فضول دعوے
مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ۴ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ۶
اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں اور تمہاری وہ بیویاں جن سے تم ا ظہار کرتے ہو انہیں تمہاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے اور نہ تمہاری منہ بولی اولاد کواولادقرار دیا ہے یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے. ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں سے قصداانجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کے بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا چاہو تو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتابِ خدا میں لکھی ہوئی موجود ہے.
تفسیر
فضول دعوے:
گذشتہ آیات کے بعد جو پیغمبر کو حکم دیتی تھیں کہ صرف وحی الٰہی کی اتباع کریں، نہ کہ کفار و منافقین کی ، تو زیربحث آیات میں ان کی پیروی کے نتیجہ کو بیان
کرتا ہے۔ ان کی پیروی انسان کو بڑی حد تک خرافات ، باطل اور بے راہ روی کی دعوت دیتی ہے ۔ جن میں سے تین موارد توپہلی زیر بحث آیت میں بیان ہوئے ہیں۔
ابتدا میں فرماتا ہے" خدا نے کسی شخص کے لیے بھی دو دل اس کے وجود میں قرار نہیں دیئے": (ماجعل الله لرجل من قلبين في جرفه)۔
مفسرین کی ایک جماعت نے آیت کے اس حصہ کے شان نزول میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں "جميل بن معمر" نامی کا ایک شخص تھا جوبلا کا حافظہ رکھتا تھا اوراس
کا دعویٰ تھا کہ میرے اندر "دو دل" ہیں جن میں سے ہر ایک سے محمد کی نسبت بہتر سمجھ رکھتا ہے۔ اس لیے مشرکین قریش سے "ذوالقلبين" (دو دل رکھنے والے) کا نام دیتے تھے۔
جنگ بدر کے دن جب مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے تو جمیل بن معمر بھی ان کے درمیان تھا۔ ابوسفیان نے اسے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا ایک جوتا اس کے پاؤں میں تھا
اور دوسرا ہاتھ میں لے کر بھاگ رہا تھا تو ابوسفیان نے اس سے کہا کیا بات ہے؟ اس نے کہا لشکر بھاگ گیا ہے ۔ ابوسفیان نے پوچھا ، پھرایک جوتا ہاتھ میں اور دوسرا پاؤں میں کیوں
کیے ہو؟ اس نے کہا سچ مچ میں تو اس طرف متوجہ ہی نہیں تھا۔ بلکہ سمجھتا تھا کہ دونوں جوتے میرے پاؤں میں ہیں (معلوم ہوتا ہے کہ ان سب دعووں کے باوجود اس طرح اپنے ہاتھ
پاؤں گم کرچکا تھا کہ ایک دل کی مقدار بھی کوئی چیز نہیں سمجھتا تھا۔ البتہ ایسے مواقع پر دل سے مراد عقل ہوتی ہے۔ ؎1
بہرحال کفار و منافقین کی پیروی اور وحی الٰہی کی اتباع کو ترک کرنا انسان کو اس قم کے بے ہودہ اورفضول مطالب کی طرف دعوت دیتا ہے۔
لیکن اس سے قطع نظر اس جملہ کا ایک نہایت ہی عمیق اورگہرا معنی بھی ہے اور یہ کہ انسان ایک سے زیادہ دل نہیں رکھتا اور یہ دل ایک معبود کے عشق کے علاوہ
کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ وہ لوگ جو شرک اور متعدد معبودوں کی دعوت دیتے ہیں ان کے متعدد دل ہونے چاہئیں تاکہ ہر ایک کو ایک معبود کے عشق کا مرکز بنائیں۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "مجمع البیان" ذیل آیہ محل بحث اور "تفسیرقرطبی"۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اصولی طور پر انسان کی شخصیت ایک صحیح وسالم وا حد انسانی شخصیت ہے اور اس کی فکر لائن بھی ایک ہے تنہائی اور اجتماع میں ظاہر و باطن میں اندر و باہرمیں
فکر و عمل میں غرض کہ سب میں ایک ہے اور اسے ایسا ہونا چاہیئے ، ہرقسم کا نفاق و دوگانگی انسان کے وجود پر ایک مسلط شدہ امر ہے اور اس کی طبیعت اور مزاج کے بالکل خلاف
ہے۔
چونکہ انسان ایک سے زیادہ دل نہیں رکھتا لہذا اسے چاہیے کہ اس کی مہرومحبت کا مرکز بھی ایک ہو اور ایک ہی قانون کے سامنے سرتسلیم نہ کرے۔
ایک ہی معشوق ومحبوب کی الفت دل میں رکھتا ہو۔
ایک ہی مقررہ راستے پرزندگی کے سفر کو جاری رکھے ۔
ایک گروہ اور ایک ہی جماعت سے ہم آہنگ ہو ورنہ یہ افتراق اور مختلف راستے اور پراگندہ مقاصد اسے ایک فطری راستہ سے ہٹ کر بے ہودگی اور انحراف کی
طرف کھینچ کرلے جائیں گے۔
