Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خلاصه 

										
																									
								

Ayat No : 6-9

: السجدة

ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ۶الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ۷ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ۸ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ ۹

Translation

وہ خدا حاضر و غائب سب کا جاننے والا اور صاحبِ عزّت و مہربان ہے. اس نے ہر چیز کو حسوُ کے ساتھ بنایا ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے. اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قرار دیا ہے. اس کے بعد اسے برابر کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے اور تمہارے لئے کان, آنکھ اور دل بنادیئے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرتے ہو.

Tafseer

									    خلاصه 
  دھنده ای کہ بہ گل نکہت و بہ گل جان واد 
  بہ  ھر  کہ  آنچہ سزا  دید حکمتش آن داوا 
  وہ جس نے پھول کو خوشبو اور مٹی میں روح پھونکی جو میں جس کے لائق تھا، خالق حکمت نے اسے وہی  کچھ دیا ، جی ہاں وہی ہے جو پھولوں کو انواع و اقسام کی دل انگیز خوشبو میں عطا کرتا ہے اور وہی ہے جو خاک اورمٹی کو روح اور جان دیتا ہے اوراس سے ایک آزاد اور باہوش انسان کو پیدا کرتا ہے اور اسی سیاہ مٹی سے کبھی انواع و اقسام کے پھول کبھی انسان اور کبھی دوسرے موجودات کی انواع پیدا کرتا ہے ، یہاں تک کہ خود کہ مٹی کو بھی اپنی حد تک جس چیز کا حامل ہونا چاہئے ، اسی کی حامل ہے۔ 
 اسی طرح کی گفتگو ہم سورہ طٰہٰ کی آیت 50 میں حضرت موسٰی و ہارون کے قول سے پڑھتے ہیں: 
  "ربنا الذي أعطٰى كل شي خلقه ثم ھدٰی " ( سورة طه) 
  "ہمارا پروردگار تو وہ ہے ، جس نے ہر موجود کو جوکچھ اس کی آفرنیش کے لیے ضروری تھا عطا کیا اور پھر اس کی تمام مراحل وجود میں رہبری کی "۔ 
 یہاں پر ایک سوال برائیوں کی خلقت اور "کائنات کے احسن نظام" کے ساتھ سازگاری کی کیفیت کے بارے میں سامنے آتا ہے، جسے ہم انشاءاللہ نکات کی بحث میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔ 
 اس کے بعد قرآن اس"آفاق" کی مقدمہ اورتمہید کو ذکر کرنے کے بعد"الفنس"  کی بحث میں وارد ہوتا ہے۔ اور جس طرح آفاقی آیات کی بحث میں توحید کی مختلف اقسام کے بارے میں گفتگو کی تھی ، یہاں انسان کے بارے میں چند عظیم نعمتوں کی بات کرتا ہے۔ 
 پہلے کہتا ہے "خدا نے انسان کی خلقت کی ابتداءمٹی سے فرمائی ": ( وبدأ خلق الانسان من طين )۔ 
 تاکہ اس سے ایک طرف تواپنی قدرت کی عظمت بھی بیان کرے کہ اس قسم کی برجستہ مخلوق کو اس طرح کے سادہ اور معمولی قمیت کے موجود سے خلق کیا ہے اور اس "دل آویز "نقش کو" پانی اورمٹی" سے خلق فرمایا ہے۔ 
 اور اس انسان کوتنبیہ اور خبردار بھی کرے کہ تو کہاں سے آیاہے اور کہاں جائے گا ؟ 
