ایک نکتہ
ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ۶الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ۷ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ۸وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ۱۲
وہ خدا حاضر و غائب سب کا جاننے والا اور صاحبِ عزّت و مہربان ہے. اس نے ہر چیز کو حسوُ کے ساتھ بنایا ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے. اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قرار دیا ہے. اور کاش آپ دیکھتے جب مجرمین پروردگار کی بارگاہ میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے - پروردگار ہم نے سب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں دوبارہ واپس کردے کہ ہم نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والوں میں ہیں.
ایک نکتہ
مٹی سے آدمؑ کی خلقت کی کیفیت :
اگرچہ قرآن کی مختلف آیات میں کبھی تو "مٹی" سے انسان کی خلقت کی گفتگو کی ہے (جیسے اوپر والی آیات میں) سورہ اسراء کی آیت 61 میں آدم و ابلیس کی داستان میں آیا ہے :
" فسجدوا الا ابليس قال ءاسجد لمن خلقت طينًا"
"تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اس نے کہا، کیا میں اس کو سجدہ کروں جومٹی سے پیدا شدہ پے"؟ (سورۂ اسراء ۔۔۔۔۔۔۔ 61 )
اور کبھی پانی سے خلقت کی گفتگو کی ہے۔ مثلًا "وجعلنا من السماء كل شيء حي "
(انبیاء ۔۔۔۔۔۔ 30)
لیکن واضح رہے کہ یہ سب چیزیں ایک ہی مطلب کی طرف لوٹتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جگہ بھی کہ جہاں آدمؑ کی "تراب" (مٹی ، سے خلقت کی گفتگو ہے ۔ "ان مثل عيسٰي عندالله كمثل أدم خلقه من تراب" (آل عمران - 59) کیونکہ مراد گیلی مٹی ہے ۔ (یعنی گاراہے)۔
یہاں پور دونکتے واضح ہو جاتے ہیں :
(1) جن لوگوں نے احتمال یہ دیا ہے کہ انسان کی مٹی سے خلقت سے مراد یہ ہے کہ افراد بشر نباتات سے براہ راست یا غیرمستقیم طور پر غذا حاصل کرتے ہیں اور نباتات میں سارے مٹی سے ہیں ، ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ قرآن کی آیات ایک دوسرے کا تفسیر کرتی ہیں اور زیر بحث آیات کے قرینہ سے "خود آدمؑ" کی خلقت کی طرف اشارہ ہیں جومٹی سے پیدا ہوئے تھے۔
(2) یہ تمام آیات "نظریہ ارتقاء" کی نفی پر دلیل ہیں (کم از کم انسان کے بارے میں) اور نوع بشر جو"آدمؑ" پر منتہی ہوتی ہےایک مستقل خلقت کی حامل ہے۔
اورجن لوگوں نے یہ گمان کیا کہ مٹی سے خلقت والی آیات نوع انسانی کی طرف بیں جو ہزار ہاواسطوں سے اکیلے اورطاق سالمے والے موجودات کی طرف لوٹتی ہیں ، اور وہ آخری مفروضات کی بناء پر سمندروں کے ساحلوں کی دلدل سے وجودمیں آۓ ہے۔
باقی رہے خود حضرت آدم وہ ایک فرد تھے کہ جھنیں نوع بشر کے درمیان سے منتخب کیا گیا ۔ لیکن وہ کوئی مستقل خلقت نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان کا امتیاز ان کے مخصوص صفات سے تھا ، کسی طرح بھی آیات قرانی کے ظاہر سے سازگارنہیں ہے۔
ہم ایک بارپھر تاکید کرتے ہیں کہ تحول انواع کامسئلہ کوئی مسلم علمی قانون وکلیہ قاعدہ نہیں ہے ، بلکہ صرف ایک مفروضہ ہے کیونکہ وہ چیز کہ جس کے ڈانڈے کئی لاکھ سال قبل قاعدہ تک جاملتے ہیں ، جویقینًا قابل تجربہ اور مشاہدہ نہیں ہے اورنہ ثابث شدہ علمی قوانین کو صف میں ان کا شمارہوتا ہے ۔ بلکہ ایک ایسا مفروضہ ہے کہ جومختلف انواع واجناس کے ظہور کی توجیہ کے لیے وجود میں آیا ہے اور اس کی قدروقیمت صرف اسی قدر ہے کہ وہ عالم میں ظہور پزیر ہونے والی چیزوں کی اندازا توجیہ کرتے ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ مفروضے ہمیشہ ایک حال پر باقی نہیں رہتے ، بلکہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور نئے مفروضے ان کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔
اسی بناء پر کبھی بھی ایسے مفروضوں پرفلسفی مسائل کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ، کیونکہ فلسفی مسائل کی بنیادیں ٹھوس اور محکم ہوتی ہیں۔
ہم ارتقاء انواع کے مفروضہ کی بنیادوں اور ان کے غیر مستحکم ہونے کے بارے میں جلد 11 صفحہ 76 کے بعد کے صفحات "قرآن اور خلقت انسان" کے عنوان کے تحت سوره حجر کی آیت 28 کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں۔
اس بحث کے آخر میں اس نکتہ کی یاد آوری ضروری سمجھتے ہیں کہ ارتقاء کے مفروضہ کا مسئلہ "توحید اور خدا شناسی " سےکسی قسم کا کونی ارتباط نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ ماوراء طبیعت عالم کی نفی پردلیل شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ اعتقاد توحیدی کہتاهے کہ کائنات خدا کی طرف سے خلق ہوئی ہے اور خدا نے اسے موجودات کے تمام خواص عطا کیئے ہیں اور خدا کی طرف تمام مراحل میں ان پر میں نازل ہوتا ہے. اس معنی کو "ثبوت انواع" کے نظریے کا مقصد بھی اسی طرح قبول کرسکتا ہے ، جس طرح تحول انواع کے مفروضہ کا کوئی معقد قبول کرتا ہے ، صرف ایک مشکل جس سے تحول کا مفروضہ دو چار ہے ، یہ کہ وہ اس تفصیل کے ساتھ میل نہیں کھاتا ، اسے قرآن نے خلقت آدم کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس کی تخلیق مٹی اور گارے سے ہوئی ہے۔
اس بناء پر ہم ارتقاء کے نظریہ کی صرف اسی دلیل سے نفی کرتے ہیں نہ کومسئلہ توحید کی مخالفت کی بناء پر۔ یہ بات تو تھی تفسیری لحاظ سے۔
رہا علمی (سائنسی) اعتبار سے ، تو اس کی نفی کا تعلق ، چونکہ اس کے ثبوت کے لیے قطعی دلائل موجود نہیں ہیں، لہذا ہم اس لحاظ سے بھی اس کی نفی کرتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