Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ندامت اور بازگشت کا تقاضا

										
																									
								

Ayat No : 10-14

: السجدة

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ ۱۰قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ۱۱وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ۱۲وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ۱۳فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۱۴

Translation

اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے - بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں. آپ کہہ دیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے اس کے بعد تم سب پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جاؤ گے. اور کاش آپ دیکھتے جب مجرمین پروردگار کی بارگاہ میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے - پروردگار ہم نے سب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں دوبارہ واپس کردے کہ ہم نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والوں میں ہیں. اور ہم چاہتے تو جبرا ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن ہماری طرف سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہم جہّنم کو جنات اور تمام گمراہ انسانوں سے بھردیں گے. لہذا تم لوگ اس بات کا مزہ چکھو کہ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو اِھلا دیا تھا تو ہم نے بھی تم کو نظرانداز کردیا ہے اب اپنے گزشتہ اعمال کے بدلے دائمی عذاب کا مزہ چکھو.

Tafseer

									  تفسیر
           ندامت اور بازگشت کا تقاضا: 
 یہ آیات معاد کے بارے میں ایک بولتی ہوئی ناطق بحث کے ساتھ شرو ع ہورہی ہیں۔ اس کے دوسرے جہان میں "مجرمین" کی حالت کو بیان کرتا ہے اور مجموعی طور 

گذشتہ بحثوں کی تکمیل ہے جو "مبداء" کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ " مبداء و معاد" کی بحث قران مجید میں عام طورپرایک دوسرے سے ملی ہوئی بے ۔
 پہلے کہتا ہے "انہوں نے کہا کیا جس وقت ہم مرگئے اور مٹی ہو گئے اور زمین میں گم ہو گئے تونئی پیدائش پائیں گے"۔ (وقالوا اذا ضللنا في الارض وانا نفي خلق 

جدید)۔ 
 "زمین میں گم ہوجانے" کی تعبیر (ضللنافی الارض) اس طرف اشارہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد پانی مٹی طرح خاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہر ذرہ عوامل طبیعی اور 

غیرطبیعی کی بناء پرایک گوشہ میں جاپہنچتا ہے اور پھر اس کی کوئی چیز بھی باقی نظر نہیں آتی تاکہ اسے قیامت میں دوبارہ پلٹانے کا یقین دلائے۔ 
 لیکن حقیقت میں وہ اپنے اس کام سے قدرت خدا کے منکر نہیں ہیں ۔" بلکہ وہ اپنے پروردگار کی ملاقات کا انکارکرتے ہیں"۔ (ابل هم بلقاء ربھم کافرون)۔ 
 وہ چابتے ہیں کہ پروردگار کی ملاقات کے ہمرحلہ کا انکار کریں جو حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کا مرحلہ ہے اوراس کے بعد عمل میں آزادی حاصل کریں تاکہ جو 

کچھ وہ چاہتے ہیں انجام دیں۔ 
 درحقیقت یہ آیت سورہ قیامت کی پہلی آیات سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے جہاں قرآن نے کہا ہے :
  "ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامه بلٰی القادرين علٰى ان نسری 
  بنانه بل يريد الانسان لیفجر امامہ، یسئل ایان يوم القيامة" 
  " کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اس کی پراگندہ اور بکھری ہوئی ہڈیوں کو ہم جمع نہیں کر سکیں گے؟ ہم تو یہاں 
  تک قادر ہیں کہ تمھاری انگلیوں کے پوروں (کے خطوط) پہلے نظام کی طرف پلٹا دیں، ، لکین انسان کا بدف و 
  مقصد یہ ہے کہ وہ دن جو اس میں اس کے سامنے ہے (انکارِ قیامت کرکے) فسق و فجور اور گناہ کےساتھ گزار 
  دے ۔ اس لیے پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی"۔ (سورہ قیامت  3تا 6)
 اس بناء پر وہ استدلال کے لحاظ سے لالہے لنگڑے نہیں بلکہ ان کی تن آسانی نے ان کے دل پر حجاب ڈال رکھا ہے اوران کی بری نیتیں مسئلہ معاد کے قبول کرنے 

سے مانع ہیں۔ ورنہ وہی خدا جس نے مقناطیس کو بے اثر بخشا ہے کہ لوہے کے بہت ہی چھوٹے ذرات کوجومنوں مٹی کے اندر چھپے ہوتے ہیں، انہیں ایک گروش سے اپنی طرف جذب 

کرکے آسانی کے ساتھ انھیں جمع کرلیتا ہے ، کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ انسان کے جسم کے ذرات کے درمیان بھی اس قسم کی کشش پیدا کردے ؟
 کون شخص انکارکرسکتا ہے کہ ایک انسان کے جسم میں موجود مختلف پانی (اور جسم انسانی کا اکثر حصہ پانی پرہی مشتمل ہے) اوراسی طرح اس کے غذائی مواد میں 

