1- روح کاستقلال اوراس کی اصلیت
وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ ۱۰قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ۱۱وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ۱۲وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ۱۳فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۱۴
اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے - بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں. آپ کہہ دیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے اس کے بعد تم سب پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جاؤ گے. اور کاش آپ دیکھتے جب مجرمین پروردگار کی بارگاہ میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے - پروردگار ہم نے سب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں دوبارہ واپس کردے کہ ہم نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والوں میں ہیں. اور ہم چاہتے تو جبرا ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن ہماری طرف سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہم جہّنم کو جنات اور تمام گمراہ انسانوں سے بھردیں گے. لہذا تم لوگ اس بات کا مزہ چکھو کہ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو اِھلا دیا تھا تو ہم نے بھی تم کو نظرانداز کردیا ہے اب اپنے گزشتہ اعمال کے بدلے دائمی عذاب کا مزہ چکھو.
چند اہم نکات
1- روح کاستقلال اوراس کی اصلیت:
اوپر والی آیات میں سے پہلی آیت جوموت کے فرشتہ کے ذریعے قبض ارواح پر دلالت کرتی ہے، انسان کی روح کے استقلال کی دلیل ہے۔
کیونکہ "توفي" سے تعبیر جوحاصل کرنا اور قبض کرنا کے معنی میں ہے ، ا س بات کی دلیل ہے کہ بدن سے جدائی کے بعد روح نابود نہیں ہوتی بلکہ باقی رہ جاتی ہے
اور اصولًا اوپر والی آیت میں انسان کو روح یا نفس سے تعبیر کرنا اس معنی پر ایک اور گواہ ہے کیونکہ مادہ پرستوں کے عقیدے کے مطابق روح سالموں کے "فزیکل اور کمیکل" خواص
کے علاوہ کچھ نہیں جو بدن کے فناہوئے کے ساتھ نابود ہوجاتے ہیں جیسے گھڑی کے نابود ہونے کے ساتھ ہی اس کی سوئی کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔
اس نظریے کے مطابق روح کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسانی شخصیت کی محافظ ہو بلکہ اس کے جسم کے خواص کی ایک جزء ہے ، جسم کے ختم ہوجانے سے ختم
ہوجاتی ہے۔
روح کی اصلیت اور استقلال کے سلسلے میں ہمارے پاس متعدد فلسفی دلائل موجود ہیں۔ ان کا ایک گوشہ سورة و بنی اسرائیل کی آیت 85 کے ذیل میں جلد 12 میں اہم
بیان کرچکے ہیں ، یہاں پر مقصود صرف اس موضوع پرنقلی دلیل کو بیان کرنا تھا اور اوپر والی آیت کا شمار اس معنی پر دلالت کرنے والی آیات میں ہوتا ہے۔