڑھتے ہیں ، جس وقت آپ سے اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہوا تو امامؑ نے فرمایا : 
 "یہ فرزندان حسینؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے"۔ 
 اور جب راوی نے سوال کیا کہ کیا یہ میراث اموال سے متعلق نہیں ہے ؟ تو امام نے ارشاد کیا؟ 
 "نہیں ۔ یہ تو حکومت و دلایت کے بارے میں ہے۔  
 واضح ہے کہ ان احادیث سے مراد میراث اموال کے مسئلہ کی نفی نہیں ہے بلکہ مراد اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ہے کہ میراث ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جو 

میراث اموال کو بھی شامل ہے اور میراث خلافت حکومت کو بھی ۔ 
 اور یہ تو ارث بادشاہوں کے سلسلہ میں توارث سلطنت کی طرح نہیں ہے ۔ بیاں تو شانتی اور لیاقت کی بناء 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

-
  ؎1       مفسرین کی ایک جماعت کا نظریہ ہے "الا ان تفعلوا" کے جملہ میں جو استثناد سے وہ استثنا منقطع  ہے کیونکہ وصیت کا حکم میراث کے حکم سے علٰحیدہ  ہے ، لیکن ہمارا 

منظریہ یہ ہے کہ اگر یہان استثنا متصل ہو تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ "اولوالارجام" کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ دار ان مالوں جو میت سے باقی رہ جاتے ہیں ، غیروں کی 

نسبت اولٰی ہیں۔ لیکن اگر وصبیت کی ہو تو اس صورت میں "موصی له" تہائی ترکہ کی حدود تک رشتہ داورں سے اولٰی اور زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ یہ حقیقت میں استثناء کے مشابہ ہے جو 

آیات میرث میں " من بعد وصية....... میں آیا ہے۔
  ؎2       ان احادیث کومرحوم سید ہاشم بجرانی نے تفسیر برہان جلد 3 ص 292 ، اور 293 میں نقل کیاہے۔ منجملہ ان کے اوپر والی حدیث ہے اور سولہویں حدیث بھی اسی سلسلہ 

احادیث میں سے ہے۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

---
پر توراث ہے۔ اسی لیے ائمہ کی اولاد میں سے صرف ان افراد کی حالت کو شامل ہے جواس شائستگی کے حامل ہیں ؟ ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت ابراہیم اپنی اولاد کےلیے خدا سے 

چاہتے ہیں اور خدا ان سے کہتا ہے کہ امامت و ولایت تیری اولاد میں سے اس گروه تک نہیں پہنچے گی جوظالموں کی صف قرار پاتے ہیں۔ بلکہ ان میں پاکیزہ افراد سے مخصوص . 
 نیز اس چیز کے مشابہ ہے جو زیارت میں شہداء راه خدا منجملہ امام حسین کی قبر کے سامنے کھڑے ہوکر ہم کہتے ہیں. آپ پر سلام ہو اے حسینؑ کہ آپ آدمؑ کے 

وارث ، ابراہیم کے وارث ، موسٰی کے وارث و عیسٰی و محمد کے وارث ہیں ۔یہ میراث تواعتقادی ، اخلاقی معنوی اور روحانی پہلوؤں کے لحاظ سے میراث ہے۔
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