اس لیے ایک حدیث میں امیرالمومنین حضرت علیؑ سے اس آیت کی تفسیر میں ہم پڑھتے ہیں۔
آپ نے فرمایا :
"الایجتمع حبنا وحب عدونا في جوف انسان ، ان الله لم يجعل لرجل قلبين
في جوفه ، فيجب بهذا ويبغض بهذ افاما محبنا فيخلص الحب لنا كما
يخلص الذهب بالنار لاكدر فيه فمن ارادان فليمتحن فلبد فان
شارك في حبنا حب عد وتنا فليس منا ولسنا منه"۔
ہماری دوستی اور ہمارے دشمن کی درستی ایک دل میں ختم نہیں ہوسکتی ، کیونکہ خدا نے ایک انسان کے لیے
دو دل قرار نہیں دیئے ہیں کہ ایک ساتھ کسی کو دوست رکھے اور دوسرے کے ساتھ کسی کو دشمن ہمارے دوست
ہماری محبت میں خالص ہیں۔ جیسا کہ سونا کٹھالی سے نکل کر کندن بن جاتا ہے ، جوشخص اس حقیقت کو جاننا چاہتا
ہے ، وہ اپنے دل کی آزمائش کرے۔ اگر ہمارے دشمنوں کی محبت کا کچھ حصہ اس کے دل میں ہماری محبت کے ساتھ
ملا ہوا ہے تو نہ وہ ہم سے ہے وہ ہم اس سے ۔ ؎1
اسی بناء پر ایک دل ایک ہی اعتقاد کا مرکز ہے اور وہ بھی ایک ہی عمل پروگرام پرعمل درآمد کرتا ہے کیونکہ ایسا نہیں بوسکتا کہ انسان حقیقتًا کسی چیز کا معتقد تو ہو
لیکن عملی شکل میں اس سے جدا ہو۔ اور یہ جو بعض لوگ ہمارے زمانہ میں اپنے لیے مستعدد شخصيتوں کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے فلاں عملی سیاسی لحاظ سے انجام دیا اور
فلاں دینی لحاظ سے اور فلاں کام اجتماعی نقطہ نظر سے ، اس طرح سے وہ اپنے متضاد اعمال کی توجیہ کرتے ہیں ۔تو وہ بدکردار منافق ہیں جو چاہتے ہیں کہ قانون آفرینش و خلقت کو
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر "علی بن ابراہیم" مطابق نقل نورالثقلین جلد 4 ص 234 ۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
روند ڈالیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسان کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں لیکن ان سب پر ایک ہی قانون حاکم ہونا چاہیئے۔
قرآن اس کے بعد زمانہ جاہلیت کی ایک اور بے ہودہ رسم اور خرافات کو بیان کرتا ہے اور وہ "ظہار" کی خرافات ہے۔ مرد جس وقت اپنی بیوی سے ناراض ہوجاتے
اور چاہتے کہ اس سے نفرت کا اظہار کریں تو اس سے کہتے ( انت على كظهر امی)تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے"۔ اور اس بات ساتھ وہ اسے اپنی ماں کی طرح سمجھنے
لگتے اور اس بات کو طلاق کے مانند خیال کرتے ۔
قران اس آیت کے آخر میں کہتا ہے "خدا نے ہرگز تمہاری بیویوں کو جنھیں تم محل ظہار قرار دیتے ہو ، تمہاری مائیں قرار نہیں دیا ہے اور ماؤں والے احکام ان کے
لئے مقررنہیں کیے: (وما جعل ازواجكم اللائي تظاهرون منهن امهاتکم)۔
اسلام نے اس زمانہ جاہلیت کے پروگرام کو صرف مستروہی نہیں کیا بلکہ اس کے لیے سزا بھی مقرر کی ہے اور وہ یہ کہ جو شخص یہ بات کہے وہ ضروری
کفاره ادا کیے اپنی بیوی کے پاس نہیں جاسکتا اور اگر کفارہ بھی ادا نہ کرے اور بیوی کے پاس بھی نہ جائے تو بیوی "حاکم شریعت" کے ذریعہ سے اسے دوکاموں میں سے ایک کو قبول
کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے ، یا تو باقاعدہ طور پر اور قانون اسلام کے مطابق اسے طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے۔ یاکفاره ادا کرکے حسب سابق اپنی ازدواجی زندگی کو جاری رکھے۔
؎1
آخر یہ کیا بات ہوئی کہ انسان اپنی بیوی سے یہ جملہ کہنے سے کہ "تو میری ماں کی طرح ہے" اس کو ماں کے حکم میں نے آئے؟ماں اور بیٹے کا ایک فطری رابطہ
ہوتاہے جو لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اس لیے سوره مجادلہ کی آیت 2 میں صراحت کہتاہے: "ان امھاتم الا اللائی ولد نهم وانهم لیقولون منكرًا من القول وزورًا"۔
"ان کی مائیں تو وہ ہیں جنہوں نے انھیں جنم دیا ہے اور وہ بری اور باطل بات کہتے ہیں "۔
یہ بات کہنے سے اگر ان کا مقصد بیوی جدائی اختیار کرنا ہے . جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا کہ اس سے طلاق کا کام لیتے تھے تو عورت سے علٰیحدگی اس غلط اور
ناشائستہ قول کی محتاج نہیں ہے ، کیا ایک درست اوریہ تعبیر کے ساتھ علیحدگی کے مسئلہ کو بیان نہیں کیا جاسکتا؟
