Tafseer e Namoona

Topic

											

									  عظیم جزائیں نہیں کوئی نہیں جانتا

										
																									
								

Ayat No : 15-20

: السجدة

إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩ ۱۵أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ لَا يَسْتَوُونَ ۱۸أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۱۹وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ۲۰

Translation

ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے افراد بس وہ ہیں جنہیں آیات کی یاد دلائی جاتی ہے تو سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمدوثنا کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں. کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے. جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے آرام کرنے کی جنتیں ہیں جو ان کے اعمال کی جزا ہیں. اور جن لوگوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکاناجہّنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے.

Tafseer

									تفسیر
         عظیم جزائیں نہیں کوئی نہیں جانتا 
 ہم سب کو معلوم ہے کہ قران کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ بہت سے حقائق کو ایسے دلنشین انداز میں ایک دوسرے کے تقابل اور موازنہ کے ساتھ بیان کرتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح ہرایک کی سمجھ میں آجائیں. 
 گذشتہ میں مجرمین اور کافکرین کے بارے میں بیان شدہ تشریح کے بعد یہاں پربھی برجستہ مومنین کی صفات اوران کے اصول عقاید اور عملی پروگرام کو اختصاء کے ساتھ دوآیات کے ضمن میں آٹھ صفات کے ذکرساتھ بیان کرتا ہے۔ ؎1 
 پہلے فرماتاہے۔ " صرف وہی اور بیماری آیات پر ایمان لے آتے ہیں کہ جنہیں جب میں بھی ان آیات کی یاد دہانی کرائی جاۓ تو سجدہ میں گرپڑتے ہیں۔ اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے"۔ (انمایؤمن باباما الذين فاذكرو ابها اخزوا سجدًا وسبحوا بحمد ربهم وهم لایستكبرون) - 
 "انما" کی تعبیر جوعام طور پرحصر کے لیے ہے، اس نکتہ کو بیان کرتی ہے کہ جب کوئی شخص ایمان کا دم بھرتاہے لیکن ان خصوصیات کا حامل نہیں جو ان آیات میں آئی ہیں تو وہ سچے مومنین کی صف نہیں ہے بلکہ ایسا ضعیف الایمان شخص جو کسی کھاتے میں شمار کے قابل نہیں۔ 
  اس آیت میں ان کی صفات کے چارحصے بیان ہوئے ہیں۔ 
 1- آیات الہی کے سنتے ہی سجدہ میں گرپڑتا ہیں "سجدوا" کے بجاۓ "خروا"  کی تعبیرایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بیدار دل مومنین کا گروہ آیات قرآن سننے کے وقت اس طرح شیفتہ اور پروردگار کے ارشادات و مجذوب ہے کہ بے اختیار سجدہ میں گر پڑتاہے اوراس راہ میں دل و جان کو ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے ۔ ؎2 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     توجہ رکھناچاہیئے کہ یہ آبت قرآن مجید میں "واجب سجدہ" کی پہلی آیت ہے۔ چنانچہ جوشخص اس ساری آیت کو پڑھے۔ یاکسی دوسرے سے سنے تو واجب ہے کہ سجدہ کرے. البتہ اس میں وضو واجب نہیں ہے. لیکن  احتیاط واجب یہ ہے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھے کہ جس پر سجدہ صحیح ہے۔
