Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تربیتی اوراصلاحی سزائیں

										
																									
								

Ayat No : 21-22

: السجدة

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۲۱وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ ۲۲

Translation

اور ہم یقینا بڑے عذاب سے پہلے انہیں معمولی عذاب کا مزہ چکھائیں گے کہ شاید اسی طرح راہ راست پر پلٹ آئیں. اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات هالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں.

Tafseer

									  تفسیر
                تربیتی اوراصلاحی سزائیں :
 گناہگاروں اور ان کی دردناک سزاؤں کے بارے میں تو گذاشتہ آیات میں بحث ہوچکی ہے۔ موجودہ آیات میں ان کے بارے میں خدا کے ایک مخفی لطف کی طرف اشارہ ہے ، جو دنیا میں خفیف اور بیدار کرنے والی سزاؤں کی صورت میں ہے ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ خدا ہرگز نہیں چاہناکہ بندہ عذاب جاودانی میں گرفتار ہو۔ لہذا بندے کی نجات کے لیے اسے بیدار کرنے واے ہر قسم کے وسائل کو بروئے کار لاتا ہے ۔
 خدا اپنے پیغمبربھیجتا ہے ، آسمانی کتابیں نازل کرتا ہے ، نعمت دیتا ہے ، مصیبت میں گرفتار کرتا ہے اور اگر ان میں سے کسی چیز سے فائده نہ اٹھائیں تو پھراس قسم کے اشخاص کا سوائے جہنم کی آگ کے کوئی اور انجام نہیں ہے۔ 
 فرماتا ہے۔ "ہم انہیں دنیا کا نزدیکی عذاب آخرت کے عذاب سے پہلے چکھائیں گے ، شاید وہ بیدار ہوکر پلٹ آئیں "۔ (اولنذيقنهم من العذاب الادنی دون العذاب الأكبر لعلھم یرجعون)۔ 
 يقینًا عذاب اونی "ایک وسیع معنی رکھتا ہے تو زیادہ تر ان احتمالات کو اپنے اندر لیے ہو ئے ہے جنہیں مفسرین نےبطور جدا گانہ بیان کیا ہے ۔ 
 منجملہ ان کے اس سے مراد مصائب و درد اور رنج وغم ہیں۔ 
 یا مکہ کا سات سالہ شدید  قحط اور خشک سالی ، جس میں مشرکین اس قدر گرفتار ہوئے کہ انھیں مجبورًا مردار لاشے کھانا پڑے یا وہ کاری ضربین جو ان کے پیکر پر جنگ "بدر" میں وارد ہوئیں۔ 
 اس قسم کے دوسرے امور۔ 
 باقی رہاوہ جو بعض نے احتمال دیا ہے کہ مراد" عذاب قبر" یا "رجعت کا عذاب" ہے ۔ وہ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ وہ "لعلهم يرجعون" (شاید وہ اپنے اعمال سے پلٹ آئیں) کے جملہ کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ 
 البتہ اس نکتہ طرف توجہ کرنا چائیے کہ اس دنیا میں بھی مختلف عذاب ہیں جن کے نزول کے وقت توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وه "عذاب استیصال" یعنی وہ عذاب جو سرکش اقوام کی نابودی کے لیے اس وقت نازل ہوتاہے جب ان اصلاح کا کوئی وسیلہ کارگر ثابت نہیں ہوتا اور طبعًا اس قسم کا عذاب ہے بھی آیت کے موضوع بحث سے خارج ہے۔ 
 باقی رہا " عذاب اکبر" جو قیامت کے دن کا عذاب ہے تو وہ ہر سزا اور عذاب سے بڑا اور زیادہ  دردناک ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ کیوں "ادنٰی" (زیادہ نزدیک) اکبر زیادہ بڑے) کے مقابلہ میں قرار پایا ہے۔ حالانکہ یا تو "ادنٰی" "بعد" (زیادہ دھ) کے مقابلہ میں ہو یا "اصغر" "اکبر" کے مقابلے میں قرار پاتا؟ اس میں بھی ایک نکتہ مضرہے ، جس کی طرف بعض اشارہ کیا ہے اور وہ یہ کہ دنیاوی عذاب دو اوصاف کا حامل ہوتا ہے"چھوٹا ہونا اور نزدیک ہونا" اور تہدید اور ننبیہ کے موقع پر مناسب نہیں ہوتا کہ اس کے چھوٹے پن کو مد نظر رکھا جائے بلکہ اس کے نزدیک ہونے کو دیکھا جائے گا۔ 
 اور عذاب آخرت بھی دو اوصاف کا حامل ہوتا ہے "دور ہونا" اور "بڑا ہونا" اور اس کے بارے میں بھی مناسب یہی ہے کہ اس کے چھوٹے پن کو مدنظر رکھا جائے تاکہ "دور ہونے کو"۔ (خوب غورکیجئے)۔ 