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ظہار زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے جدائی کا سبب نہیں ہوتاتھا بلکہ عورت کو مطلق سرگرد ان کی حالت میں قرار دینا ہوتا تھا اگر
واقعتًا ایسا ہی ہے تو یہ گھناؤنا اور تکلیف دہ فعل میں بن جاتا ہے کیونکہ ایک بے معنی لفظ کے کہنے سے میاں بیوی کا باہمی رابطہ منقطع ہوجانا اور بغیر اس کے کہ عورت مطلقہ ہو ،
شوہراپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے۔ ؎2
پھر زمانہ جاہلیت کی تیسری بے ہودہ اور فضول چیز کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے " خدا تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے حقیقی بیٹے قرار نہیں دیتا:( وما جعل
ادعيائكم ابنائکم)۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "ظہار" سے مربوط مسائل کے بارے میں مزید وضاحت انشاء اللہ سورہ مجادلہ کی اس سے مناسب آیات کے ذیل میں آئے گی۔
؎2 "تفسیرفی ظلال" جلد نمبر 6 ص 534 (ذیل آیت زیر بحث)۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس کی وضاحت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں معمول تھا کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو اولاد کے طور پرانتخاب کر لیتے اور انھیں اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور ایسا
کرنے کے بعد تمام و حقوق جو ایک بیٹے کے کسی باپ پر ہوتے ہیں ، اس کے قائل ہو جاتے تھے ، وہ منہ بولے باپ کے وارث ہوتے اور منہ بولے ان کے وارث ہوتے ۔ ایسے باپ کی
بیوی بیٹے پر اور ایسے بیٹے کی بیویباپ کی باپ حرام ہوجاتی۔
اسلام نے غیر منطقی اور بے ہودہ قواعد و ضوابط کو سختی سے مستردکر دیا جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ پیغمبر نے اس غلط طور طریقے کی سرکوبی کے
لیے اپنے منہ بولے بیٹے "زید بن حارثہ" کی بیوی سے مطلقہ ہونے کے بعد نکاح کرلیا تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ کھوکھلے الفاظ حقائق کو دگرگوں نہیں کرسکتے کیونکہ باپ بیٹے کا
باہمی رابطہ ایک طبیعی اور فطری رابطہ ہوتا ہے جو الفاظ ، عہد و پیمان اورنعرہ بازی سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ بعد میں ہم بتائیں گے کہ پیغمبر کا زید کی مطلقہ بیوی سے شادی کرنے کے باعث دشمنان اسلام نے ایک بہت بڑا جنجال کھڑا کردیا اور ان کے غلط پروپیگنڈ ے
کے لیے ایک دستاویز بن گیا ، لیکن یہ سب کچھ زمانہ جاہلیت کی اس غلط رسم کو مٹانے کے لیے مہنگا ثابت نہیں ہوا۔
اس لیے قربان اس جملے کے بعد کہتا ہے۔" یہ ایسی بات ہے کہ جو تم زبان سے کہتے ہو": ( ذالكم تولكم بافراھكم)۔
تم کہتے ہو فلاں میرا بیٹاہے حالانکہ دل میں جانتے ہو کہ یقینًا ایسا نہیں ہے ۔ آواز کی یہ لہریں صرف تمھارے منہ کی فضا میں گھوم پھر کر باہر نکل جاتی ہیں اور
کسی بھی صورت میں یہ دل کی آواز نہیں ہوتی۔
یہ غلط اور فضول باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔"لیکن خدا حق بات کہتا ہے اور راہ راست کی ہدایت کرتا ہے": ( والله يقول الحق وهويهدي السبيل) -
حق بات اسے کہا جاتا ہے جو واقفیت عین کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو یا اگر کوئی طے شدہ معاملہ ہے تو وہ ہر لحاظ سے اس معاملہ کی تمام مصلحتوں سے ہم آہنگ ہوا
اور معلوم ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ظہار" ایساناپسندیدہ مسئلہ یا" منہ بولی بیٹا" جو دوسروں کی اولاد کے حقوق کو بڑی حد تک پانمال کرتا تھا ، نہ تو واقفیت عین رکھتا تھا اور نہ ہی کوئی
ایسا طے شدہ معاملہ تھا جس میں مصلحت عامہ کو مدنظر رکھا گیا ہو۔
اس کے بعد قرآن مزید تاکید اوراسلام کے صحیح اور منطقی خط کو واضح کرنے کےلیے یوں اضافہ کرتا ہے۔ "انھیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو کیونکہ یہ
کام خدا کے نزدیک زیادہ عادلانہ ہے"۔ ( ادعوهم لأبا بهم هراقسط عند اللہ)۔
" اقسط" ( زیادہ منصفانہ) کی تعبیر کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اگر انھیں منہ بولے باپ کے ساتھ پکارو تو منصفانہ فعل ہے اور حقیقی باپ کے نام سے پکارو تو زیادہ
