Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خلقت انسان کے حیران کن مراحل

										
																									
								

Ayat No : 6-9

: السجدة

ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ۶الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ۷ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ۸ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ ۹

Translation

وہ خدا حاضر و غائب سب کا جاننے والا اور صاحبِ عزّت و مہربان ہے. اس نے ہر چیز کو حسوُ کے ساتھ بنایا ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے. اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قرار دیا ہے. اس کے بعد اسے برابر کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے اور تمہارے لئے کان, آنکھ اور دل بنادیئے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرتے ہو.

Tafseer

									  تفسیر
            خلقت انسان کے حیران کن مراحل:
 زیر بحث آیات پہلے تو اشاره اورتاکید ہیں ، ان توحیدی مباحث پر جو پہلے کی آیات میں گزرچکی ہیں جو چار مراحل میں خلاصہ ہوتی ہیں (توحید خالقیت ، حاکمیت ، ولایت اور ربوبیت) فرماتاہے"۔ وہ جیسے کہ ان صفات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، وہی ہے خدا کہ جو مخفی و آشکار سے باخبرہے اور ناقابل شکست اور مہربان ہے": ( ذالك عالم الغيب والشهادة و العزیز لزحیم)۔ 
 ظاہرہے کو چاہتا ہے کہ آسمان وزمین کے امور کی تدبیر کرے اور ان پرحاکم اور ولایت ، شفاعت اور خلاقیت کے قیام کا ذمہ دار ہو، اسے تمام چیزوں کے پنہان و آشکار سے آگاہ ہونا چاہیے ، کیونکہ آگاہی اور وسیع علم کے بغیر ان امور میں سے کوئی بھی امکان پزیر نہیں ہے۔ 
 اس کے ساتھ ساتھ ایسی ذات کو "عزیز" ( قدرت مند اور ناقابل شکست) ہونا چاہیے تاکہ ان اہم کاموں کو انجام دے سکے۔
 لیکن ایسی عزت و قدرت جو سنگدلی سے ملی ہوئی نہ ہو بلکہ رحمت اور لطف و کرم سے جڑواں ہو۔ 
 بعد والی آیت بطور عموم آفریش کے نظام احسن کی طرف بطور خاص اور خلقت انسان کے آغاز اور اس کے ارتقائی مراحل کی طرف بطور عام اشارہ ہے اور فرماتاہے"وہ وہی ہے جس نے جس چیز کو پیدا کیا بہت اچھا پیدا کیا": (الذي احسن كل شیء خلقه) - 
 ہرچیز کو جس شے کی ضرورت تھی اس نے دی ، دوسرے لفظوں میں خلقت عظیم محل کی بنیاد کو "نظام احسن" یعنی ایسے نظم و ضبط پر استوار کیا ، جس سے زیاده کامل کا تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ 
 تمام موجودات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی اور ہر ایک کو وہی کچھ عطا فرمایا جو وہ زبان حال سے چاہتا تھا۔ 
 اگر انسان کے وجود پرنگاہ کریں اوراس کے بعد ان کے مختلف کارخانوں میں سے ہر ایک کو مدنظررکھیں تو معلوم ہوگا ، کہ وہ ساخت ، حجم ، سالموں کی وضح اور کیفیت ان کی طرز کار بالکل اسی طرح خلق کیے گئے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ پر طریقہ پر انجام دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اعضاء کے درمیان اس طرح مربوط نظام اور ہم آہنگی عطاکی ہے کہ وہ سب بغیر استثناء کے یا تو ایک دوسرے پر موثر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
 اور یہی معنی بطور کلی تمام عالم پر حکم فرما ہے، باوجود یکہ اس کی مخلوقات خصوصًا زندہ موجودات کی دنیا میں تنوع پایا جاتا ہے اور بڑا فرق بھی۔