  ؎2    "راغب" "مفردات" میں لکھتے ہیں " خروا" دراصل" خریں" کے مادہ سے ہے ، جو پانی وغیرہ کی اس اواز کے معنی میں ہے جو بلندی سے نیچے کی صرف گررہا ہو اور اس تعبیر کو سجدہ کو کرنے والوں کے بارے میں استعمال کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ جس لمحہ بھی سجدہ کے لیے زمین پر گرتے ہیں ، اسی وقت ان کی تسبیح صدا بلند ہوتی ہے ۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 جی ہاں ان کی پہلی خصوصیت اپنے محبوب و معبود کے کلام و گفتگو سے ان کا عشق سوزاں اور لگاؤہے۔ 
 "یہی خصوصیت قرآن کی دوسری آیات میں انبیاء کی ایک برجستہ ترین صفت کے عنوان سے ذکر ہوئی ہے ، جیسا کہ خداوندا عظیم انبیاء کے ایک ایک گروہ کے متعلق کہتا ہے: " اذا عيلھم ایات الرحمن خرد  سجدًااوبیکیًا"    (سوره مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 58)۔ ۹دی | جس وقت خداوند رحمان کی آیات ان پر پڑھی جاتی تھیں تو وه خاک پرگرجاتے اور سجدہ کرتے اور گریۂ شوق سوزاں اور لگاؤ ہے۔ 
 اگرچہ لفظ "یہاں بطور مطلق ذکر ہوا ہے ۔ لیکن واضح ہے کہ ان سے مراد زیادہ تروه آیت ہیں ، جن میں توحید کی دعوت ہے اور شرک سے نبردآزمائی کی ترغیب۔   2 ، 3- دوسری اور تیسری نشانی ان کی پروردگار کی "تسیبح" اور "حمد" ہے۔ ایک طرف جہاں وہ خدا کو نقائص سے پاک اور منزه شمار کرتے ہیں تو دوسری طرف اس کی صفات کمال و جمال کی بناء پر اس کی حمد ستائش کرتے ہیں۔ 
 4- ان کی ایک اور صفت تواضع ، فروتنی اور ہر قسم  کے استکبار دوری ہے، کیونکہ کبروغرور کفروبے ایمانی کے زینہ کی پہلی سیڑھی ہے اورسیڑھی ہے اورحق و حقیقت کے سامنے جھک جانا ایمان کا پہلا قدم ہے۔ 
 وہ لوگ جو تکبر اور خود پسندی کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں، وہ نہ تو خدا کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی تسبیح و حمد بجالاتے ہیں اور نہ ہی اس کے بندوں کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ اپنے سامنے ایک عظیم بت رکھتے ہیں اور بڑا بت خود ان کی اپنی ذات ہے۔ 
 اس کے بعد ان کی دوسری صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "ان کے پہلو رات کے وقت بستروں سے دور ہو جاتے ہیں"۔ وہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور بارگاہ خدا کا رخ کرکے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں: (اتسجانی جنوبهم عن المضاجع)۔  ؎ 1 
 جی ہاں ! جس وقت غافل لوگوں کی آنکھ سودھی ہوتی ہے تو وہ رات کا ایک حصہ بیدار ہوتے اور اس وقت جبہ زندگی کا کاروبار ٹھپ ہوتا ہے ، فکری مشاغل کم سے کم حد کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور آرام و سکون اور خاموش نے ہرجگہ کو ھگیر رکھا ہوتا ہے اور عبادات میں  ریا کا شاہبہ بہت ہی کم ہوتا اور خلاصہ یہ کہ اس وقت حضور قلب کے بہترین مواقع میسر ہوتے ہیں ، یہ لوگ اپنے پورے وجود کے ساتھ بارگاہ معبود کا رخ کرتے ہیں اوراپنے معشوق و محبوب کے آستانے پر سر جھکا دیتے ہیں۔ اور جو کچھ ان کے دل میں ہوتا ہے ، اس کی بارگاہ میں پیش کر دیتے ہیں ۔ یہ اس کی یاد میں زندہ ہیں اور اپنے دل کے پیمانے 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  ؎1     " تتجانی" اور "جفا" سےاصل میں اٹھائے اور دور کرنے کے معنی میں هے، "جنوب" جمع ہے ، "جنب"  کی جو "پہلو" کے معنی میں ہے اور مضاجع "جمع ہے " مضجع" کی بستر کے پہلو کا دور بستر سے پہلوکا ودر ہونارات کے وقت بستر خواب سے اٹھنے اور پروردگار کی عبادت کرنے سے کنایہ ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کو اس کی مہر و محبت سے لبریزاور سرشار رکھتے ہیں۔ 
 اس کے بعد مزید کہتا ہے" وہ اپنے پروردگار کو "خوف"  "وامید"  کے ساتھ پکارتے ہیں": یدعون ربهم غوفًا وطمعًا)۔  
 جی ہاں ان کی دوا ورصفات " خوف" و"رجا" یا "ڈر" اور "امید"  ہے ، نہ تو اس کے غضب اور عذاب سے مامون رہتے ہیں اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں ۔ اس خوف اور امید کا توازن جو خدا کی راہ میں ان کے تدریجی کمال و ارتقاء اور پیش رفت کا ضامن ہے ، ہمیشہ ان کے وجود میں کارفرما ہے: 
 وجہ یہ ہے کہ امید پرخوف کا اور امید کا توازن جو خدا کی طرف کھینچ کرلے جاتا ہے ، اور جاه اورطمع کا غلبہ اسے غرور وغفلت پر آمادہ کرتا ہے اور یہ دونوں خدا کی طرف انسان کے ارتقائی مراحل کے دشمن ہیں۔ 
 آخری اور آٹھویں خصوصیت ان کی یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے انھیں رزق دیاہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں؛ (ومم رزقناهم ینفقون) . 
 نہ صرف یہ کہ اپنے مال ضرورت مندوں کوبخش دیتے ہیں، بلکہ اپنے علم و دانش ، قوت اور قدرت صحیح رائے اورتجربہ اور فکری ذخیرہ کو ضرورت مند لوگوں پر خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔  
 وہ خیرو برکت کا مرکز ہیں اور نیکیوں کے آب زلال یعنی صاف ستھرے پانی کا لازوال چشمہ ہیں کہ تشنہ کاموں کو سیراب اور محتاجوں کو اپنی ہستی کے مطابق بے نیاز کر دیتے ہیں۔ 
 جی ہاں ! ان کے اوصاف محکم عقیدہ ، قومی ایمان ، خدا سے حقیقی عشق، عبادت و اطاعت کوشش و حرکت اور بندگان خدا کی ہرلحاظ سے مدد کرنے کا مجموعہ ہیں۔ 
 پھر بعد والی آیت میں سچے مومنین کے عظیم اوراہم اجر کو بیان کرتا ہے ، جو پہلے کی دوآیات میں مذکورہ و نشانیوں کے حامل ہیں، ایک ایسی قابل توجہ تعبیر کے ساتھ جو ان کے اجر کی حد سے زیاده اہمیت کی ترجمانی کرتی ہے ۔۔ فرماتا ہے ، "کوئی شخص نہیں جانتا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک میں کیا اہم اجروثواب ان کے لیے چھپارکھے گئے ہیں:" (فلاتعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين) - 
 یہ بڑاعظیم اور بلند تراجر ہے جوان کے اعمال کے بدلے میں دیا گیا۔ 
 "کوئی شخص نہیں جانتا" کی تعبیر نیز "قرة عين" (آنکھوں کی روشنی اور ٹھنڈک کا باعث ہے ) کی تعبیران نعمتوں کی بے حساب عظمت کو بیان کرتی ہیں ، خصوصًاجب لفظ "نفس" سياق نفی میں نکرہ کی شکل میں آیا ہے اور عموم کا معنی دے رہا ہے اور ملائکۂ مقرب اور اولیاء اللہ سمیت تمام نفوس کو شامل ہے ۔