منصفانہ ہے ، بلکہ جیسا کہ ہم بار کہہ چکے ہیں کہ "افعل التفضيل" کا صیغہ کبھی ایسے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے کہ طرف مقابل میں صفت کا بالکل وجود نہیں ہوتا ۔ مثلًا کہا
جاتاہے:
"انسان احتیاط کرے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالے تو بہتر ہے " تو اس بات کا یہ مفہوم نہیں کہ جان کو خطرے میں نہ ڈالنا اچھا ہے لیکن احتیاط کرنا اس سے
بہتر اور زیادہ اچھا ہے ، بلکہ مراد" اچھے " اور " برے" کا ایک دوسرے سے تقابل اور موازنہ ہے۔
اور "بہانے" کو دور کرنے کے لیے مزید کہتا ہے ؟ اگر ان کے باپوں کو تم نہیں پہنچانتے تو وہ تمھارے دینی بھائی اور موالی ہیں": (فان لم تعلموا أبائھم فاخوانكم فی
الدين ومواليكم)۔
یعنی ان کے باپوں کو نہ پہچاننا اس چیز کی دلیل نہیں بنتا کہ دوسرے شخص کا نام "باپ" کے عنوان سے اس پر رکھ دیں بلکہ انھیں دیںی بھائی کے عنوان سے یا
دوست اور آشنا کے طور پر خطاب کرو۔
"موالی" "مولا" کی جمع ہے اور مفسرین نے اس کے لیے متعد و معانی ذکر کیے ہیں ۔ بعض نے اسے یہان دوست کے معنی میں اور بعض نے آزاد شدہ غلام کے معنی
میں لیا ہے۔ (کیونکہ بعض منہ بولے بیٹے غلام تھے جنھیں خرید کر آزاد کردیا جاتا اور چونکہ وہ اپنے آقا کی توجہ کا مرکز ہوتے لہذا انھیں اپنے بیٹے کے طور پر پکارتے تھے)۔
اس نکتہ کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ "مولا" کی تعبیر اس قسم کے موارد میں کہ جہاں مقابلے میں آزاد شده غلام ہوں ، اسی وجہ سے تھی کہ وہ آزادی کے
بعد اپنا رابطہ اپنے مالک کے ساتھ برقرار رکھتے ایسا رابطہ جو قانونی لحاظ سے کئی ایک جہات میں رشتہ داری کا جانشین ہوجاتا اور "ولاءعتق" سے تعبیر کرتے ۔
اس لیے اسلامی روایات میں ہے کہ "زید بن حارثہ" کو پیغمبراکرمؐ کے آذاد کرنے کے بعد بھی "زید بن محمد" کے عنوان سے پکارا جاتا، یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا اور
اوپر والا حکم لایا۔ اس کے بعد پیغمبرؐ نے اس سے فرمایا تو "زید بن حارثہ" ہے ۔ تو اب اسے لوگ "مولٰى رسول اللہ" (رسول کا آزاد کردہ) کہہ کر پکارتے تھے۔ ؎1
نیزعلماء نے کہا ہے کہ ابو حذیفہ کا سالم نامی ایک غلام تھا جسے انھوں نے آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا جس وقت اوپر والی یہ آیت نازل ہوئی تو اسے "سالم" مولی حذیفہ
کا نام دیا گیا۔ ؎2
لیکن چونکہ انسان بھی گذشتہ عادت کے ماتحت با سبقت لسانی کی بناء پر یا بعض افراد کے نسبت میں اشتباہ کی وجہ سے ہوسکتاہے کہ کسی کو اس کے باپ کے
علاوہ کسی اور سے نسبت دے دے اور یہ چیز انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ لہذا خداوند عادل وحکیم ہے ۔ ایسے شخص کو سزا نہیں دے گا ۔ اس لیے آیت کے ذیل میں اضافہ
کرتا ہے۔ "جس وقت اس موقع غلطی کے مرتکب ہوجاؤ تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ": (وليس عليكم جناح فيما اخطأتم به)۔
لیکن جو کچھ تم جان بوجھ کر اور اپنے اراده و اختیار سے کہتے ہو ، اس پر ضرور سزادی جائے گی:" (ولكن ما تعمدت قدربكم)۔ ؎3
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "روح المعانی " جلد 21 ص 131 ذیل آیہ محل بحث ۔
؎2 "روح البیان" ذیل آیہ محل بحث.
؎3 مفسرین نے کہاہے کہ لفظ "ما" یہاں "موصولہ" ہے اور اعراب کے لحاظ سے "مبتداء" ہے اور اس کی "خبر" محزوف ہے اور تقدیری طور پر اس طرح تھا" لكن ماتعمدت
قلوبكم فانكرتؤاخذون به"۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اور خدا ہمیشہ غفورو رحیم ہے ( وكان الله غفورًا رحيمًا)۔
تمہارے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا اور سہو ونسیان اور خطاؤں کو معاف کردے گا ۔ لیکن اگر اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تم نے عمدًا اس کی مخالفت کی اور
افراد کو ان کے باپوں کے نام کے بغیر پکارا اور "منہ بولے بیٹے" اور منہ بولے باپ والی رسم کو جاری رکھا توخدا تمھیں نہیں بخشے گا۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ موضوع خطا ایسے موارو کوبھی شامل ہوگا جب انسان محبت کی بنیاد پرکسی سے کہتا ہے ۔"میرے بیٹے"! یا احترام سے کہتاہے۔ "میرے
باپ"!