 واضح رہے کہ یہ آیت "آدم" کی خلقت کے بارے میں گفتگو کررہی ہے ،نہ کے تمام انسانوں کے بارے میں کیونکہ ان کی نسل کو جاری رکھنا بعد والی آیت میں پیش کیا گیاہے اور اس آیت کا ظہور واضح دلیل ہے ، انسان کی مستقل خلقت اور (کم از کم نوع انسانی کے بارے میں) تحوال انواع کے مفروضہ کی نفی کے لیے یعنی نظریہ ارتقاء کی نفی کی ہے۔ 
 اگرچہ بعض لوگوں نے اس آیت کی اس طرح تفسیر کرنا چاہی ہے کہ وہ انواع کے ارتقاء کے ساتھ بھی سازگارہو ۔ کیونکہ انسان کی خلقت پست ترانواع کی طرف لوٹتی ہے اور پھر وہ پانی اور مٹی پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ 
 لیکن آیت کی ظاہری تعبیر یہ ہے کہ "آدم" اور "مٹی"  کے درمیان دوسری بے شمارانواع  زنده موجودات کا فاصلہ نہیں تھا بلکہ انسان کی خلقت بغیر کسی واسطہ کے مٹی سے ہی صورت پزیر ہوئی ہے۔ 
 البتہ قرآن نے دوسری جاندار انواع کے بارے میں گفتگو نہیں کی ہے۔ 
 یہ یعنی سورہ آل عمران کی آیت 59 کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیادہ واضح بوجاتا ہے ، جہاں وہ کہتا ہے : 
  " أن مثل عیسٰی عند الله كمثل أدم خلقه من تراب"۔  (آل عمران)۔ 
  "عیسٰی کی باپ کے بغیرخلقت کوئی عجیب چیز نہیں ہے وہ آدم کی خلقت کی طرح ہے کہ مٹی سے پیدا کیا"۔ 
 اورسورۂ حجرکی آیہ 26 میں فرماتا ہے: 
  "ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأ مسنون"  
  "ہم نے انسان کو خشک مٹی سے کہ جو بدبودا مٹی سے پیدا ہوئی تھی بنایا ہے"۔ 
 ان تمام آیات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم کی خلقت یامستقل مخلوق کی صورت میں خشک اور گیلی مٹی سے وجود میں آئی ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ تحول انواع کامفروضہ ہرگز ایک قطعی ویقینی علمی مسئلہ کی صورت اختیار کیے ہوئے نہیں ہے تاکہ ہم اوپر والی آیات کے ساتھ اس کے تضاد کی وجہ سے ان کی کسی اور طرح سے تفسیر کریں  ، دوسرے لفظوں میں جب تک واضح قرینہ ظواہرآیات کے برخلاف موجود نہ ہو تو انھیں ان کے ظاہری معنی پرہی تطبیق کرنا ہوگی اور آدم کی مستقل خلقت کا مطالعہ بھی بالکل یہی ہے۔ 
 بعد والی آیت نسل انسانی کی خلقت اور اولاد آدم کی ولادت کے بعد کے مراحل کی کیفیت کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے ۔"پھرخدا نے اس کی نسل کوناچیز اور بے قدرپانی کے نچوڑنے سے قرارديا":  (ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهين)۔ 
 یہاں" جعل" دراصل خلقت کے معنی میں ہے ۔ اور"نسل" اولاد اور تمام مراحل میں اولاد در اولاد کے معنی میں ہے۔ 
 "سلاله " اصل میں ہر چیز کا خالص اور نچوڑ کے معنی میں ہے اور یہاں پر مراد آدمی کا نطفہ ہے۔ جو حقیقت میں اس کے کل وجود کا نچوڑ ہوتا ہے اور اولاد کی پیدائیش مبداء اور نسل کو جاری رکھنے کا منبع ہے۔ 
 یہ پانی جوظاہرًا بے  قدرو قمیت اوراپنی ساخت اوراس میں تیرنے والے حیاتیاتی سالموں کے لحاظ سے اور اس طرح مخصوص مائع اورسیال ترکیب کے لحاظ سے کہ جس میں سالمے تیرتے رہتے ہیں ، بہت ہی ظریف اور حد سے زیادہ پچیدہ ہے اور عظمت پروردگار اور اس کے علم و قدرت کی نشانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور لفظ "مہین" جوضعیف ، حقیر اور ناچیز کے معنی میں ہے ، اس کي ظاہر وضع اور کیفیت کی طرف اشارہ ہے ، ورنہ یوں تو مرموز ترین  موجودات میں سے ہے۔ 