 "لعلهم يرجعون" کے جملہ میں "لعل" کی تعبیر جیسا کہ پہلے بھی ہم نے کہا ہے ، اس بناء پر ہے کہ  تنبیہ اور خبردار کرنے والے عذاب بیداری کے لیے علت نامہ نہیں ہیں بلکہ علت کی جز ہیں اور انھیں سازگار و آمادہ زمین کی ضرورت ہے جواس شرط کے بغیرکسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے اور لفظ "لعل" اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ 
  ضمنًا سی آیت سے مصائب و آلام اور رنج و بلاؤں کا ایک اہم فلسفہ واضح ہو جاتا ہے جو توحید ، خدا شناسی اور عدل پروردگار کی مباحث میں زیادہ سوال انگیز مسائل میں سے ہے۔ 
 نہ یہاں بلکہ قرآن کی دوسری آیات میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ موجود بے منجملہ ان کے سورہ اطراف کی آیت 94 میں ہم پڑھتے ہیں: 
  " وما ارسلنا في قرية من نبي الا اخذنا اهلها بالبأساء والضراء 
  لعلھم يضرعون " 
  " ہم نے کسی اور دیار میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا ، مگر یہ کہ وہاں کے لوگوں کو مشکلات اور نقص و زیاں میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ بیدار ہوں اور خدا کی بارگاہ کی طرف رجوع کریں "۔
 اور چونکہ جس وقت پیدا کرنے والے وسائل میں سے کوئی بھی وسیلہ حتٰی که خدائی عذاب بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا ، تو پھراس گروہ کے ظالم ترین لوگوں سے پردروگار کے انتقام کے علاوہ کوئی راہ باقی نہیں رہ جاتی۔ 
 بعد والی آیت میں اس طرح فرماتا ہے۔" کون ساشخض زیادہ ستم گر ہے اس شخص سے جسے اس کے پروردگار کی آیات یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے اعراض اور روگرانی کرے" ( ومن اظلم ممن ذكر بأيات ربهہ ثم اعرض عنھا)۔ 
 "یقینًا ہم ان بےایمان مجرموں سے ضرور انتقام لیں گے :" (انا من المجرمين منـتعمون )۔
 حقیقت میں یہ ایسے لوگ ہیں جن پر خدائی نعمتیں موثر ہیں اور نہ اس کا عذاب اور خبردار کرنے والی بلائیں اور مصائب اسی بناء پران سے زیادہ ظالم کوئی شخص نہیں ہے ۔لہذا اگر ان سے انتقام نہ لیا جائے تو پھر کس سے لیا جائے؟ 
 ظاہر ہے کہ گذشتہ آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے بیان "مجرمین " سے مراد مبدء یا معاد کے منکر اور بے ایمان گناہگار ہیں۔ 
 آیات قرآن میں بارہا ایک گردہ کا "اظلم" (سب سے بڑھ کر ظالم افراد) کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے اگرچہ اس کی مختلف تعبیریں ہیں ۔ لیکن واقع میں سب کی سب ایک اس کی طرف لوٹتی ہیں، اور وہ بے کفر و شرک اور بے ایمانی کی جڑ، اس بناء پر"ظالم ترین" کا مفہوم جو اصطلاع کے مطابق سب سے بڑھ کر بری صفت ہے ، وہ مخدوش نہیں ہوتی۔
 اوپر والی آیت میں "ثم" کی تعبیر جو عام طور پر فا صلہ کو بیان کرنے کے لیے ہے ، ہوسکتا ہے ۔ اس طرف اشارہ ہو کہ اس قسم کے افراد کو سوچنے سمجھنے کے لیے کا في موقع اور مہلت دی جاتی ہے۔ کبھی بھی ابتدائی مخالفین انتقام الٰہی کا سبب نہیں بنتیں ۔ لیکن ضروری فرصت اور مہلت کے ختم ہونے کے بعد خدا کے انتقام کے مستحق ہوں گے۔ 
 ضمنًا توجہ کرنا چاہئے کہ "انتقام " کی تعبیر عربي لغت کے لحاظ سے "سزا دینے" کے معنی میں ہے۔ اگرچہ  "ولی تشفی" (اندروني تپش کا بجھانا) اس لفظ کے مفہوم میں روز مرہ کے استعال کے لحاظ سے اس میں چھپا ہوا ہے لیکن اگر کسی کے اصلی اور لغوی معنی کو دیکھا جائے تواس میں موجود نہیں ہے۔ 
  اسی لیے قرآن مجید میں یہ تعبیر خدا وند عالم کے بارے میں بارہا استعمال ہوئی ہے حالانکہ وہ اس قسم کے  مفاہیم سے برتر اور بالاتر ہے وہ صرف حکمت و مصلحت کی بناء پر کام کرتا ہے ۔
   ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