۲۔ ایک سوال کاجواب
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ۱۰وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ ۱۱وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۱۲وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ۱۳
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اس کے بعد جب راسِ خدا میں کوئی تکلیف ہوئی تو لوگوں کے فتنہ کو عذابِ خدا جیسا قرار دے دیا حالانکہ آپ کے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد آجاتی تو فورا کہہ دیتے کہ ہم تو آپ ہی کے ساتھ تھے تو کیا خدا ان باتوں سے باخبر نہیں ہے جو عالمین کے دلوں میں ہیں. اور وہ یقینا انہیں بھی جاننا چاہتا ہے جو صاحبانِ ایمان ہیں اور انہیں بھی جاننا چاہتا ہے جو منافق ہیں. اور یہ کفّار ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے راستہ کا اتباع کرلو ہم تمہارے گناہوں کے ذمہ دار ہیں حالانکہ وہ کسی کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والے نہیں ہیں اور سراسر جھوٹے ہیں. اور انہیں ایک دن اپنا بوجھ بھی اٹھانا ہی پڑے گا اور اس کے ساتھ ان لوگوں کا بھی اور روز ه قیامت ان سے ان باتوں کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا جن کا یہ افترا کیا کرتے تھے.
اس مقام پر یہ سوال اٹھایاجاتاہے کہ اسلامی قوانین میں کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ ایک انسان کا خون بہادوسرے کے ذمّہ ہوتاہے مثلاقتل کے معاملے میں خون بہا ”عاقلہ “کے ذمّہ ہے ۔
” عاقلہ “ اصطلاح فقہ میں ایک باپ کی اولاد ذکور کوکہتے ہیں کہ خون کی رقم اس اولاد ذکورہ پرتقسیم ہوجائے گا اوران میں س ے ہر ایک اپناحصہ اداکرے گا ۔
کیایہ مسئلہ مندرجہ بالاآیات کے مضامین سے متضاد نہیں ہے ؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم مباحثہ فقہی میںیہ واضح کردیاہے کہ ”عاقلہ“کاخون بہاکاضامن ہونا ،ایک قسم کا ایک خاندان کے افراد میں متقابل اور لازمی بیمہ ہے ۔
اسلام نے اس وجہ سے کہ کسی خطاکی دیّت کابارایک فرد پر نہ رہے . پورے خاندان کے افراد پر لازم کردیا کہ وہ سب باہم دگر ”دیّت خطا“ کے ضامن رہیں اوردیّت کی رقم کو آپس میں بانٹ لیں .ممکن ہے کہ آج ایک شخص خطاکامرتکب ہواورکل کودوسرا ۔
( ہم اس مسئلے کے بارے میں مزید بحث کو فقہ کی کتاب پرچھوڑ تے ہیں ) ۔
بہر حال ادائے دیّت کا یہ نظام باہمی مفاد کے لیے ایک قسم کاتعاون اور امداد باہمی ہے .اوراس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسرے آدمی کاگناہ اپنی گردن پر لے لے . با لخصوص قتل کا خون بہا حقیقت میں اس گناہ کا جرمانہ نہیں ہے بلکہ وہ ”تلافی ٴ نقصان“ہے (یہ امر مستحق غور ہے ۔