البتہ یہ بات یہ صحیح ہے کہ تعبیرات گناہ نہیں ہے ۔ لیکن خطاء کے عنوان سے نہیں بلکہ اس بناء پرکہ اس قسم کی تعبیرات کنایہ و مجاز کا پہلو رکھتی ہیں اور عام
طور پر ان کا قرینہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ لہذا قرآن یہاں حقیقی تعبیرات کی نفی کرتا ہے نہ کہ مجازی کی ۔
بعد والی آیت ایک اور اہم مسئلہ یعنی اس کے نظام "مواخات" کے ابطال کو پیش کرتی ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اسلام نے ان کا تعلق مشرک رشتے داروں کے ساتھ کہ جو مکہ میں تھے ،
کلی طور پر توڑ دیا اور پیغمبرؐ نے حکم خدا سے مسئلہ اخوت و پیمان برادری ان کے درمیان کیا۔
اس طرح سے کہ "مہاجرین" و "انصار" کے درمیان (دو دو کرکے) پیمان اخوت و برادری باندھا گیا اور وہ دو حقیقی بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کےوارث بنے لیکن
یہ حکم عارضی اور صرف موجودہ سخت ترین حالات سے مخصوص تھا اور جس وقت اسلام نے وسعت پیدا کی ہے اور گذشتہ روبط تدریجًا برقرار ہوئے تو اب اس حکم کو باقی اور
جاری رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔
اوپر والی آیت نازل ہوئی اور "نظام مواخات" کو جو نسب کا جانشین تھا باطل کیا ۔ اوراث وغیرہ کے حکم کو حقیقی رشتہ
واروں کے سات مخصوص کردیا۔
اس بناء پر نظام اخوت و برادری اگرچہ ایک اسلامی نظام تھا (برخلاف منہ بولے بیٹے کے نظام کے جو ایک جاہلانہ نظام تها لیکن ضروری تھا کہ حد سے زیادہ خراب
حالت کے برطرف ہونے کے بعداسے باطل ہونا چاہیے تھا اور ایسا ہی ہوا۔
البتہ زیر بحث آیہ میں اس نکتہ کے ذکر سے پہلے دواور احکام یعنی "مومنین کی نسبت پیغمبرؐ کا اولٰی ہونا" اور "پیغمبرؐکی بیویوں کا ماں کی ماننند ہونا" مقدمہ کے
طور پر ذکر ہوا ہے۔
فرماتا ہے "پیغمبر مومنین کی نسبت اور ان سے اولٰی ہیں"۔ (النبی اولٰی باالمؤمنين من انفسهم)۔
"اور ان کی بیویاں مومنین کی مائیں شمار ہوتی ہیں" : (وا زواجه امهاتهم )۔
باوجود اس کے کہ پیغمبر بمنزلہ باپ کے اور ان کی بیویاں بمنزلہ ماؤں کے ہیں، لیکن کبھی بھی ان سے میراث نہیں لیتے تو کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ منہ
بولے بیٹھے وارث بنتے ہوں۔
پھر مزید کہتا ہے رشتہ دار ایک دوسرے کی نسبت مؤمینین و مہاجرین میں سے اس میں جو خدا نے مقرر کیا ہے اولٰی ہیں : (و اولوالارحام بعضهم اولٰی بعض في كتاب
الله من المؤمنين والمهاجرین)۔
لیکن اس کے باوجود اس بناء پر کہ کلی طور پر مسلمانوں پر راستہ بند نہ کر دیں اور دوستوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے ساتھ ان کا کسی قسم کو کوئی تعلق یا
لگاؤ ہو تو کوئی چیز بطور میراث چھوڑ سکتے ہیں ۔اگر چہ وصیت کے طرایق سے تہائی مال کی بابت ہی سہی آیت کے آخر میں مزہد کہتا ہے۔ "مگر یہ کہ تم چاہو کہ اپنے دوستوں کی
نسبت کوئی نیک کام انجام دو" تو کوئی مانع نہیں ہے: (الا ان تفعلوا الى اوليائكم معروفًا)۔
اور آخری جملہ میں گذشتہ تمام احکام کی تاکید کے لیے یا آخری حکم کی تاکید کے لئے فرماتا ہے۔ "یہ حکم کتاب الٰہی میں (لوح محفوظ با قرآن مجید میں) لکھا جاچکا ہے":
(كان ذالك في الكتاب مسطورًا)۔
یہ تھا خلاصہ اوپر والی آیت کی تفسیر کا۔ اب ہم ان مذکورہ چاراحکام میں سے ہرایک کوتفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔
الف:- مومنین کی نسبت پیغمبر کے اولٰی ہونے سے کیا مراد ہے؟
قرآن نے اس آیت میں پیغمبر کے اولٰی ہونے کومسلمانوں کی نسبت مطلق طور پرذکر کیا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام اختیارات جو "انسان" اپنی بابت رکھتا ہے
"پیغمبر" خود اس سے بھی والٰی ہے۔
اگرچہ بعض مفسرین نے "اموراجتماعی کی تدبیر" کے مسئلہ میں یا "اولویت مسئلہ قضاوت" میں یا "حکم و فرمان کی اطاعت" کے ساتھ تفسیر کی ہے ، لیکن حقیقت واقع
یہ ہے کہ ان تین امور میں سے کسی ایک کی محدود کرنے کی دلیل ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔
اوراگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی روایات میں اولویت کی مسئلہ "حکومت" سے مربوط مسائل میں بھی ہے تو درحقیقت اس اولٰویت کی ایک شاخ کو بیان کرنا مقصود
ہے ۔ ؎1
لہذا کہنا چاہیے کہ پیغمبر اسلامؐ اجتماعی مسائل میں اور انفرادی وخصوصی مسائل میں بھی ، حکومت سے مربوط مسائل میں بھی اقضاوت و دعوت سے متعلق مسائل میں