 بعد والی آیت رحم کی دنیا میں انسانی ارتقاء کے پیچیدہ اوراسی طرح ان مراحل کی طرف اشارہ ہے، جو آدم نے مٹی سے خلقت کے وقت طے کیے تھے ، فرماتا ہے :" پھرانسان کے بدن کوموزوں بنایا:" (ثم سواہ)۔ 
  "اور اپنی روح میں سے اس میں پھونکا": (ونفخ فيہ من روحه"۔ 
  "اور تمھارے لیے کان ، آنکھیں اور دل قرار دیئے"۔ (وجعل لكم السمع والابصار و الافدۃ)- 
 "لیکن بہت کم تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے بو:" (قليلًا ماتشكرون)۔ 
 "سواہ " مادہ "تسوية" سے تکمیل کرنے کے معنی میں ہے اور یہ ان تمام مراحل کی طرف اشارہ ہے کہ جنہیں انسان نطفہ کی صورت سے لے کر اس  مرحلہ تک جبکہ اس کے بدن کے تمام اعضاء ظاہر ہوتے ہیں طے کرتا ہے اور اسی طرح وہ مراحل کہ جو آدم نے مٹی سے خلق ہونے سے لے کر نفخ روح تک طے کیے تھے ۔ ؎1 
 "نفخ" (پھونکنے کی تعبیر روح کے آدمی کے بدن میں روح کے حلول سے کنایہ ہے ، گویا اسے ہوا اور تنفس تشبیہ دی گئی ہے۔ اگرچہ نہ یہ معنی مراد ہے اورنہ وہ۔ 
 اور اگر کہا جائے کہ انسان کا نطفہ تو ابتداء ہی سے ، جب کہ وہ رحم میں قرار پاتا ہے اور اس سے پہلے بھی توا یک زندہ موجود ہے ، تو پھراس بناء پر نفخ روح کا کیا معنی ہے؟ 
 تو ہمارا جواب یہ ہے کہ ابتداء میں جب نطفہ منعقد ہوتا ہے تو صرف ایک قسم کی حیات نباتی کا حامل ہوتا ہے ، یعنی صرف کا غذا حاصل کرتا اور نشو و نما پاتا ہے  لیکن نہ تو اس میں حس وحرکت جو "حیات حیوانی"  کی نشانی ہے اور نہ ہی قوت ادراک جو "حیات انسانی" کی نشانی ہے موجود ہوتی ہے۔ 
 لیکن رحم میں نطفہ کا ارتقاء: اس مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ حرکت کرنے لگتا ہے اور تدریجًا دوسری انسانی طاقتیں اس میں زندہ ہوجاتی ہیں اور یہ وہی مرحلہ ہے ، مجھے قران نفخ روح سے تعبیر کرتا ہے۔ 
 "روح" کی "خدا"  کی طرف اضافت اصطلاح کے مطابق " اضافت تشریفی" ہے یعنی ایک زبردست قمیتی اور یاشرافت روح جو اس قابل ہے کہ اسے ورح خدا کا نام دیا جائے انسان میں پھونکی جاتی ہے اور یہ بات اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ انسان اگرچہ "مادی جہات" کے لحاظ سے "تاریکی مٹی" یا "بے قدرقیمت پانی" سے ہے. لیکن معنوی اور روحانی لحاظ سے " روح الٰہی کو حامل ہے۔ 
 ایک طرف تو اس کا وجود مٹی پر اور دوسری طرف عرش پروردگار پر جاکر ختم ہوجاتا ہے اور ایک حیران کن معجون ہے: 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1   قابل توجہ یہ ہے کہ بعض نے اس آیت کو صرف جنینی ارتقاء کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور بعض نے احتمال دیابے ممکن ہے کہ آدم کے مٹی سے پیدا ہونے کے بعد جو مراحل طے کئے ہیں ، صرف اس کی ناظر ہو (کیونکہ قران کی دوسری آیات میں بعینہ یہی تعبیرات خلقت آدم کے بارے میں آئی ہیں لیکن دونوں کی طرف لوٹے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ آدم کی مٹی سے خلقت بھی اور نطفہ کے پانی سے بھی اس کی نسل نے بھی ان مراحل کو طے کیا ہے اور طے کرتے رہتے ہیں۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