 "نفس" کی طرف اضافت کے بغیر "قرۃ اعین" کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ خدا کی نعمتیں جو آخرت کے گھر کے لیے سچے مومنین کے ثواب اوراجر کے طورپر مقرر کی گئی ہیں، اس طرح ہیں کہ ہر ایک کی آنکھوں کی روشنی اور بھنڈک کا سبب ہوں گی۔ 
 "قرة " مادہ " قر" (بروزن "حر" سے ٹھنڈک اور خنکی کے معنی میں ہے اور چونکہ مشہور ہے محبت اورشوق کے انسو ہمیشہ ٹھنڈک اورخنک اورغم و حسرت کے آنسوگرم اور سوزاں ہوتے ہیں "قرة اعین" کی تعبیر لغت عرب میں ایسی چیز کے معنی میں ہے جو انسان کی آنکھ کے ٹھنڈا ہونے کا سبب ہو .یعنی شوق اور محبت کے آ نسواپنی آنکھوں سے جاری کرتا ہے اور یہ انتہائی خوشحالی اور سرور کا لطیف کنایہ ہے۔ 
 لیکن فارسی زبان میں اس قسم کی تعبیر موجود نہیں ہے بلکہ ہم کہتے ہیں، اس کی اس کی  آنکھ کی روشنی کا سبب ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ موجود : فارسی کی  یہ تعبیر "یوسف ویعقوب"  کی قرانی داستان سے لی گئی ہو کہ قرآن کے بقول جس وقت بشارت دینےوالا یعقوب کے پاس آیا اور یوسف کا پیراہن ان کے چہرے پر رکھا تو ان کی نابینا آنکھیں روشن ہوگئیں ۔   (سوره یوسف آیت 52)۔ 
 اور یہ تعبیر زبردست سرور اور خوشی سے کنایہ ہے۔ 
 پیغمبیر اکرمؐ کی ایک حدیث میں ہم پڑھتے ہیں :
  "ان الله يقول اعددت لعبادي الصالحين مالا عين رأت ولا أذن 
  سمعت ، ولا خطر على قلب بشر! 
  "خدا فرماتا ہے میں نے ا پنے صالح بندوں کے لیے ایسی نعمتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ جنھیں نہ تو کسی انکھ 
  نے دیکھاہے اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کوئی فرو بشران کے متعلق سوچ سكتات ہے! ؎1 
 یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے ، جسے عظیم مفسر مرحوم طبرسی نے " مجمع البیان" میں بھی پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ آخریہ عظیم ثواب واجر کیوں مخفی رکھا گیاہے؟  
 اس کے بعد موصوف اس سوال کے تین جواب دیتے ہیں : 
 1- اس اہم اور نہایت قیمتی امور اس طرح ہیں کہ لفظوں سے آسانی کے ساتھ ان کی حقیقت کا ادرک نہیں کیا جاسکتا لہذا بسا اوقات ان کا مخفی رکھنا . زیادہ  فرحت بخش اور فصاحت کی ور سے زیادہ بلیغ ہے ۔ 
 2- اصولی طور پرجو چیز آنکھوں کی ٹھنڈک اور روشنی کا باعث ہو ، اس کا دامن اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ انسان کا علم ودانش اس کے تمام خصوصیات نہیں پہنچ ہوسکتا۔  
 3- چونکہ یہ اجر نماز تہجد کے لیے قرار دیا گیا ہے جو مخفی صورت میں ادا کی جاتی ہے ۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اس عمل کی جزاء بھی عظیم اور مخفی ہو ۔ توجہ رہے کہ گذشتہ آیت میں "تتجاني جنوبهم عن المضاجع" كا جملہ نماز شب کی طرف اشارہ ہے۔ 
 ایک حدیث میں امام جعفرصادق فرماتے ہیں : 
  " مامن حسنة الاولهاثواب مبين في القران، الا صلوة الليل، فان 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎     اس حدیث کو طبرسی سمیت بہت سے مفسرین نے منجلہ ان کے "طبرسی" نے "مجمع البیان" میں "آلوسی" نے "روح المعانی   میں "قرطبی" نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ، مشہور ترین "بخاری" اور "مسلم" نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  الله عزاسمہ لم یبین توابها لعظم خطرها ، قال : فلا تعلم نفس ما اخفی 
