Tafseer e Namoona

Topic

											

									  سوره الم سجده / آیه 15 - 20

										
																									
								

Ayat No : 15-20

: السجدة

إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩ ۱۵أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ لَا يَسْتَوُونَ ۱۸أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۱۹وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ۲۰

Translation

ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے افراد بس وہ ہیں جنہیں آیات کی یاد دلائی جاتی ہے تو سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمدوثنا کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں. کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے. جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے آرام کرنے کی جنتیں ہیں جو ان کے اعمال کی جزا ہیں. اور جن لوگوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکاناجہّنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے.

Tafseer

									  تفسیر
            خلقت انسان کے حیران کن مراحل:
 زیر بحث آیات پہلے تو اشاره اورتاکید ہیں ، ان توحیدی مباحث پر جو پہلے کی آیات میں گزرچکی ہیں جو چار مراحل میں خلاصہ ہوتی ہیں (توحید خالقیت ، حاکمیت ، ولایت اور ربوبیت) فرماتاہے"۔ وہ جیسے کہ ان صفات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، وہی ہے خدا کہ جو مخفی و آشکار سے باخبرہے اور ناقابل شکست اور مہربان ہے": ( ذالك عالم الغيب والشهادة و العزیز لزحیم)۔ 
 ظاہرہے کو چاہتا ہے کہ آسمان وزمین کے امور کی تدبیر کرے اور ان پرحاکم اور ولایت ، شفاعت اور خلاقیت کے قیام کا ذمہ دار ہو، اسے تمام چیزوں کے پنہان و آشکار سے آگاہ ہونا چاہیے ، کیونکہ آگاہی اور وسیع علم کے بغیر ان امور میں سے کوئی بھی امکان پزیر نہیں ہے۔ 
 اس کے ساتھ ساتھ ایسی ذات کو "عزیز" ( قدرت مند اور ناقابل شکست) ہونا چاہیے تاکہ ان اہم کاموں کو انجام دے سکے۔
 لیکن ایسی عزت و قدرت جو سنگدلی سے ملی ہوئی نہ ہو بلکہ رحمت اور لطف و کرم سے جڑواں ہو۔ 
 بعد والی آیت بطور عموم آفریش کے نظام احسن کی طرف بطور خاص اور خلقت انسان کے آغاز اور اس کے ارتقائی مراحل کی طرف بطور عام اشارہ ہے اور فرماتاہے"وہ وہی ہے جس نے جس چیز کو پیدا کیا بہت اچھا پیدا کیا": (الذي احسن كل شیء خلقه) - 
 ہرچیز کو جس شے کی ضرورت تھی اس نے دی ، دوسرے لفظوں میں خلقت عظیم محل کی بنیاد کو "نظام احسن" یعنی ایسے نظم و ضبط پر استوار کیا ، جس سے زیاده کامل کا تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ 
 تمام موجودات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی اور ہر ایک کو وہی کچھ عطا فرمایا جو وہ زبان حال سے چاہتا تھا۔ 
 اگر انسان کے وجود پرنگاہ کریں اوراس کے بعد ان کے مختلف کارخانوں میں سے ہر ایک کو مدنظررکھیں تو معلوم ہوگا ، کہ وہ ساخت ، حجم ، سالموں کی وضح اور کیفیت ان کی طرز کار بالکل اسی طرح خلق کیے گئے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ پر طریقہ پر انجام دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اعضاء کے درمیان اس طرح مربوط نظام اور ہم آہنگی عطاکی ہے کہ وہ سب بغیر استثناء کے یا تو ایک دوسرے پر موثر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
 اور یہی معنی بطور کلی تمام عالم پر حکم فرما ہے، باوجود یکہ اس کی مخلوقات خصوصًا زندہ موجودات کی دنیا میں تنوع پایا جاتا ہے اور بڑا فرق بھی۔