سے ہرایک مثلًا ایک ہزار سال قبل ان کی ہر ہر جز اس عالم کے کسی گوشہ میں بکھری پڑی تھی ۔ ہرقطرہ ایک سمندر میں اور ہر ذره ایک اقلیم اور براعظم میں ، لیکن وہ بادل و بارش اور 

دوسرے قدرتی عوامل کے ذریعے جمع ہوئے اور آخرکار وجود انسان کو تشکیل دیا تو کونسا مقام تعجب ہے کہ پراگنده اور منتشر ہونے کے بعد دوبارہ پہلی حالت کو طرف پلٹ آئیں اور 

ایک دوسرے سے آملیں ؟ 
 بعد والی آیت ان کا جواب ایک دوسرے طریقے سے دیتی ہے ۔ کہتی ہے۔ یہ ٓتصور نہ کرو کہ تمھاری شخصیت تمھارے شخصیت اسی جسمانی بدن کے ساتھ ہے بلکہ 

تمھاری شخصیت کی اساس و بنیاد کو تمہاری روح تشکیل دیتی ہے اور وہ محفوظ ہے "کہہ دے کہ موت کا فرشتہ جو تم سب پر مقرر کیا ہے تمہاری (ورح) قبض کرتا ہے ، پھرتم اپنے 

پروردگار کی طرف پلٹ جاتےہو": (قال یتوفاكم ملک الموت الذى وكل بكم ثم الٰي ربكم ترجعون)۔ 
 "یوفاکم" کے مفہوم کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو مادہ "توفی" بروزن تصدی" میں ہے واپس لینے کے معنی میں ہے ۔ موت فنا اور نابودی کے معنی میں نہیں ہے 

بلکہ فرشتے کے ایک طرح سے آدمی کی روح کو قبضے میں لے لینے کے معنی میں ہے وہ روح جو وجود انسان کے اہم اور بنیادی حصہ کو تشکیل دیتی۔ 
 یہ ٹھیک ہے کہ قرآن معاد جسمانی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور روح اور مادی جسم کی بازگشت کو قیامت میں قطعی اور یقینی سمجھتا ہے ۔ لیکن اوپر والی آیت سے 

اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انسانی شخصیت کی اساس یہ مادی اجزاء نہیں ہیں جنہوں نے تمہاری تمام فکر کو اپنی مشغول کررکھا ہے بلکہ وہ روحانی جوہر ہے، جو خدا کی طرف 

سے آیا ہے اور اسی کی طرف  
لوٹ جاۓ گا۔
 اور خلاصہ کے طور پر اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اوپر والی یہ آیت معاد اور قیامت کے منکرین کو اس طرح جواب دیتی ہے کہ اگر تمھاری مشکل جسمانی اجزاء 

کامنتشر اور پراگندہ ہونا ہے تو تم خود و قدرت خدا کو قبول کرتے ہو اور اس کے منکر نہیں ہوا اور اگر اس پراگندگی کی وجہ سے انسان کی شخصیت کے اضمحلال اور نابوی والی مشکل 

ہے تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انسانی شخصیت کی بنیاد روح پراستوار ہے۔
 یہ اعتراض مشہورشبۂ" أكل ومأكول" سے ملتا جلتا ہے اور اس کا جواب میں دو مقامات پر ایک دوسرے سے شباہت رکھتا ہے۔ ؎1 
 ضمنًا اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ چند ایک قرآنی آیات میں "توفی" اور " قبض ارواح " کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے:
  " الله يتوفى الانفس حین موتها"۔  ( زمر ۔۔۔۔۔۔۔ 42)۔
  "خدا جانوں اور نفسوں کو موت کے وقت لے لیتا ہے"۔ 
 اور بعض آیات میں فرشتوں کی ایک جماعت کی طرف نسبت : 
  "الذين تـتوفاهم الملائكة ظالمي انفسهم"۔   (نحل ۔۔۔۔۔ 28 )
  وہ کہ فرشتے جن کی ارواح کو قبض کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ ظالم وستمگر لوگ ہیں" ....) 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   شبه "اكل ومأ كول" کے سلسلہ میں مزید پروضاحت اور اس کے تفصیلی جواب کے لیے تفسیر نمونہ کی جلد 2 سوره بقرہ کی آیت 260 ذیل میں ملاخطہ فرمائیں۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 اور زیر بحث آیات میں قبض ارواح کی نسبت "ملک الموت" (موت کے فرشتہ کی طرف دی گئی ہے۔
 اگر غور سے دیکھا جاۓ توان تعبیروں کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے۔ "ملک الموت" جنس کا معنی رکھتاہے اور ان تمام فرشتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور یا 