  لھم من قرة أعين" 
  "کوئی نیک عمل نہیں مگر یہ کہ اس کا واضح ثواب قران میں بیان ہوا ہے سوائے نماز تہجد کے ۔ خدائے 
  عظیم نے اس کے ثواب کو واضح طور پر بیان نہیں کیا۔ یہ اس کی اہمیت کی وجہ سے ہے ، اس لیے فرماتا 
  ہے کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ کیسے عمدہ ثواب جو آنکھوں کی روشنی اورٹھنڈک کا باعث ہیں ، ان کے 
  لیے پوشیدہ رکھے گئے ہیں ۔ ؎1
 لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر جیسا کہ پہلے ہم نے اشارہ کیا ہے ، عالم قیامت ایک ایسا جہان ہے ،جو اس جہان کی نسبت حد سے زیادہ وسیع ہے ۔ دنیاوی زندگی اس کے مقابلے میں ایسی ہے جس طرح دنیا کے مقابلے میں شکم مادر میں موجود بچے کی زندگی بلکہ وہ عالم اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ اور اصولی طور پر ہم جیسے دنیا کی چار دیواری میں مقید افراد کے لیے اس کے تمام اطراف و جہات قابل ورک نہیں ہیں ۔ بلکہ کسی کے لیے ابھی قابل تصور بھی نہیں۔ 
 ہم نے صرف اس کے بارے میں بات سنتے اور دور سے ایک سایہ کے مانند اسے دیکھتے ہیں ۔ لیکن جب تک اس و جهان والا ادراک اور نظرپیدا نہ کریں ، اس کی اہمیت کا درک ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ بچہ کے لیے شکم مادر میں بالفرض کامل عقل و حوش رکھتا ہو تو اس دنیا کی نعمتوں کا ادراک ناممکن ہے۔ 
 یہی تعبیرشہدا ئے راہ خدا کے بارے میں آئی ہے کہ جس وقت کوئی شہید زمین پر گرتا ہے تو زمین کہتی ہے ۔ آفرین ہے اے پاکیزہ روح بدن سے پرواز کر رہی ہے ، تیرے لیے بشارت اور خوشخبری ہو": ان لك مالا عين رأت ، ولااذن سمعت ، ولا خطر على قلب بشر)۔ ؎2
 بعد والی آیت اس تقابل کو جو گذشتہ آیات میں تھا ، زیادہ سراحت کے ساتھ واضح کرتے ہوئے کہتی ہے :"کیا وہ شخص جو مومن ہے مثل اس شخص کے ہے جو فاسق ہے ؟ نہیں ، یہ دونوں ہر گزبرابر نہیں ہیں"۔ (فمن كان مؤمنًا كمن كان فاسقًالایستوون)۔ 
 یہ جملہ استفہام انکاری کے طور پر بیان ہوا ہے، وہ استفہام جس کا جواب ہر انسان کی عقل وفطرت سے پیدا ہوتا کہ یہ دونوں ہر گزبرابرنہیں ہو سکتے ،اس کے باجود پھر بھی تاکید کے لیے "لا یستون " کا جملہ ذکر کیا ہے جو ان کے برابر نہ ہو نے کومزید واضح کرتا ہے. 
 اس آیت میں "فاسق" "مومن" کے مقابلے میں ذکر ہوا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فسق ایک وسیع مفہوم و رکھتاہے کہ جو کفر کوبھی شامل ہے اوردوسرے گناہوں کو بھی ، کیونکہ یہ لفظ اصل میں " فسقت الشعرة" (یعنی پھل 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1       "مجمع البیان" محل بحث آیات سے ذیل میں۔  
  ؎2       مجمع البیان ذیل آیہ ، 17 آل عمران  جلد 2 - تفسیر نمونہ جلد 3 اسی  آیت کے ذیل میں۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