بھی ہرانسان سے خود اس کی نسبت اولٰی تھے اور آپ کا ارادہ اور خواہش خود اس کے ارادہ اور خواہش خود اس کے ارادہ اور خواہش پر مقدم ہے۔
اور اس مسئلہ میں حیران ہونے کی بھی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ پیغمبر معصوم ہوتا ہے اور خدا کا نمائنده سوائے معاشرے اور فردکی خیر و اصلاح کے کچھ بھی مدنظر
نہیں رکھتا اور کبھی بھی وہ ہوا و ہوس کا تابع نہیں ہوتا اور کسی وقت بھی اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات پرمقدم نہیں سمجھتا بلکہ اس کے برعکس مفادات کی کشش و تضاد اور
ٹکراؤ کی صورت میں اس کا پروگرام ہمیشہ امت کے لیے ایثار و قربانی اور فدا کاری ہوتا ہے۔
یہ اولٰویت حقیقت میں مشیت الٰہی کی اولٰویت کی ایک شاخ ہے کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خداکی جانب سے ہے ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 یہ روایات "اصوال کافی" اور کتاب "علل الشرائع" میں آئی ہیں (تفسیر نورالثقلین ، جلد 4 ص 238 ، 239 کی طرف رجوع فرمائیں)۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مزید برآں انسان اس وقت ایمان کی بلندی پر پہنچ سکتا ہے ۔ جب اس کا مضبوط ترین تعلق اپنی ذات کے ساتھ عشق ومحبت خدا کے تابع ہو اور اسی طرح اس کے
نمائندوں کے ساتھ عشق و محبت کے تایع ہو۔
اس لیے تو ہم ایک حدیث میں پڑھتے ہیں:
"لایؤمن احدكم حتٰی یکون هواه تبعًا لماجنت به"
"تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک حقیقت ایمان تک نہیں پہنچ سکتا ، جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہو جسے میں خدا کی طرف سے لے
کر آیا ہوں۔ ؎1
نیزایک اور حدیث میں آیا ہے :
"والذي نفسي بيده لا يؤمن احدكم حتٰی اكون احب اليمن
نفسه وماله وولده والناس اجمين"۔
"قسم سے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک حقیقت ایمان
تک نہیں پہنچ سکتا ،جب تک اس کے نزدیک خوداس سے اس کے مال و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں"۔ ؎2
نیزیہ بھی خود آنحضرت سےنقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
"مامن مؤمن الا وانا اولى الناس به في الدنيا والاخرة"۔
"کوئی مومن نہیں جب تک کہ میں دنیا و آخرت میں اس کے نزدیک خود اس کی نسبت اولٰی نہ ہوں"۔ ؎3
قران بھی اسی سوره احزاب کی آیت 36 میں کہتاہے:
"وماكان لمؤمن ولا مؤمنة اذا قضى الله ورسوله امرًا ان يكون لهم الخيرة
من امرهم"۔
"کسی با ایمان مرد و عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کریں تو پھر وہ اپنی طرف سے
کوئی اختیار رکھتا ہو "۔
ہم ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ اس بات کا یہ مقصد نہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو مکمل طور پر ایک فرد کی خواہشات کا پابند کردیا ہے بلکہ اس بات
کے پیش نظر کہ پیغمبر مقام عصمت کا حامل ہوتا ہے اور "ما ينطق عن الهوٰى ان هو الا وحی یرحٰی" (نجم ۔ 3- 4 ) بلکہ مصداق ہونے کی بناء پر جو کچھ بھی کہتا ہے، سب خدا کا
فرمان ہوتا ہے اور اس کی ہی
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "تفسير (فى ظلال" ذیل آیات محل بحث۔
؎2 "تفسير (فى ظلال" ذیل آیات محل بحث۔
؎3 "صحیح بخاری" جلد 9 ص 145 (تفسیر 3 احزاب ، مسند احمد بن حنبل جلد 2 ص 234۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جانب سے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ باپ سے بھی زیادہ دل سوز اور مہربان ہے ۔
یہ اولویت درحقیقت لوگوں کے مفاد اور ان کے حق میں ہے ،حکومت اور اسلامی معاشرہ کو چلانے کی صورت میں بھی اور انسان
کے شخص اور انفرادی مسائل میں بھی۔
اس بناء پر اکثرایساہوتا ہے کہ یہ اولٰویت پیغمبر کے کاندھوں پر عظیم مسئولیت اور ذمہ داری ہے۔ اسی لیے مشہور روایت میں کہ جوشیعہ اور اہل سنت کی کتب میں
وارد ہوئی ہے۔ پیغمبرؐ نے فرمایا:
"انا اولى بكل مؤمن من نفسه ، ومن ترك مالا فللوارث ومن ترك دینًا او ضياعًا
فالي وعلى "۔
"میں ہر مومن کے لیے اس کی نسبت اولٰی ہوں ، جو شخص اپنی طرف سے مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارث کے
لیے ہے اورجوشخض قرض چھوڑ کر جائے یا اہل وعیال چھوڑ جائے تو ان کی کفالت میرے ذمہ ہے ۔ ؎1
(توجہ کرنا چاہیئے کہ یہاں پر "ضیاع" اہل وعیال کے معنی میں ہے جو سر پرست کے بغیر رہ گئے ہوں اور "دین" کی تعبیر اس سے پہلے بھی اس معنی پر واضح