"کز فرشتہ سرشتہ وزحیوان" (فرشتہ اور حیوان کامعجون مرکب ہے) ۔ اور ان دو پہلوؤں کے حامل ہونے کی وجہ ہے اس میں قوس صعودي ونزولی اور تکامل وانحطاط حد سے زیادہ وسیع ہے ، ؎1 
 قرآن کے آخری مرحلہ میں جو خلقت انسان کا پانچواں مرحلہ شمار ہوتا ہے ، کان اور آنکھ اور دل ایسی نعمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے. البتہ یہاں مقصد ان اعضا کی خلقت نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ خلقت تو نفخ روح سے پہلے صورت پذیر ہوتی ہے ، بلکہ  مراد سننے ، دیکنھے اور درک وخرد کی حس ہے ۔
 یہ جو تمام "ظاہری" اور "باطنی" حواس میں سے صرف ان تین پر اکتفا کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اہم ترین ظاہری حواس جو انسان اور اس کی بیرونی دنیا کے درمیان طاقت وررابطہ نمائی کرتے ہیں، وہ کان اور آنکھ ہیں ۔ کان  آوازوں کا ادراک کرتے ہیں ــــــ خاص کرتعلیم وتربیت ان کے ذریعے ہی انجام پاتے ہیں اور آنکھ بیرونی دنیا اور اس عالم کے مناظر کے دیکھنے کا ذریعہ ہے ۔
 اورعقل و خرد کی قوت انسان کے باطنی حواس میں سے اہم ترین حس ہے ، جو دوسرے لفظوں میں وجود بشرپر حکمران ہے۔ 
 جالب توجہ یہ کہ "افدة"  "فؤاد" کی جمع ہے کہ جو قلب (دل)  کے معنی میں ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ظریف و عمدہ و معنی رکھتا ہے ۔ یہ لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے ، جہاں "افرو ختگی"   (روشنی)  "ارپختگی" ہو۔ 
 اور اس طرح سے خدا نے ا س آیت میں شناخت اور معرفت کے اہم ترین آلات جو انسان کے وجود کے  "ظاہر" و "باطن" میں ہیں ، بیان کیے ہیں کیونکہ علوم انسانی یا تو "تجربہ" کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں ، اور اس کا ذریعہ آنکھ اور کان ہیں 
 اورعقلی تجزیہ و تحلیل اور استدلالات کے ذرایعہ ہوتا ہے اور ان کا ذریعہ عقل و خرد ہے کہ قرآن میں وہ "افده"  سے تعبیر ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ ادراکات جو وحی ، انشراق اور شہود کے طریقہ سے قلبِ انسان میں صورت پذیر ہوتے ہیں ۔ وہ بھی انہی "افہدہ" کے وسیلہ سے ہو تے ہیں۔ 
 اگر شناخت اور پہچان کے یہ ذرائع انسان سے چھین لیے جائیں تو اس کے وجود کی قدرو قیمت مٹھی بھر خاک اور سنگریزوں کی حدتک سقوط کر جائے گی ۔ اسی بناء پرزیربحث آیت کے آخر میں انسانوں کو ان عظیم نعمتوں کی شکر گزارہی کے مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہے ۔ بہت کم اس کا شکربجالاتے ہو ، جو اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر بھی ان عظیم عظمتوں کا شکر بجالاؤ بہ پھر بھی کم ہے۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    اس سلسلہ میں تفسیر نمونہ کی جلد نمبر 11 میں سورۂ حجر کی آیت 29 کے ذیل میں بھی ہم بحث کرچکے ہیں۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------