اپنے چھلکے سے باہر نکلایا جب کھجور کی گھٹلی اپنے گودے سے جدا ہو اور باہر جاگرے) سے یہ جملہ لیا گیا ہے، پھرخد اور عقل کے حکم کی اطاعت سے خارج ہونے پر اطلاق ہوا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جو کفر اختیار کرتا ہے یا گناہوں کا مرتکب ہوتا تو وہ  پروردگار اور عقل و خرد کے فرمان سے خارج ہو جاتاہے ۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پھل جب تک اپنے چلکے اور خول کے اندر رہتاہے ، صحیح و سالم ہے اور جس وقت پوست و چھلکے سے خارج ہوجائے ، خراب ہوجاتا ہے  ،تواس بنا پر جو نہی انسان فاسق ہوتا ، فورًا خراب اور فاصد بھی ہو جاتا ہے۔ 
 عظیم مفسرین کی ایک  جماعت نے اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ ایک دن "ولید بن عقبہ" ۔؎1  نے حضرت علیؑ سے عرض کیا۔ نا البسط منک ۔ سنانًا" میں آپ سے زیادہ وسیع و فصیح تیز نیزہ رکھتا ہوں"۔ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے خیال میں تقریر اور جنگ دونوں میں حضرت سے بڑھا ہوا ہے)۔ 
 حضرت علیؑ نے اس کے جواب میں فرمایا "لیس کما تقول يا فاسق"  اے فاسق! جیسے تو کہتا ہے ویسا نہیں ہے"۔ (اس طرف اشارہ ہے کہ تو وہی شخص تو ہے۔ جس نے قبیلہ "بنی مصطلق" کی زکوۃ جمع کرنے کے وقت ان کے اسلام کے خلاف قیام کرنے کا الزام لگایا تھا اور خدا سوره حجرات کی آیت 6 (یاایها الذین آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ) ..... میں نے تیری تکذیب کی اور تجھے فاسق کہا۔ ؎2 
 بعض مفسرین سے یہاں اضافہ کیا ہے کہ آیہ "(افمن كان مؤمنا كمن كان فاسقًا" اس گفتگو کے بعد نازل ہوئی ہے اور "ولید" و "بنی مصلطق" کا واقعہ مدینہ میں رونما ہوا یوں معلوم ہوتا ہے  کہ یہ آیت کی مصداق ہر تطبیق کے قبیل میں سے ہے۔ 
 لیکن ان بعض مفسرین کے قول کے مطابق ، جو اوپر والی آیت کو اور اس کے بعد والی دو آیات کو مدنی سمجھتے میں کوئی مشکل باقی نہیں راہ جاتی اور کوئی مانع اور حرج نہیں ہے کہ یہ تین آیات اوہر والی گفتگو کے بعدنازل ہوئی ہوں۔ 
 بہرحال نہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے عمیق ایمان میں کوئی بحث و اختلاف ہے اور نہ ہی "ولید" کے فسق میں جن دونوں کی طرف قرآنی آیات میں اشارہ ہوا ہے۔ 
 بعد والی آیت میں اس عدم مساوات اور برابر نہ ہونے کو زیادہ وسیع شکل میں بیان کرتے ہوئے آیا ہے با قی رہے وہ جو ایمان لے آۓ اور عمل صالح انجام دیا، ان کے لیے بہشت جاوداں کے باغات ہوں گے ، ( اما الذین آمنوا وعملوا الضالحات فلهم حات 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     عقبہ (بروزن عقدہ)۔
  ؎2    اس روایت کو مرحوم  "طبرسی "ئے مجمع البیان میں اور "قرطبی" نے ا پنی تفسیر میں اور فاضل" برسوئی"  سے روح البیان میں نقل کیا ہے۔ قابل توجہ یہ کہ کتاب "الغابہ فی تعرفتہ الضحابہ"  میں ہے کہ تفسیر قرآن سے آگاہ افراد کے درمیان اختلاف نہیں ہے کی آیہ ان جاءكم فاسق بنيا ولید بن عقبہ کے بارے میں قبیلہ بنی مطلق کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الماوٰی۔ ؎1
 اس کے بعد مزید کہتاہے کہ یہ جنات مادی ان کے انجام شده اعمال کے بدلے میں (نزلابماکانو ویعملوں ) خداکی ان کے لیے مہمانی کا ذریعہ ہیں ۔