قرنیہ ہے کیونکہ مراد مال کے بغیر قرض دار ہونا ہے۔
ب:- دوسرا حکم پیغمبر کی بیویوں کے سلسلہ میں ہے کہ وہ تمام مومین کے لیے (ماں کی حیثیت رکھتی ہیں البتہ معنوں اور روحانی مائیں ہیں جیساکہ
پیغمبر امت کے روحانی اور معنوی باپ ہیں۔
اس معنوی میں ربط اور رشتہ کی تاثیر صرف "حفظ احترام" اور پیغمبر کی بیویوں سے "ازدواج کی حرمت" کے سلسلہ میں ہے ، جیساکہ اسی سورہ کی آیات میں
پیغمبرکی رحلت کے بعد ان کی ازواج سے نکاح کرنے کی تحریم کا صریح حکم آیا ہے . ورنہ مسئلہ میراث کے لحاظ سے اوراسی طرح دوسرے "نسبی" اور"سببی" محرمات کے لحاظ سے
ذرہ برابر بھی نہیں رکھتا ،یعنی مسلمان حق رکھتے ہیں کہ پیغمبر کی بیٹیوں کے ساتھ شادی کریں ۔ ؎2
حالانکہ کوئی شخص اپنی ماں کی بیٹی کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا، نیزمحرمیت کا مسئلہ اور پیغمبر کی بیویوں کی طرف نگاه کرنا ان کے محارم کے سوا کسی شخص
کے لیے بھی جائز نہیں تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے بی بی عائشہ سے کہا: "یا امہ" اے اماں ۔ اس پرانھوں نے جواب دیا۔ میں تمھاری ماں نہیں ہوں ، تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 وسائل شیعہ جلد 17 ص 551 یہ بات ایام صادقؑ سے پیغمبر گرامی اسلامؐ سے نقل ہوئی ہے اور یہی مضمون مختصرہے فرق کے ساتھ تفسیر قرطبی اور روح المعانی
میں زیر بحث آیات کے ذیل میں آیا ہے اور میں صحیح میں بھی ہے ۔ دیکھو جلد 6 ص 45، (تفسير سورہ احزاب) میں آیاہے۔
؎2 جیسا کہ حضرت علیؑ کی شادی آنحضرت کی دختر سے ہوئی یا آپ کی نواسیوں کی شادیاں حضرت جعفر طیار کے بیٹوں سے ہوئیں۔ ؎3 "مجمع البیان" اور "روح
المعانی " زبر بحث آیات کے ذیل میں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس تعبیر کا مقصد نکاح کی حرمت ہے اور صرف امت کے مردوں کے بارے میں صادق ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ مسئلہ ازدواج کے علاده احترام اور بزرگ سمجھنے کا موضوع بھی پیش نظر ہے۔ اسی لیے مسلمان
عورتیں بھی پیغمبر کی بیویوں کے احترام کے طور پراپنی کہہ کر خطاب کریں۔
اسی بات کا مشاہد خود قرآن ہے جبکہ کہتاہے: "النبي اولٰى بالمؤمنين من انفسهم" . پیغمبرؐ کی اولویت تمام عورتوں اور مردوں کی نسبت ہے اور بعد والے جملہ کی ضمیر
بھی اسی عنوان کی طرف لوٹتی ہے جوایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اسی لیے عبارت میں جو" أم سلمہ"(پیغمبر کی ایک بیوی) سے نقل ہوا ہے کہ وہ فرماتی ہیں ۔
"انا ام الرجال منكم والنساء"
"میں تمہارے مردوں اورعورتوں کی ماں ہوں"۔ ؎1
یہاں ایک سوال سامنے آتاہے اور وہ کہ کیا " ازواجد ا مهاتهم "۔" پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں شمار ہوتی ہیں" کی تعبیر اس کے ساتھ جوقبل کی چند آیات میں گزری
ہے ، تضاد نہیں رکھتی ؟ کیونکہ وہاں فرماتا ہے ۔:"وہ لوگ کہ جو کبھی اپنی بیویوں کو اپنی ماں کے بمنزلہ قرار دیتے ہیں ، باطل بات کہتے ہیں۔ ان کی ماں صرف وہی ہے جس سے وہ
متولد ہوۓ ہیں"۔اس حالت میں کس طرح کی بیویاں کہ جن سے مسلمان متولد نہیں ہوئے مائیں شمار ہوتی ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیئے کہ کسی عورت کو ماں سے مخاطب کرنا یا تو جسمانی لحاظ سے ہوتا ہے یاروحانی لحاظ سے ۔جسمانی
لحاظ سے تو یہ معنی صرف اس صورت واقعیت رکھتا ہے کہ انسان اس سے متولد ہوا ہو۔ اور یہ وہی چیزہے جو گزشتہ آیات میں آئی ہے کہ انسان کی جسمانی ماں توصرف وہ ہے کہ
جس سے وہ پیدا ہواہے لیکن روحانی ماں باپ تو وہ ہیں جو ایک قسم کی معنوی حق پر رکھتے ہوں جس طرح پیغمبر جو امت کے روحانی باپ شمار ہوتے ہیں اور آپ ہی کی وجہ سے آپ کی
بیویاں ماں کا احترام رکھتی ہیں ۔
جو اعتراض زنانہ جاہلیت کے عربوں کی طرف "ظہار" کے بارے میں تھا، یہ تھا کہ جس وقت وہ اپنی بیویوں کو ماں کر کے مخاطب کرتے تو یقینًا ان کی مراد معنوی
ماں نہ ہوتا۔ بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی کہ وہ اپنی ماں کی طرح ہیں، اس لیے ایک قسم کی طلاق شمار کرتے تھے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جسمانی صورت میں الفاظ کے کہہ دینے سے ماں
نہیں بن جاتی بلکہ اس کی شرط تولید جسمانی ہے۔ اس بناء پران کا یہ قول جھوٹ اور باطل تھا۔ لیکن پیغمبرؐ کی بیویوں کے بارے میں اگرچہ وہ جسمانی مائیں نہیں ہیں لیکن پیغمبر کے
احترام کی وجہ سے وہ روحانی مائیں تھیں اور ایک ماں ایسا احترام رکھتی تھیں۔
اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن آیندہ کی آیات میں پیغمبر کی بیویوں سے شادی کرنے کو حرام قرار دیا ہے ، وہ بھی درحقیقت پیغمبر کے احترام کی قسموں میں سے ایک
ہے جیسا کہ اس کی وضاحت آگے چل کر تفصیل کے ساتھ آئیگی، انشاءاللہ
البتہ اسلام میں ماں کی ایک اور قسم رضاعی ماں کے عنوان سے موجود ہے جس کی طرف سورةنساء کی آیت 23 میں
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "روح المعانی" ذیل آیات زیربحث۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اشارہ ہوا ہے کہ "وامهاتكم اللاتی ارضعنكم ... تو درحقیقت وہ جسمانی ماں کی ایک قسم ہے "
ج :- تیسرا حکم رشتہ داروں کی ایک دوسرے کی بابت میراث بارے میں اولویت کامسئلہ ہے کیونکہ ابتداء اسلام میں کہ مسلمان ہجرت کی وجہ سے یا
اپنارشتہ اپنے اعزاء و اقارب سے کم کرچکے تھے تو میراث کا قانون " ہجرت" اور " مواخات" کی بنیاد پر منظم ہوا یعنی مہاجرین ایک دوسرے سے یانصار سے جن سے برادری کا
رشتہ چھوڑ چکے تھے ، میراث لیتے تھے ۔ یہ ایک عارضی حکم تھا جو اسلام کے وسعت پانے اور بہت سے گذشتہ رشتہ داری کے روابط کے برقرار ہو جانے سے ان کے اسلام لانے
کی بناء پر اب اس حکم کے جاری رکھنے کی ضرورت نہیں تھی (آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سورہ احزاب ہجرت کے پانچویں سال جنگ احزاب کے سال نازل ہوا)۔
اس لیے اوپر والی آیت نازل ہوئی اور "اولوا الارحام" (رشتہ داروں) کی اولویت کو محکم کردیا۔
البتہ کچھ قرائن موجود ہیں کہ یہاں اولویت سے مراد الزامی اولویت ہے نہ کہ استحبابی ، کیونکہ علماء اسلام کا اجماع بھی اس معنی پرہے اوربہت کی روایات بھی
جواسلامی ماخذ میں وارد ہوئی ہیں ، اس موضوع کو ثابت کرتی ہیں۔
یہاں اس نکتہ کی طرف بھی خوب غور کے ساتھ توجہ کرنا چاہیے کہ یہ آیت غیروں کی نسبت رشتہ داروں کی اولویت کو بیان کررہی ہے۔ ناکہ میراث کے تین طبقات
کی ایک دوسرے کی نسبت اولویت کے بیان کے لیے، دوسرے لفظوں میں یہاں "مفضل علیهم" مومنین و مہاجرین ہیں جو تین قرآن میں آئے ہیں: ( من المؤمنين والمهاجرين)
اس بناء پرآیت کا مفہوم اس طرح ہوگا " بعض رشتہ دار دوسرے بعض سے میراث لینے میں غیر رشتہ داروں سے اولٰي ہیں"۔ باقی رہا یہ کہ رشتہ دار کس طرح
میراث لیتے ہیں ؟ اورکس معیار اور ضابطہ کے تحت؟ توقرآن یہاں اس بارے میں ساکت ہے! اگرچہ سوره نساء کی چند آیات میں اس کے بارے تفصیل سے بحث ہوئی ہے ۔ ؎1
د:- مگریہ کہ اوپر والی آیت میں ایک استثناء کی شکل میں آیا ہے ، دوستوں اور تعلق رکھنے والے افراد کو اموال سے بہرہ مند کرنا ہے جنہیں یادگار
کے طور پر چھوڑ رہا ہے جو (ا لا ان تفعلوا الٰى اولیائكم معروفًا) مگریہ کہ اپنے دوستوں کے ساتھ تم نیکی کرنا چاہو"کے جملہ سے بیان ہوا ہے اور اس کا واضح مصداق وہی حکم وصیت
ہے کہ جسے انسان اپنے تہائی مال کے حصے میں جس شخص کے بارے میں چاہے انجام دے سکتا ہے۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اسی بنا پر بعض فقاء طبقات میراث ہیں ایک دوسرے سے اولویت کی تعبیر کا استدلال درست نظر نہیں آتا ، معلوم ہوتا کہ "اولی ببعض" میں حرف "با" اس قسم کی غلط فہمی کا
سبب ہوا (اور بعض علماء نے گمان کرلیا ہے کہ یہاں پر "مفضل علیھم " (جن پرفضیلت دی گئی) بعض وارث ہیں ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ (مفضل عليه) من المومنين والمهاجرين لایا
ہے" البتہ اور الوالارحام کی تعبیر صرف یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ رشتہ داری ہی میراث کا معیار ہے اور جس قدر رشتہ دار ی کا درجہ بلند ہوگا اسے اتنا تی تی حق حاصل ہوگا۔
(غورکیجئے گا)
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس طرح سے جب میراث کی عمارت رشتہ داری کی بنیاد پراستواری کی گئی اور گذشتہ رشتوں کی قائم مقام ہوئی ، پھر بھی انسان کا رابطہ مکمل طور پر اپنے قلبی
دوستوں اور مسلمان بھائیوں سے منقطع نہیں ہوتا۔ البتہ کیفیت و کمیت (مقدار اور تعداد) خود اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے لیکن پھر بھی اس کی شرط یہ ہے کہ مال کی ایک تہائی سے
زیادہ نہ ہو، البتہ اگر انسان ر وصیت نہیں کرتا تو اس کے تمام اموال اس کے رشتہ داروں کے درمیان میراث کے قوانین کے مطابق تقسیم ہوں گے اور ان کے لیے ثلث یعنی ایک تہانی
مقصود نہیں ہوگی ۔ ؎1