پھران کے رئیس اور سب سے بڑے فرشتے کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ تمام فرشتے  حکم خدا سے قبض روح کرتے ہیں ، بعد خدا کی طرف بھی نسبت دی جاسکتی ہے . 
 اس کے بعد ان کافر مجرم اور معاد کے منکرین کی کیفیت جو قیامت میں اس کے مختلف مناظر کو مشاہدہ کرنے سے ہوگی۔ اپنے کیے پرسخت اور اور پشیمان ہوں گے۔ 

اس طرح جسم اور ان کی تصویر کشی کرتے بوئے کہتا ہے۔ اگر تو دیکھے مجرمین کو جس وقت کہ وہ اپنے پروردگار کے سامنے سر نیچے کیے توۓ کہیں گے ۔ پروردگارجو کچھ 

تونے وعدہ کیا تھا، اس کو ہم نے دیکھا اور سنا ، ہم اپنے کیے پر نادم ہیں۔ ہمیں واپس پلٹادے تاکہ ہم عمل صالح انجام دیں . ہم اس جہان قیامت پریقین رکھتے ہیں"۔ (توتم تعجب میں ڈوب 

جاؤگے)۔ (ولوتری اذ المجرمون ناكسوا رءوسھم عندربھم ربنا البصرنا وسمعنا فارجعنا نعمل صالحًا انا مرقنون)۔ ؎1 
 یقینًا آپ تعجب کریں گے کہ کیا یہ سر نیچے کئے ہوئے نادم اور پشیمان افراد وہی مغرور، سرکش اور منہ زور لوگ ہیں جو دنیامیں کسی حقیقت کے مقابلہ میں سر نہیں 

جھکاتےتھے؟ لیکن اب جبکہ قیامت کے مناظر کو دیکھیں گے اور مقام شہود پر پہنچ جائیں گے.تو کلی طور پر تغیر ہوکر بدل جائیں گے ۔ لیکن بغیر اور بیداری جلدی گزر جانے والی ہے 

اور قران کی دوسری آیات کے مطابق اگر اس جہان کی طرف آئیں تو اپنی اسی روش و طریقہ کو جاری رکھیں گے۔ (انعام ۔۔۔۔ 28 ). 
 "ناكس"  "نكس" (بروزن عکس) کے مادہ سے کسی چیز کا اوندھے منہ ہونے کے معنی میں ہے۔ لیکن یہاں سر نیچے کرنے کے معنی میں ہے. 
 "ابصرنا" (ہم نے دیکھا ہے) کو "سمعنا"  (ہم نے سنا ہے) پر مقدم رکھنا اس بناء پر ہے کہ قیامت میں پہلے انسان اس کے مناظر سے رو بروہوگا اور پھر اس کے 

بعدخدا اور اس کے فرشتوں کی باز پرس کوسنے گا۔ 
 ضمنا جو کچھ ہم نے کہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "مجرمین" سے مراد یہاں کفار اور خصوصیت سے قیامت کے بہرحال یہ پہلا موقع نہیں کہ ہم آیات قرآنی میں 

اس مسئلہ سے روبرو ہوتے ہیں کہ مجرمین نتائج اعمال کے اور عذاب الٰہی کے آثارکے مشاہدے سے سخت پریشان ہوں گے اور دنیا کی طرف بازگشت کا تقاضا کریں گے ۔ حالانکہ سنت 

الٰہی کی لحاظ سے اس قسم کی بازگشت امکان نہیں رکھتی ، جس طرح کہ نوزاد بچے کی بازگشت رحم مادر کی طرف اور درخت سے 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     اس آیہ شریفہ "لو" شرطیہ ہے اور "ترٰی" کا جملہ اس کی شرط ہے اور اس  جزا محذوف ہے اور تقدیری طور پراس طرح ہے۔  ولو تري اذ المجرمون ...... لرأيت عجبا - ربنا 

ابصرنا کے جملہ کا بھی ایک محزوف ہے اور وہ دراصل " یفولون ربنا ابصرنا" ہے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جدا شدہ پھل کی بازگشت درخت کی طرف ممکن نہیں ہوتی۔ 
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مجرمین کا دنیا کی طرف بازگشت کا تقاضا صرف عمل صالح انجام دینے کے لیے ہے ، اوراس سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ 

قیامت میں سرمایہ نجات صرف اعمال صالح ہی ہیں۔ ایسے اعمال جو پاک اور ایمان لبریزاورخالص نیت سے انجام پائیں۔ 
 اور چونکہ ایمان کو قبول کرنے کے لئے آیت کا سارا اصرار اور زیادہ زور ممکن ہے ، یہ تو ہم پیدا کرے کہ کیا خدا اس قدر قدرت و توانانی نہیں رکھتا کہ نورایمان 