 "نزل" کی تعبیر جو ایسی عموما چیز کے لیے بولی جاتی ہے جو مہمان کی خاطر تواضع کے لیے آمادہ کرتے ہیں  اور یہ اس بات کی ان کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے اکہ مومنین کی جنت میں ہمیشہ مہمانوں کی طرح خاطر تواضح کی جاتی رہے گی ، جبکہ دوزخی جیسا کہ بعد والی آیت میں آنے گا قیدیوں کی طرح ہیں ۔جس وقت باہر نکلنے کی خواہش کریں گے تو انھیں پلٹا دیا جائے گا۔ 
 اوراگر ہم  دیکھتے ہیں کہ سورہ کہف کی آیہ 102 میں اسی طرح آیاہے: انا عتدنا جھنم للکافرین انُزُلًا  ہم نے جہنم کو کافرون کی خاطر وتواضح کے لیے آمادہ کیا ہے" حقیقت  میں  (فبشر ھم بعذاب الیم) انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے" کی قسم سےہے جو کنایہ ہے اس بات سے کہ بجاۓ پذیرائی (خاطر تواضح) کے سزا و عذاب ملے گا اور بشارت کی کہہ کر انھیں تہدید کرتا ہے. 
 بعض  کانظریہ ہے کہ "نزل" وہ پہلی چیزہے کہ جس  سےنئے وارد ہونے والے مہمان کی خاطر تواضع کی جاتی ہے (ہمارے زمانے میں وہی چائے اور شربت اس بناء پریہ امراس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ جنات مادی اپنی تمام نمعات و برکات کے ساتھ ان خدائی مہانوں کی پذیرائی کا پہلا مرحلہ ہے : اوران نعمات کے بعد ایسے برکات ہیں کہ جنہیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے۔ 
 لهم جنات" کی تعبیر ہوسکتا ہے کہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ خدا جنت کے باغات عاریتہ انھیں نہیں دیتا ، بلکہ ہمیشہ  کے لیے ان کی ملکیت میں دے دے گا۔ اس طرح سے کہ کبھی بھی میں ان نعمتوں کا زوال ان کے فکری سکون کو منتشر نہیں کرے گا۔ 
 اور بعد والی آیت میں ان کے نقطہ مقابل کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے "لیکن وہ لوگ جو فاسق ہو گئے ہیں اورا پنے  پروردگار کی اطاعت سے نکل گئے ہیں، ان کے لیے ہمیشہ رہنے کی جگہ ہمیشہ رہنے کی جگہ جہنم کی آگ ہے:" (واماالذین فقم و فما واهم النار) - 
 وہ ہمیشہ کے لیے اس وحشت ناک جگہ مقید اور محبوس ہیں ۔ اس طرح سے کہ "جس وقت اس سے نکلنا چاہیں گے ، انھیں واپس لوٹا دیا جائے گا"۔ ( كلما اراد وان يخرجوا منها امید وافيها)۔  
 اور"انھیں کہا جائے گا کہ چکھو تم اس کے عذاب کو جس کا ہمیشہ انکار کیا کرتے تھے": (وقيل لھم ذرقم عد اب النار الذي كنتم تكذبون)۔ 
 درباره ہم یہاں دیکھ رہے ہیں کہ عذاب الٰہی "کفروتکذیب" کے مقابلہ میں آیا ہے اور اس کا ثواب وجزا "عمل" کے مقابلہ 

سے ایس پیز کے دوسرے ہی سے انتظام و مل جانے کے معنی میں ہے اس کے اجہ مکان انسان اور میں ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1        مادی ماده ”اوئی" (بروزن قوی) سے ایک چیز کے دوسرے چیز سے انضام دہل جانے کے معنی میں ہے اس کے بعد مکان و مسکن اور رہائش گاہ کے لیے بولا گیا ہے۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 جو اس طرف اشارہ ہے کہ تنہا "ایمان" ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ عمل کےلیے سبب بھی بنے۔ لیکن کفراکیلا عذاب کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ عمل نہ بھی ہو ۔