کا پرتو ان کے دل میں ڈال دے ؟ تو بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے۔ "اگر ہم چاہتے تو ہر انسان کو(جبری طور پر) ضروری ہدایت دے دیتے": (ولو تینا كل نفس هداها) - 
 یقینًا ہم ایسی قدرت رکھتے ہیں لیکن ایسا ایمان جو ہمارے جبری طریقے سے وجود میں آ ئے تو ایسا ایمان کی چنداں قمیت نہیں ہے ، لہذا میں نے ارادہ کرلیا کہ بنی نوع 

انسان کو یہ اعزاز اور افتخار بخشیش کہ وه "مختار" ہو اور ارتقائی مراحل اپنے قدموں سے طے کرے۔
 لہذا آیت کے آخر میں فرماتا ہے ۔" میں نے انھیں آزاد چھوڑ دیا ، لیکن مقرر کردیا کہ دوزخ کوبے ایمان اور گناہگار جن و انس کے تمام افراد سے بھردوں": (ولكن حق 

انقرل منی لا لملئن جهنم من الجنة والناس اجمعین) ۔ 
 جی ہاں انھوں نے اپنے غلط اختیار سے اس راہ کوطے کیا ہے لہذا وہ سزا اور عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اور ہم نے بھی قطعی ارادہ کرلیا ہے کہ دوزخ کو ان سے 

بھردیں ۔ 
 اگر اس بات کو مدنظر رکھاجائے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ، اسی طرح قرآن مجید کی سینکڑوں آیات کو دیکھا جائے جوانسان کو مختار ، وصاحب اراده مکلف بتکالیف 

شرعیہ اپنے اعمال کا جواب ده ، انبیاء ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ذریعہ قابل ہدایت و اصلاح سمجھتی ہیں تو اوپر والی آیت کے بارے میں ہر قسم کا تو ہم دور ہوجاتا ہے کہ یہ جبر 

کی دلیل ہے جیسا کہ فخررازی وغیرہ نے خیال کیا ہے ۔
 ہوسکتا ہے کہ اوپر والا دو ٹوک فیصلہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ کہیں یہ تصورنہ کرنا کہ خدا کی رحمانیت ورحمیت گناہوں سے آلودہ اورستم گرمجرموں کی سزا 

اور عذاب سے مانع ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آیات رحمت سے مغرور ہوجاؤ اور اپنے آپ کو خدا کی سزا اور عذاب سے معاف تصور کرو۔ کیونکہ اس کی رحمت کا اپنا مقام ہے اور 

غضب کا اپنا مقام۔ 
 "لاملئن" کے جملہ کے اول میں لام قسم اور اخر میں نون تاکید کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اس وعدہ کو پورا کرےگا اور دوزخ کو 

ان دوزخیوں سے بھر دے گا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو حکمت کے خلاف ہے۔ 
 اس لیے بعد کی آیت میں کہتا ہے ، ہم ان دوزخیوں سے کہیں گے کہ جہنم کا عذاب اس بناء پر چکھو کہ آج کی ملاقات کوتم بھول گئے تھے ۔ اور ہم نے بھی تمھیں 

فراموشی کے حوالے کردیا"۔ (فذرقم ا بما نسيتم لقاء يومك هذا الادنينا كم )۔
 "اورنیز ہمیشگی کے عذاب کو ان اعمال کی وجہ سے چکھو ، جنہیں تم انجام دیتے تھے"۔ (وذوقم اعذاب الخلد بما کنتم تعملون) - 
 اس آیت سے ایک بار پھر معلوم ہوتا ہے ، قیامت کی دادگاہ  اور علامت کو بھول جانا ہی انسان کی بدابختی کا اصل سر چشمہ ہے اور یہی وہ صورت ہے کہ جس میں وہ 

اپنے آپ کو قانون شکنی اور مظالم کے سلسلہ میں آزاد سمجھتا ہے ، نیز اس آیت سے یہ بات کا بھی اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ابدی اور ہمیشہ کی سزا و عذاب ان اعمال کی وجہ 

سے ہی ہے جنہیں انسان خود انجام دیتا ہے۔ نہ کوئی اور چیز! ؎1
 ضمنًا: بندوں کے بارے میں پروردگار کی خاموشی سے مراد یہاں خدا کی بے اعتنائی ، ترک حمایت اور فریاد رسی نہ کرنا ہے۔ ورنہ سارا جہان ہمیشہ پروردگار کے 

سامنے ہے ، اور اس کے بارے میں فراموش ایک بے معنی سی بات ہے۔